سماجی تشکیل میں رواداری اور وُسعت قلبی کی اہمیت
انسانی تاریخ کی سب سے خطرناک بیماری وہ نہیں جو جسموں کو کمزور کرتی ہے، بلکہ وہ ہے جو دِلوں اور ذہنوں کو اندھا کر دیتی ہے۔
سماجی تشکیل میں رواداری اور وُسعت قلبی کی اہمیت
تحریر: ڈاکٹر افسر خان شہزاد۔ بنوں
انسانی تاریخ کی سب سے خطرناک بیماری وہ نہیں جو جسموں کو کمزور کرتی ہے، بلکہ وہ ہے جو دِلوں اور ذہنوں کو اندھا کر دیتی ہے۔ فرقہ پرستی، جماعت پرستی اور شخصیت پرستی یہ وہ مہلک وائرس ہے جو انسان کے اندر یہ زہر بھر دیتا ہے کہ ”میری سوچ ہی درست ہے، میرا فرقہ ہی برحق ہے، میری جماعت ہی مقدس ہے اور میرا لیڈر ہی نجات دہندہ ہے“۔ جب قومیں اس گمراہی میں ڈوب جاتی ہیں تو ان کی عقل، ان کی بصیرت اور ان کی آزادی سب کچھ چھین لی جاتی ہے۔
آج کا پاکستانی اسی ذہنی وَبا میں مبتلا ہے۔ یہاں ہر شخص اپنے نظریے، اپنے لیڈر، اپنے گروہ اور اپنی جماعت کے عشق میں اس قدر اندھا ہوچکا ہے کہ اسے حق اور باطل کی پہچان ہی نہیں رہی۔ ہر طرف نعرے ہیں، پوسٹر ہیں، تصویریں ہیں، جلسے اور جلوس ہیں، مگر کردار غائب ہے۔ لوگ اپنے لیڈروں کے ساتھ تصویریں کھنچوا کر خود کو معتبر سمجھتے ہیں، ان کے ساتھ اُٹھنےبیٹھنے کو فخر جانتے ہیں اور مخالفین کو بُرا بھلا کہہ کر یا گالیاں دے کر سمجھتے ہیں کہ شاید وہ جنت کما رہے ہیں۔یہی وہ اِنفرادیت کی سوچ ہے جو ایک قوم کو تباہ کردیتی ہے اورقومی اتحاد کو توڑ کر نفرت کے بیج بوتی ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
ترجمہ: ”اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو، اور تفرقے میں نہ پڑو۔[آل عمران: 103]“
یہ آیت مبارکہ ہمیں بتلاتی ہے کہ اصل وحدت اللہ تعالیٰ کے دین میں ہے، کسی مفاد کی بنیاد پر سیاسی نعرے یا کسی پارٹی کے منشور میں نہیں۔ہم نے اللہ کی رسی کو چھوڑ دیا اور اپنے اپنے نام نہاد لیڈروں کے پیچھے اندھا دھند چل پڑے۔ہم نے اسلام کی وُسعت کو مفادپرست جماعتوں کی حدود میں قید کردیا، اور خود کو "سب سے برتر" سمجھنے لگے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"لَيْسَ مِنَّا مَنْ دَعَا إِلَى عَصَبِيَّةٍ"(ابو داؤد)
ترجمہ: ”جو شخص قوم، قبیلہ یا گروہ پرستی کی دعوت دے وہ ہم میں سے نہیں“۔
یہ حدیث مبارکہ اُس قوم کے نام پیغام ہے جو ہر الیکشن میں تقسیم ہوجاتی ہے، ہر مسجد میں جھگڑتی ہے اور ہر نظریاتی اختلاف کو دشمنی میں بدل دیتی ہے۔اسلام میں عظمت کا معیار پارٹی یا گروہی طاقت نہیں، بلکہ تقویٰ اور انصاف ہے۔جیسا کہ قرآنِ حکیم میں فرمایا گیا:
ترجمہ: ”اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے“۔ [الحجرات: 13]
