تعلیم اور معاشرہ - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • تعلیم اور معاشرہ

    پاکستانی معاشرے میں موجودہ تعلیمی نظام اور اسکے مقابلے میں اس کے تقاضے

    By میاں عمیر مجید Published on Aug 29, 2025 Views 169
    تعلیم اور معاشرہ
    میاں عمیر مجید، لاہور

    کسی بھی قوم کی ترقی کا انحصار اس کے تعلیم یافتہ افراد پر ہوتا ہے۔ نوجوان نسل، خاص طور پر شعور، بصیرت اور اخلاقی اقدار سے آراستہ ہو، تو وہ اپنے ملک کو ہر میدان میں ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتی ہے۔ تعلیم صرف کتابی علم نہیں، بلکہ انسان کو سوچنے، سمجھنے، فیصلہ کرنے اور معاشرتی خدمت کے لیے تیار کرتی ہے۔ آج کی ترقی یافتہ اقوام جیسے جاپان، جرمنی، کوریا اور چین میں قومی تقاضوں کے مطابق تعلیم اولین ترجیح ہے، یہی وَجہ ہے کہ وہ اقتصادی اور سائنسی لحاظ سے دنیا کی اقوام میں نمایاں ہیں ۔
    قومی بجٹ اور آئی ایم ایف کی پالیسیاں
    اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم صوبوں کے دائرہ اختیار میں آچکی ہے۔23-2022ءمیں مجموعی طور پر 1,032 ارب روپے، جب کہ25-2024ء میں یہ بجٹ بڑھ کر 1,770 ارب روپے تک پہنچا۔ تاہم اس کے باوجود تعلیم پر قومی پیداوار (GDP) کا صرف 0.8فی صد خرچ ہو رہا ہے، جو عالمی معیار (4–6فی صد) سے انتہائی کم ہے۔ اس کی بڑی وجوہات میں آئی ایم ایف کی سخت شرائط اور پالیسی سازی کی کمزوری شامل ہیں۔ 
    تعلیمی بجٹ کا موازنہ:23-2022ء بہ مقابلہ 25-2024ء 
    صوبہ / اکائی 2022–23ء 2024–25ء (%)تبدیلی بجٹ میں تعلیم کا حصہ 
    ۔۔۔۔۔۔ (ارب روپے) (ارب روپے) 2024–25ء فی صد 
    پنجاب 587 669.7 +14.1% 12.3%
    سندھ 326 454 +39.2%  14.85%
    خیبرپختونخوا 308 362.7 +17.7% 20.67%
    بلوچستان 91 126.6 +39.1%  15.37%
    آزاد جموں و کشمیر 40 48.5 +21.3% 18.38%
    گلگت بلتستان 7.9 9.1 +15.1% 6.51%
    وفاقی حکومت 72 79 +9.7% 0.41%
    اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگرچہ 2024–25ء میں تعلیمی بجٹ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، لیکن اس کے باوجود بجٹ کا مجموعی تناسب اور حقیقی اَثرات اَب بھی ناکافی ہیں۔
    تعلیم یافتہ افراد اور ان کا کردار
    تعلیم یافتہ فرد وہ نہیں جو محض ڈگری حاصل کرے، بلکہ وہ ہے جو معاشرتی اصلاح میں حصہ لے، سوال اُٹھائے، حل تلاش کرے اور تنقیدی سوچ اپنائے۔ پاکستان میں بدقسمتی سے تعلیم کا معیار اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ "پڑھا لکھا" صرف اس شخص کو کہا جاتا ہے جو نام لکھ سکتا ہو۔ ہائیر ایجوکیشن کے طلبا میں تخلیقی سوچ، مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت، یا ٹیم ورک جیسی بنیادی مہارتیں بہت کم پائی جاتی ہیں۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ تعلیم کا مقصد صرف امتحان پاس کرنا، نمبرز حاصل کرنا اور نوکری کی تلاش بن چکا ہے۔ معاشرے میں مثبت تبدیلی کے لیے تعلیم کو "کردار سازی" کے زاویے سے دیکھنا ہوگا۔
    پاکستانی تعلیمی ڈھانچے کا جائزہ
    ملک کے تعلیمی نظام کو طبقاتی تقسیم نے جکڑ رکھا ہے۔ ایک طرف اشرافیہ کے لیے ایلیٹ اسکولز، کیمبرج نصاب اور مہنگی جامعات ہیں، تو دوسری طرف عام عوام کے لیے خستہ حال سرکاری اسکول، بوسیدہ نصاب اور سہولیات سے محروم ادارے۔ نہ جدید سائنس ہے، نہ پروگرامنگ، نہ مالیاتی تربیت اور نہ ہی اخلاقی تعلیم کا مربوط نظام۔ پاکستان کی 45 تحصیلیں ایسی ہیں، جہاں مکمل طور پر تعلیم کی سہولت مفقود ہے — یہ ایک تشویش ناک صورتِ حال ہے جو واضح کرتی ہے کہ "تعلیم سب کے لیے" صرف ایک نعرہ رہ گیا ہے۔
    لارڈ میکالے کا تعلیمی نظام اور اس کے اَثرات
    1835ء میں برطانوی وزیر لارڈ میکالے نے "منٹ آن انڈین ایجوکیشن" کے تحت برصغیر میں جو تعلیمی نظام متعارف کروایا، اس کا بنیادی مقصد علم و شعور کی ترویج نہیں، بلکہ غلامانہ ذہنیت پیدا کرنا تھا۔ میکالے نے واضح طور پر لکھا کہ ہمیں ایک ایسا طبقہ تیار کرنا ہے جو ظاہراً تو ہندوستانی ہو، لیکن خیالات، اخلاق اور عقل میں انگریز ہو۔ اس پالیسی کے تحت ہندوستانی زبانوں، سائنس، منطق، فلسفہ اور فنون کو دانستہ طور پر تعلیم سے نکال کر صرف انگریزی زبان اور مغربی فکر کو فروغ دیا گیا۔ نتیجتاً تخلیقی سوچ کا زوال، رَٹہ سسٹم کی بنیاد اور طبقاتی نظام تعلیم کی داغ بیل پڑی—جس میں امیر طبقے کے لیے معیاری تعلیم اور غریب کے لیے محض رسمی تعلیم باقی رہی۔ یہ نظام آج بھی پاکستان میں موجود ہے، جہاں تعلیم کا مقصد کردار سازی یا تخلیق نہیں، بلکہ نوکری حاصل کرنا اور محض نمبر لینا رہ گیا ہے۔
