ٹریفک جرمانے؛ عوام کی حفاظت یا آمدنی کا ذریعہ؟ - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • ٹریفک جرمانے؛ عوام کی حفاظت یا آمدنی کا ذریعہ؟

    چند مہینوں سے پنجاب میں ٹریفک قوانین کے نفاذ کےحوالے سے غیرمعمولی سختی نظر آرہی ہے۔ موٹرسائیکل سواروں اور گاڑی چلانے والوں کو ہر جگہ چالان، جرمانے اور

    By Huzaifa butt Published on Dec 13, 2025 Views 145

    ٹریفک جرمانے؛ عوام کی حفاظت یا آمدنی کا ذریعہ؟

    تحریر : حذیفہ بٹ۔ نارووال

     

    چند مہینوں سے پنجاب میں ٹریفک قوانین کے نفاذ کےحوالے سے غیرمعمولی سختی نظر آرہی ہے۔ موٹرسائیکل سواروں اور گاڑی چلانے والوں کو ہر جگہ چالان، جرمانے اور کریک ڈاؤن کی خبریں گردش کررہی ہیں۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ سب عوام کی جان بچانے اور سڑکوں کو محفوظ بنانے کے لیے کیا جارہا ہے۔ بہ ظاہر یہ بات اچھی لگتی ہے، لیکن اس مقام پرایک اہم سوال  ہے:

    کیا حکومت واقعی عوام کی حفاظت چاہتی ہے یا پھر یہ سب صرف آمدن حاصل کرنے کا ایک آسان طریقہ ہے؟

    یہ سوال کیوں پیدا ہوتا ہے؟ اس لیے کہ ملک کے معاشی حالات عوام کی خیرخواہی کے حکومتی دعوے کی نفی کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک طرف بھاری جرمانے ہیں، دوسری طرف عوام کی اکثریت ایسے حالات میں زندہ رہنے کی کوشش کررہی ہے، جہاں صحت، تعلیم، روزگار اور بنیادی سہولتیں تک پوری نہیں ہوتیں۔

    پاکستان کی سب سے بڑی حقیقت غربت:

    ورلڈبینک کی 2025ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی تقریباً 44.7 فی صد آبادی غربت کی لکیرسے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ مزید 16 فی صد لوگ شدید غربت کا شکار ہیں، یعنی دن بھر میں تین ڈالر سے بھی کم پر گزارا کرتے ہیں۔ قومی اداروں کے مطابق بھی ملک کی کم از کم چوتھائی آبادی غربت کی لکیر سے نیچےزندگی گزارنے پر مجبور ہے۔یہ وہ لوگ ہیں، جن کی روزمرہ کی زندگی پہلے ہی ایک جنگ کی طرح ہے، جس میں وہ بہ مشکل اپنی روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے لیے چند ہزار روپے کا چالان محض قانون کی خلاف ورزی کی سزا نہیں، بلکہ ایک پورے ہفتے کی مشکلات کا آغاز ہوتا ہے۔ ایک مزدور جو روزانہ بارہ سے پندرہ سو روپے کماتا ہے، اگر اس پر تین ہزار روپے کا چالان ہوجائے تو وہ پورا ہفتہ مالی بحران میں مبتلا رہتا ہے۔ ایسے میں یہ دعویٰ کہ یہ سب عوام کی حفاظت کے لیے ہے، حقیقت سے میل نہیں کھاتا۔

    صحت کا نظام: ایک ٹوٹا ہوا شعبہ:

    ملک میں شعبہ صحت کے حالات بھی کسی سےڈھکے چھپے نہیں۔ ورلڈبینک کے مطابق پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر کے 40 فی صد بچے غذائی کمی کے باعث متاثر ہیں۔ اسپتالوں کی حالت، ادویات کی قیمتیں اور سہولیات کی کمی سب کے سامنے ہے۔ایسے ملک میں جہاں کروڑوں لوگ مناسب علاج کی سہولیات سے محروم ہیں ، وہاں حکومت کی توجہ ٹریفک جرمانوں پر زیادہ نظر آئے تو سوالات پیدا ہونا فطری بات ہے۔

    تعلیم؛ایک پورا ملک پیچھے رہ گیا:

    یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریباً دو کروڑ اٹھائیس لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے۔ بعض تازہ رپورٹس اسے پچیس سے چھبیس ملین تک بتا رہی ہیں، یعنی ہر تین میں سے ایک بچہ تعلیم سے محروم ہے۔صرف پنجاب میں ہی ایک کروڑ بچے اسکول سے باہر ہیں۔ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اصل کام تو تعلیم کی فراہمی تھا، مگر حکومت کا زور کہیں اور لگ رہا ہے۔ جب ایک پوری نسل اسکولوں سے باہر ہو، تو عوام کو صرف جرمانوں کے ذریعے نظم و ضبط سکھانا حقیقت پسندانہ نہیں لگتا۔اگر تعلیمی اداروں میں جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تعلیم اور ہنر کی فراہمی کی بات کی جائے تو یہاں بھی حالات پریشان کن ہیں کہ نوجوان لاکھوں خرچ کرکے ڈگری حاصل کرکے بھی بے روزگاری اور معاشی مشکلات کا شکار ہے۔ اس طرف بھی حکومت کی توجہ نہیں ہے، بلکہ حکومت تو تمام سرکاری ادارے نجی شعبے کے حوالے کرنے کے اقدامات کررہی ہے۔ 