حقیقت میں اعلیٰ انسان وہ ہے جو اپنی مخصوص پارٹی کے مفاد سے بلند ہوکر پوری انسانیت کا خیرخواہ ہو۔ہمارا رب ”ربّ العالمین“ ہے، نہ کہ ربّ المسلمین۔ہمارے نبی ﷺ ”رحمةً للعالمین“ یعنی تمام جہانوں کے لیے رحمت ہیں، نہ کہ صرف مسلمانوں کے لیے۔
پھر ہم نے اپنے آپ کو جماعتوں، مسلکوں ، قوموں اور پارٹیوں کے خول میں کیوں قید کر رکھا ہے؟پاکستان اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا، جب تک کہ ہر شہری یہ تسلیم نہ کر لے کہ سچ کسی ایک جماعت یا لیڈر کی میراث نہیں۔
جوفرد عدل کی سوچ رکھے، عدل کے قیام کی جدوجہد کرے، جو عوام کے دُکھوں کو سمجھے اور اس کا مداوا کرے، جو اپنے اقتدار سے زیادہ قوم کے درد کو ترجیح دے، وہی اصل رہنما ہے۔اصل لیڈر وہ نہیں جو نعرے لگائے، بلکہ وہ ہے جو قوم کے زخموں پر مرہم رکھے۔قوم کو ترقی دے۔امن، عدل اور معاشی خوش حالی قائم کرنے کی ان تھک جدوجہد کرےاور سچی جماعت بنا کر اس کی تربیت کرےاور اپنی قوم کا شعور بیدار کرے۔
وطنِ عزیز میں اسی شعور کی بیداری کے لیے ”ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور“ایک روشن چراغ بن کر سامنے آیا ہے۔یہ ادارہ وطنِ عزیز کے نوجوان کو اس نہج پر تربیت دیتا ہے کہ وہ عصبیت، اندھی تقلید اور تشدد کے دائرے سے نکل کر عدل و انصاف کے عالمی نظام کے قیام کے لیے فکری اور عملی طور پر تیار ہوں۔ادارہ رحیمیہ دینی مدارس اور کالج یونیورسٹی کے نوجوان میں سے دین و دنیا کی تقسیم ختم کرکے انھیں ایک قومی سوچ پر اکٹھا کررہا ہے۔ یہ ادارہ ہمیں سکھاتا ہے کہ انقلاب بندوق سے نہیں، کردار سے آتا ہے۔اور لیڈر وہ نہیں جو حکم دے، بلکہ وہ ہے جو قوم کو سوچنا، سمجھنا اور بولنا سکھائے۔
اَب وقت آ چکا ہے کہ ہم اپنے اندر کی ذہنی غلامی کو اپنے سے جھٹک دیں۔اندھی عقیدت کے نشے سے جاگ اٹھیں۔ اپنے ضمیر کی آواز سنیں، چاہے وہ ہمارے پسندیدہ لیڈر کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ جب تک ہم اس بنیادی اصول کو مان نہ لیں کہ حق بات پر کسی ایک پارٹی، فرقے یا جماعت کا اجارہ نہیں، بلکہ حق بات کسی کے پاس بھی ہوسکتی ہے، تب تک ہم نہ اپنے ضمیر کو آزاد کروا سکتے ہیں نہ اپنے وطن کو۔ جس دن قوم اپنے نام نہاد اور جھوٹےلیڈروں کے سائے سے نکل کر حق کے پرچم تلے جمع ہوگی ،وہی دن ہوگا جب پاکستان حقیقی معنوں میں آزادی کے سفر پر گامزن ہوسکے ہوگا۔ جب اس دھرتی کا ہر اک باسی یہ محسوس کرے گا کہ یہ دھرتی کسی مخصوص پارٹی والوں کی نہیں ۔یہ دھرتی ان سب افراد کی مشترک ہے جو اس کے باسی ہیں اور اس کے باسی اپنی دھرتی کو ترقی دینے کے لیے ہمہ تن مستعد اور عملی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں ۔









