پانی کا فطری قانون، ہمارے رویے اور ذمہ داریاں - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • پانی کا فطری قانون، ہمارے رویے اور ذمہ داریاں

    پانی کی فطرت کا اظہار کرکہ رہتا ہے ۔کوئی لاکھ کوشش کرلے یہ پانی نہ انسانوں کی ذاتی اور گروہی سوچ کو دیکھتا ہے نہ سرحدوں کے حدود کو تک محدود رہتا ہے۔

    By Abid Hussain Published on Sep 21, 2025 Views 363

    پانی کا فطری قانون، ہمارے رویے اور ذمہ داریاں

    تحریر: عابدحسین کولاچی، کراچی 


    یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پانی کو اگر راستہ نہ دیا جائے تو وہ اپنا راستہ خود بناتا ہے۔ اس کے سامنے چاہے بے کسوں کے کچے مکانوں سے بنے گاؤں ہوں، یا سیر و سیاحت کے لیے دریا کنارے بنے عالیشان ہوٹل۔ چاہے معاشی ضروریات کے لیے گھر سے نکلے محنت کش، مسافر یا مجبور لوگ ہوں ، سب یکساں اس کے سامنے بے بس ہیں۔ پانی کے لیے نہ کسی کی بے چارگی کا کوئی مطلب ہے، نہ کسی کی خوشی کی فکر اور نہ ہی کسی کی مجبوری سے سروکار۔ یہ پانی مال و مویشی اور انسانی جانوں کو تنکے کی طرح بہاتا ہوا گویا اعلان کرتا ہے: "اے انسان! میں تیرے لیے حیات کا مکمل نظام لیے ہوئےہوں، لیکن تو نے میری راہ میں رکاوٹیں ڈالیں۔ نہ اپنی جان کی حفاظت کا انتظام کیا، نہ میرے لیے کوئی مناسب نظام بنایا۔

    پڑھے لکھے طبقے کی لاتعلقی اور مفادپرستی کا جال:

    ایسے قصبے،علاقے اور شہر جہاں ڈاکٹرز، انجینئرز  یا دیگر پیشہ ور افراد بستے ہوں، اگر وہ صرف اُجرت کے عوض اپنی صلاحیتوں کا استعمال جانتے ہوں اور اپنے مفاد میں مبتلا ہونے سے ان کی سوچ اس حد تک محدود ہو جائے کہ معاشرے کے بڑھتے مسائل سے ان کا کوئی لینا دینا نہ ہو، تو یہ خود انھی کے لیے تباہی کا باعث بنتا ہے۔ جب یہ لوگ اس فکر سے جدا ہوجاتے ہیں کہ ان کا علاقہ کس بدنظمی کا شکار ہے، ندی نالوں اور سڑکوں کا کیا حال ہے، تو ان کا کردار غیرسیاسی اور غیرسماجی ہوجاتا ہے۔ وہ علاقائی یا ملکی نظام کو درست کرنے کے فکر سے کوسوں دور ہوجاتے ہیں اور سماجی انتظامی معاملات کو محض سیاست سمجھ کر علاحدگی اختیار کرلیتے ہیں۔

    اگرچہ یہ لوگ جانتے ہیں کہ تمام مسائل کی اصل وَجہ کیا ہے، پھر بھی خاموشی اختیار کر کے بیٹھ جاتے ہیں کہ "ہم کچھ نہیں کر سکتے"۔ لیکن پانی تو ایک نظام چاہتا ہے۔ جب یہ نہیں ملتا تو پانی انھیں آئینہ دِکھاتا ہے اور وہی لوگ اسی پانی میں اپنی بے بسی کے ساتھ ڈوبتے رہتے ہیں۔ ان کی محنت سے بنے گھر اور کمائی کی جمع پونجی ان کی آنکھوں کے سامنے تباہ ہوتے نظر آتی ہے۔

    مذہبی طبقے کا موقف: 

    ایسے علاقوں میں جہاں مذہبی لوگ ملکی نظم و ضبط اور انتظامی معاملات سے اس سوچ کی بنا پر الگ ہوجاتے ہیں کہ "سیاست دنیاوی کام ہے"، وہاں بھی یہی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ یہ لوگ صرف آخرت کی فکر میں عبادات میں مشغول رہتے ہیں، اجتماعی سوچ کے بجائے اِنفرادیت پر زور دیتے ہیں اور دنیاوی معاملات کو دوسرے درجے کی حیثیت دیتے ہیں۔ جب سماج میں ان رویوں کے ردِعمل میں مجبوری، لاچاری اور قلت کا شکار ہوتے ہیں تو اسے "اللہ کی طرف سے آزمائش" سمجھتے ہیں۔ حال آں کہ اللہ پاک کسی کو اس کی برداشت سے زیادہ نہیں آزماتا اور کیا آزمائش صرف بے بس، لاچار، مجبور لوگوں پر آتی ہے؟

