روحِ بلالی نہ رہی - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • روحِ بلالی نہ رہی

    ہم ایسے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جہاں دین کو عبادت گاہوں میں بند کر دیا گیا ہے کا اور اخلاق کو تقریروں کا موضوع بنایا گیا ہے۔

    By افسر خان شہزاد Published on Dec 25, 2025 Views 1
     روحِ بلالی نہ رہی
    تحریر: ڈاکٹر افسر خان شہزاد۔بنوں ۔

    ہم ایک ایسے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں، جہاں دین کو عبادت گاہوں میں بند کردیا گیا ہے اور اخلاق کو محض تقریروں کا موضوع بنا دیا گیا ہے۔بازاروں میں جھوٹ عام، دھوکا معمول اور فریب ایک سلیقہ سمجھا جاتا ہے۔قسمیں کھا کر مال بیچا جاتا ہے، خراب چیزیں اچھے لیبل میں چھپا کر پیش کی جاتی ہیں، مگر پیشانی پر سجدے کا نشان دیکھ کر ہم فوراً فیصلہ صادر کر دیتے ہیں کہ یہ شخص ”نیک“ ہے۔
    یہ وہ تضاد ہے جو ہمارے اجتماعی ضمیر کو گھن کی طرح کھا رہا ہے۔
    ہم نے ایمان کو لباس، حلیے اور الفاظ سے تولنا شروع کردیا ہے، نہ کہ کردار و عمل سے۔
    جس نے عمرہ کیا، حج ادا کیا، چالیس دن لگا کر آیا یا چار ماہ گزار کر آیا، وہ فوراً ”نیک“ سمجھ لیا جاتا ہے، چاہے بازار میں جھوٹ بیچے، ناپ تول میں کمی کرے، سود کھائے یا کمزور کا حق مار لے۔
    حال آں کہ یہ وہ دین نہیں جو رسولِ اکرم ﷺ نے سکھایا تھا۔
    آپ ﷺ نے فرمایا:
    ”سچا اور امانت دار تاجر قیامت کے دن انبیا، صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہوگا“۔  
    مگر ہم نے ایمان کے پیمانے ہی بدل ڈالے۔
    آج سچ بولنے والا ”سادہ“ کہلاتا ہے اور جھوٹ بولنے والا ”سمجھ دار“۔
    دیانت کو بےوقوفی اور دھوکے کو قابلیت سمجھ لیا گیا ہے۔
    ہم نے بڑے سکون سے اخلاقی ضمیر کا سودا مذہبی ظاہرداری کے عوض کردیا ہے۔
    اس طرح کی  سوچ رکھنا کہ زیادہ عبادت، زیادہ عمرے اور زیادہ ظاہری مذہبیت ہی نجات ہے ۔ یہ قرآن کی تعلیم نہیں۔ 
    قرآن کہتا ہے:
    ”بے شک اللہ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے“۔ 
    اصل ایمان عدل، احسان، امانت اور سچائی سے پہچانا جاتا ہے۔
    اللہ اس عبادت کو پسند نہیں کرتا جو جھوٹ، ظلم اور فریب سے آلودہ ہو۔
    نماز اگر کردار نہ سنوارے تو وہ روح کی غذا نہیں بن سکتی۔
    روزہ اگر نفس امارہ کو نہ توڑے اور ان معیارات پر پورا نہ اترےجو قرآن وسنت میں بیان کیے گئے ہیں تو وہ بھوک برداشت کرنے کی مشق ہے، عبادت نہیں۔
    آج ہمیں نیکی کے معیار  کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
     نیکی صرف داڑھی یا جبہ میں نہیں ، بلکہ دیانت بھی اہم نیکی  ہے۔
     مسجد میں ادا کی گئی عبادت کا اَثر بازار میں بھی نظر آنا چاہیے۔
     ایمان صرف تسبیح گھمانا نہیں ، بلکہ سچائی، انصاف اور امانت پر ثابت قدم رہنا بھی ایمان ہی ہوتا ہے۔
    اسلام کا مقصد انسان کو صرف عابد بنانا نہیں، بلکہ عادل بنانا بھی ہے۔
    عبادت کا کمال عدل میں ہے اور ایمان کا ثبوت کردار میں نظر آنا چاہیے۔ 
    جب تک ہمارے بازار جھوٹ سے بھرے رہیں گے، 
    جب تک ہمارا معاشی نظام دھوکے اور سود پر کھڑا رہے گا،
    تب تک نہ صرف حج ہمیں بدل سکے گا، نہ نماز ہمیں بہتر انسان بنا سکے گی۔
    ہمیں ایک نئی سماجی بیداری کی ضرورت ہے، ایسی بیداری جس میں نوجوان ظالم سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف شعور پیدا کریں،جماعتی سطح کے نظام تربیت میں خود کو ڈھالےاور کندن بن کر عادلانہ سماجی تبدیلی میں کردار ادا کرے۔ تاکہ نیکی کو ظاہرداری کی بجائے سچائی، امانت اور خیرخواہی سے جوڑیں۔
    ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ  ٹرسٹ لاہور ایسی ہی عادلانہ سماجی تبدیلی لانے والوں کے لیے تعلیم وتربیت کا ایک ماحول فراہم کرتا ہے۔ 
    اس کام کے نتیجے میں ہمارا ایسا معاشرہ بنے گا، جہاں لوگ ایک دوسرے کو شک سے نہیں،بلکہ عزت و احترام کی نظر سے دیکھیں گے۔
    جہاں ایمان صرف عبادت میں نہیں، بلکہ  سماج میں انصاف ہوگا۔
    جہاں سجدے پیشانی پر نہیں، کردار میں چمکیں گے۔
    اور یہی وہ اسلام ہے جو اللہ کو پسند ہے، جو انسان کے دل میں نورایمان بھرتا ہے۔
    اللہ تعالیٰ ہمیں باکردار عبادت گزار بنائیں اور ریاکاری سے محفوظ فرمائے، آمین!
    Share via Whatsapp