    تو پھر مسئلہ کیا ہے؟

    اصل مسئلہ حکومت کی ترجیحات کا عدمِ توازن ہے۔ ٹریفک قوانین ضروری ہیں، اس میں کوئی شک نہیں،لیکن جب ایک ریاست بنیادی سہولتوں میں بری طرح ناکام ہو اور پھر اچانک ٹریفک پر سختی شروع کردے، تو یہ سب محض آسان آمدن حاصل کرنے کا ایک طریقہ محسوس ہوتا ہے ۔جرمانے فوری پیسہ لاتے ہیں۔ نہ کوئی بڑی سرمایہ کاری چاہیے، نہ زیادہ مینجمنٹ۔ صرف کیمرے اور پولیس اہلکار کافی ہیں۔ دوسری طرف صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ اور روزگار جیسے شعبوں میں بہت زیادہ محنت اور طویل منصوبہ بندی درکار ہوتی ہے۔ شاید اسی لیے حکومتیں نسبتاً آسان راستہ اختیار کرتی ہیں۔

    عوام کے اصل مسائل:

    حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے عوام کو سب سے زیادہ خطرہ ٹریفک کی بے قاعدگیوں سے نہیں، بلکہ ان مسائل سے ہے جنھیں حکومت نے برسوں سے نظرانداز کر رکھا ہے۔مثلاً:

    * صحت کی تباہ کن صورتِ حال

    * لاکھوں بچوں کا اسکول نہ جانا

    * محفوظ اور باسہولت پبلک ٹرانسپورٹ کا نہ ہونا

    * مہنگائی اور بیروزگاری

    * صاف پانی تک رسائی کی کمی

    ان مسائل پر توجہ دینے کے بجائے اچانک ٹریفک جرمانوں پر سختی کردی جائے تو عوام کے ذہن میں یہی سوال آتا ہے کہ اصل مقصد کیا ہے؟

    دکھاوے کی ریاست:

    سڑکوں پر جرمانے نظر آتے ہیں۔ کیمرے نظر آتے ہیں۔ پولیس کی چیکنگ بھی نظر آتی ہے،لیکن وہ اسپتال نظر نہیں آتے جن میں مریضوں کو معیاری علاج ملے۔ وہ اسکول نظر نہیں آتے، جہاں بچوں کو اچھی تعلیم ملے۔ وہ پالیسیاں بھی کہیں دِکھائی نہیں دیتیں، جن سے روزگار پیدا ہو۔ٹریفک قوانین کی سختی اس لیے زیادہ نمایاں ہے کہ یہ دکھاوے میں آسان ہے۔ میڈیا میں بھی اچھی لگتی ہے۔ عوام کو بھی فوراً نظر آتی ہے،مگر اس کے پیچھے عوامی فلاح کا کوئی مضبوط ڈھانچہ موجود نہیں۔

    اگر حکومت کا مقصد سچ میں لوگوں کی زندگی بچانا ہوتا تو سب سے پہلے وہ صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ اور روزگار پر توجہ دیتی۔اس کے بعد ٹریفک قوانین سخت ہوتے تو عوام بھی اسے صحیح سمجھتے۔حفاظت صرف ہیلمٹ سے نہیں ہوتی، بلکہ اس وقت ہوتی ہے جب:گھر میں غربت نہ ہو،بچوں کو تعلیم ملے،علاج آسان ہو،روزگار میسر ہو،اور عوام ریاست پر اعتماد رکھیں۔

     حاصلِ کلام:

    پنجاب حکومت کے ٹریفک اقدامات کاغذ پر اچھے لگتے ہیں، مگر ملک کے معاشی اور سماجی حالات کے مقابلے میں یہ کوشش یک طرفہ محسوس ہوتی ہے۔جب ملک کی بڑی آبادی غربت، بیماری، بے روزگاری اور لاعلمی میں ڈوبی ہو تو ٹریفک سختیاں لوگوں کو تحفظ سے زیادہ بوجھ محسوس ہوتی ہیں۔اصل تحفظ جرمانوں سے نہیں ملتا۔اصل تحفظ اس ریاست سے ملتا ہے جو اپنے لوگوں کی صحت، تعلیم اور روزگار پر سرمایہ کاری کرے۔جب تک یہ بنیادی کام نہیں ہوتے، عوام یہی سوچیں گے کہ ٹریفک کریک ڈاؤن عوام کی جان کی حفاظت کے لیے نہیں، بلکہ حکومت کے شاہانہ اخراجات کے لیے ریونیو جمع کرنے کا ایک استحصالی حربہ ہی ہے۔

    Share via Whatsapp