    پنجاب: بڑا نظام، بڑی غفلت
    پنجاب میں سب سے بڑا تعلیمی نظام اور ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ موجود ہے، جس میں 48,000 اسکول اور 400,000 اساتذہ شامل ہیں، لیکن اس سب کے باوجود تعلیمی معیار تنزلی کا شکار ہے۔ طلبا کو محض نمبر لینے کے لیے رَٹہ لگانا سکھایا جاتا ہے، جب کہ سیکھنے کی صلاحیت، تنقیدی سوچ اور مسئلہ حل کرنے کا رجحان بالکل نہیں۔ کالج اور یونیورسٹیز میں نہ تحقیق کو فروغ دیا جا رہا ہے اور نہ ہی جدت کی تربیت ہے۔ اساتذہ کی کمی، وسائل کا فقدان، انفراسٹرکچر کی خستہ حالی اور تعلیمی نگرانی کا غیر مؤثر نظام — سب نے مل کر اس پورے صوبے کو تعلیمی زوال کی طرف دھکیل دیا ہے۔
    سندھ: سیاسی مداخلت اور جاگیردارانہ سوچ 
    سندھ میں تعلیم کے راستے میں جاگیردارانہ سوچ اور سیاسی مداخلت سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ 12 تحصیلیں تعلیم سے محروم ہیں۔ 11,000 اسکول ایسے ہیں، جہاں صرف کاغذوں میں طالب علم اور اساتذہ موجود ہیں، جب کہ عملی طور پر یہ اسکول "گھوسٹ اسکول" کہلاتے ہیں۔ سیاسی اَثر و رسوخ رکھنے والے خاندان اپنی زمینوں اور جاگیروں پر اسکولوں کی جگہ پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں۔ اساتذہ کی بھرتیاں سفارش پر ہوتی ہیں، حاضری کا کوئی نظام نہیں اور تعلیمی معیار روز بروز گرتا جا رہا ہے۔ جب تک جاگیردارانہ نظام کو ختم نہیں کیا جاتا، تعلیم عام عوام تک نہیں پہنچ سکتی۔
    بلوچستان: نظرانداز شدہ صلاحیتیں
    بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ ہے۔ یہاں صرف دو تحصیلیں تعلیم سے محروم نہیں، بلکہ پورے صوبے میں تعلیمی بحران موجود ہے۔ بیش تر اسکولوں میں عمارت نہیں، اساتذہ رجسٹرڈ نہیں اور تعلیمی سرگرمیاں شدید متاثر ہوتی ہیں۔ لڑکیوں کی تعلیم کو مخصوص علاقوں میں ثقافتی طور پر ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔ طویل فاصلے، ناقص راستے اور سیکیورٹی خدشات مزید رکاوٹ بنتے ہیں۔ پھر بھی یہاں کے نوجوان قدرتی ذہانت اور صلاحیتوں کے حامل ہیں، جنھیں مناسب تربیت دی جائے تو وہ عالمی سطح پر ملک کا نام روشن کر سکتے ہیں۔
    خیبرپختونخوا: قیادت کی ناکامی اور وسائل کا فقدان
    خیبرپختونخوا کی بھی ایک تحصیل مکمل طور پر تعلیم سے محروم ہے۔ اگرچہ کچھ شہروں میں ادارے موجود ہیں، مگر وہاں بھی معیارِ تعلیم اور بنیادی سہولیات ناپید ہیں۔ اساتذہ کی کمی، غیر تربیت یافتہ عملہ اور دور دراز علاقوں میں اسکولوں تک رسائی نہ ہونا اہم مسائل ہیں۔ یہاں کے نوجوان اکثر پنجاب یا اسلام آباد کی طرف تعلیم و روزگار کے لیے ہجرت کرتے ہیں۔ صوبائی حکومت کی جانب سے تعلیمی معیار پر توجہ کم رہی ہے اور اکثر ترقیاتی فنڈز دیگر شعبوں میں ضائع ہو جاتے ہیں۔
    تعلیم کی مجموعی صورتِ حال
    ملک بھر میں تعلیم کی شرح 60 فی صد سے بھی کم ہے۔ لاکھوں بچے اسکول سے باہر ہیں اور جو اسکول میں ہیں وہ بھی رَٹہ سسٹم اور ناقص تربیت کا شکار ہیں۔ نصاب فرسودہ ہے اور ٹیکنالوجی کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے۔ تعلیمی اصلاحات پر صرف کاغذی بیان بازی کی جاتی ہے، جب کہ عملی اقدامات کا فقدان ہے۔ اسکولوں اور یونیورسٹیوں کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے نیا ویژن، نیا عزم اور سیاسی مداخلت سے پاک ماحول درکار ہے۔ 
    عالمی موازنہ اور تعلیمی بجٹ
    دنیا کی ترقی یافتہ اقوام جیسے فن لینڈ، سویڈن، جرمنی اور جاپان میں تعلیم کے لیے قومی بجٹ کا 5% سے 7% حصہ مختص کیا جاتا ہے۔ ان ممالک میں تعلیم کو سرمایہ کاری سمجھا جاتا ہے، جب کہ پاکستان میں یہ محض ایک خرچ تصور ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں تعلیمی بجٹ 2 فی صد سے بھی کم ہوتا ہے، جو ملک کی مجموعی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اگر تعلیم پر بجٹ بڑھا کر عالمی معیار کے برابر کر دیا جائے اور انسانی وسائل کی تنظیم قومی تقاضوں کے مطابق ہو تو چند سالوں میں پاکستان دنیا کی تعلیمی دوڑ میں آگے آ سکتا ہے۔
    تعلیم، ہنر اورخواتین کا کردار: ایک نظر انداز پہلو
    پاکستان کی 60 فی صد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، مگر ان میں سے بیش تر کے پاس کوئی فنی یا تکنیکی مہارت نہیں۔ تعلیم کو ہنر سے جوڑنے کے لیے اسکول، کالج اور یونیورسٹیز میں ٹیکنیکل ایجوکیشن کو شامل کرنا ضروری ہے۔ پروگرامنگ، ڈیجیٹل مارکیٹنگ، روبوٹکس، فنانس اور انٹرپرینیورشپ جیسے مضامین لازمی ہونے چاہییں، تاکہ نوجوان صرف نوکری کے پیچھے نہ بھاگے، بلکہ روزگار دینے والا بنے۔

    ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی اعلیٰ  اقدار نئی نسل تک منتقل کریں۔ اپنے وسائل میں رہ کر آگے بڑھنا سکھائیں قومی شعورسے آراستہ کریں اور قوم سے محبت کرنا سکھائیں۔ تعلیمی بجٹ کورفتہ رفتہ دوگنا کیا جائے، نصاب میں سائنسی، تحقیقی اور اخلاقی مضامین شامل کیے جائیں، اساتذہ کو تربیت دی جائے اور میرٹ پر بھرتی کی جائے، طلبا کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے کا ماحول فراہم کیا جائے۔ اگر آج ہم نے تعلیم پر سنجیدگی سے توجہ نہ دی، تو آنے والی نسلیں صرف ماضی کا نوحہ لکھیں گی، مستقبل کا خواب نہیں۔
     جب تک بجٹ کا شفاف استعمال، بہتر پالیسی سازی اور بین الاقوامی دَباؤ سے آزاد قومی تعلیمی حکمت عملی نہیں اپنائی جاتی، تب تک یہ اعداد و شمار زمینی سطح پر بہتری لانے میں ناکام رہیں گے۔

    Reference
    Pakistan Education Statistics – NEMIS 2021-22
    Pakistan Economic Survey 2023-24 – Ministry of Finance
    Economic Survey 2024-25: Education spending plummets to 0.8pc of GDP
    https://www.dawn.com/news/1916136?utm
    Macaulay's Minute on Education, February 2, 1835
    https://home.iitk.ac.in/~hcverma/Article/Macaulay-Minutes
    Eon Podcast from youtub
    Share via Whatsapp