    ایسی سوچ کے حامل مذہبی طبقے کے لیے بھی یہ سیلاب کا پانی اپنا قانون نہیں بدلتا۔ دریا بھی تو دنیا کا ہے۔ جب اسے دنیاوی چیز سمجھ کر اس کے لیے کوئی انتظام نہیں کیا جاتا تو یہ پانی ایسے افراد کی فکر کیوں کرے جو آخرت کی فکر میں مبتلا رہ کر دنیا کی فکر نہیں کرتے؟

    خود کو غیرسیاسی کہنے سے مسائل حل نہیں ہوتے، بلکہ دوسروں کو اس بات کی دعوت ملتی ہے کہ وہ آکر آپ کی گردنوں کے مالک بن جائیں، بدانتظامی کا نظام بنا کر آپ کو ڈبو دیں۔ اگر زندہ رہنے کا موقع ہی نہیں ملے گا تو آخرت کی تیاری کیسے کرسکیں گے؟

    مفاد پرست حکمران اور قدرت کا انتقام:

    موجودہ سیاست کے آلہ کار لوگ جن کی سوچ کل انسانیت کی بھلائی کے بجائے محض ذاتی اور گروہی مفادات کی بنیاد پر اقتدار کے مزے لوٹنے پر مبنی ہے، وہ اپنی عیاشیوں کے لیے قانون سازی اور نفاذ کا کھیل کھیلتے ہیں۔ قدرت کے اس فطری نظام پر کوئی غور نہیں کرتے جو برابری کی بنیاد پر کام کرتا ہے۔ ایسی صورت میں قدرت انھیں ضرور بتاتی ہے کہ ان کا طرزِعمل کیا ہے اور ان کے انتظامات کتنے ناقص اور بے معنی ہیں۔ قدرتی وسائل جو انسانیت کے فائدے کے لیے ہوتے ہیں، ان سے بھی نقصان اُٹھانا پڑ جاتا ہے۔ یہ بارشوں اور سیلابوں کا پانی بے بس انسانوں کی جانوں کو نگلتا ہوا ایسے حکمرانوں کے کندھوں پر ان کے قتل کا جرم لکھتا جاتا ہے، جس سے ان کی نجات ناممکن ہے۔

    پانی کی فطری طاقت اور ہماری ذمہ داریاں :

    پانی کی یہ فطرت بالکل اٹل ہے کہ وہ اپنی قدرتی طاقت کا اِظہار کرتا رہے گا۔ یہ کوئی محدود یا کمزور عنصر نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا کردہ لامحدود قوت کا مظاہرہ ہے۔ جب یہ اپنے اصل روپ میں آتا ہے تو نہ کسی انسان کی دولت کا لحاظ کرتا ہے، نہ سیاسی طاقت کا خیال رکھتا ہے، اور نہ ہی مذہبی یا دنیاوی امتیازات کو دیکھتا ہے۔ اس کے سامنے امیر غریب، حاکم محکوم، عالم جاہل سب برابر ہیں۔

    یہ پانی ایک آفاقی پیغام لے کر آتا ہے کہ جو قانون قدرت نے بنائے ہیں ان کے سامنے جھکنا ہی پڑے گا۔ انسان لاکھ تکبر کرے، لاکھ اپنی مصنوعی دیواریں کھڑی کرے، لیکن جب قدرت کا یہ عنصر اپنی اصل شکل میں ظاہر ہوتا ہے تو تمام انسانی غرور اور اکڑ کو بہا کر لے جاتا ہے۔ یہ ہمیں یاد دِلاتا ہے کہ انسان کتنا بھی ترقی کر لے، وہ قدرت کے سامنے محض ایک کمزور مخلوق ہے، جسے اپنی اصل حیثیت کو پہچانتے ہوئے عاجزی اور انکساری کے ساتھ قدرت کے قوانین کا احترام کرنا چاہیے۔

    آج وطن عزیز میں کچھ ایسی ہی صورتِ حال ہے۔ اس سے نکلنے کے لیے ہمیں ہوش کے ناخن لینے پڑیں گے۔ پانی انسانیت کو دعوت دیتا ہے کہ دنیا میں کل انسانیت کے لیے عدل و انصاف کے معاملات کے ساتھ ساتھ قدرت کے تمام وسائل کو محفوظ کرنے کا ایک مربوط نظام بنانا پڑے گا۔ ورنہ وہ وسائل جو رحمت ہیں، زحمت بن کر سامنے آتے رہیں گے اور ہماری تباہی کا باعث بنتے رہیں گے۔

    قرآنِ مجید میں خلافت کا تصور محض مذہبی عبادات تک محدود نہیں، بلکہ زمین پر اللہ کےاحکامات کے مطابق نظام کے قیام سے متعلق ہے۔ "اور وہی ہے جس نے تمھیں زمین میں خلیفہ بنایا" (فاطر: 39)۔ یہ خلافت دنیا اور آخرت دونوں کی ذمہ داری شامل کرتی ہے۔

    تعلیم یافتہ طبقے کی ذمہ داری: 

    تعلیم یافتہ طبقے کو سمجھنا چاہیے کہ ان کی مہارت اور علم صرف ذاتی فائدے کے لیے نہیں، بلکہ معاشرے کی بہتری کے لیے ایک امانت ہے۔ جب کوئی ڈاکٹر، انجینئرز، یا کوئی اور پیشہ ور شخص اپنی صلاحیتوں کو صرف اُجرت کے عوض استعمال کرتا ہے اور معاشرتی مسائل سے آنکھیں موند لیتا ہے، تو وہ اپنی اصل ذمہ داری سے غافل ہوجاتا ہے۔ ایسے افراد کو سیاسی اور سماجی معاملات میں فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔ یہ کردار محض ووٹ ڈالنے تک محدود نہیں، بلکہ اپنے علاقے کی بہتری کے لیے آواز اُٹھانا، غلط پالیسیوں کی مخالفت کرنا اور مثبت تبدیلی کے لیے کام کرنا شامل ہے۔ انھیں مقامی انتظامیہ سے رابطہ رکھنا چاہیے اور اپنے تخصص کے مطابق تعمیری تجاویز دینی چاہیے، تاکہ علاقائی مسائل کا بہتر حل تلاش کیا جا سکے۔

    مذہبی طبقے کا کردار: 

    مذہبی طبقے کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ دنیا اور آخرت کو الگ خانوں میں تقسیم نہ کریں۔ اسلام ایک جامع دین ہے جو انسانی زندگی کے ہر شعبے کو محیط کرتا ہے۔ جب مذہبی لوگ یہ سوچتے ہیں کہ سیاست یا سماجی معاملات دنیاوی کام ہیں، جن سے بچنا چاہیے، تو وہ اسلام کے بنیادی تصور سے دور ہوجاتے ہیں۔ اسلام کا جامع نظام صرف مسجد میں نماز پڑھنے تک محدود نہیں، بلکہ اقتصادی انصاف، سماجی برابری اور حسن انتظام تک پھیلا ہوا ہے۔ مذہبی طبقے کو سماجی ذمہ داری کو مذہبی فریضہ سمجھنا چاہیے، کیوں کہ بغیر اجتماعی اِصلاح کے اِنفرادی نجات کا تصور ناقص ہے۔ جب تک معاشرہ فساد اور ظلم میں ڈوبا رہے گا۔ اِنفرادی تقویٰ اور پرہیزگاری کی قدر کم رہے گی۔

    حکمرانوں کی ذمہ داری: 

    حکمرانوں اور اقتدار میں بیٹھے لوگوں کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ قدرتی آفات کے لیے بہتر تیاری اور منصوبہ بندی کریں۔ یہ کام صرف آفت آنے کے بعد امدادی کاموں تک محدود نہیں، بلکہ پیشگی انتظامات، خطرناک علاقوں کی نشان دہی اور مؤثر انخلا کے منصوبے بنانا شامل ہے۔ ماحولیاتی تحفظ کو ترجیح دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ جب حکمران قلیل مدتی فوائد کے لیے ماحول کو نقصان پہنچانے والے منصوبوں کو منظوری دیتے ہیں تو وہ مستقبل کی آفات کو دعوت دے رہے ہوتے ہیں۔ شفاف اور جواب دہ حکمرانی کا مطلب یہ ہے کہ ہر فیصلہ عوام کے فائدے میں ہو، نہ کہ ذاتی یا گروہی مفادات کی تکمیل کے لیے۔ حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ عوام کے خادم ہیں، مالک نہیں۔

    Share via Whatsapp