وطنِ عزیز کا ریاستی نظام: شطرنج کی بساط پر
انسانی تہذیب میں کھیل محض تفریح کا ذریعہ نہیں، بلکہ اکثر پیچیدہ حقائق کو سمجھنے کا استعاراتی آلہ بھی ہوتے ہیں۔ شطرنج کا کھیل، جسے "بادشاہوں کا کھیل...

وطنِ عزیز کا ریاستی نظام: شطرنج کی بساط پر
تحریر: محمد جمیل - پشاور
انسانی تہذیب میں کھیل محض تفریح کا ذریعہ نہیں، بلکہ اکثر پیچیدہ حقائق کو سمجھنے کا استعاراتی آلہ بھی ہوتے ہیں۔ شطرنج کا کھیل، جسے "بادشاہوں کا کھیل" کہا جاتا ہے، محض 64 خانوں کی بساط نہیں، بلکہ طاقت، حکمت عملی اور جبر کا ایک پیچیدہ نمونہ ہے۔ جب ہم پاکستان کے ریاستی نظام کو اس شطرنجی بساط کے آئینے میں دیکھتے ہیں تو ہمارے سامنے ایک ایسی تصویر آتی ہے، جہاں ہر کردار اپنے مقرر کردہ کردار کاپابند ہوتا ہے۔ یہاں بادشاہ مرکز میں موجود تو ہے، مگر بے بس اور محدود، وزیر کی چالیں پوری بساط پر چھائی رہتی ہیں، فیل اور اونٹ اپنے اپنے راستوں پر قابو رکھتے ہیں، گھوڑے اپنی ٹیڑھی میڑھی چالوں سے منظر بدلتے رہتے ہیں اور سب سے آگے کھڑے پیادے—جو عوام کی علامت ہیں—بغیر اختیار کے آہستہ آہستہ آگے بڑھنے پر مجبور ہیں۔
پاکستان کا آئینی، سیاسی، معاشی اور مذہبی ڈھانچہ اسی شطرنجی کھیل کی مانند ہے، جہاں ہر ادارہ اور طبقہ اپنے مخصوص کردار میں بندھا ہوا ہے۔ یہ محض ادبی تشبیہ نہیں، بلکہ ہماری ریاست میں موجود طاقت کے توازن، جبر کے نظام اور عوامی بے بسی کو سمجھنے کا ایک گہرا استعاراتی عمل ہے۔
شطرنج کےکھیل کےضابطوں کےتناظر میں پاکستانی ریاست کے مختلف اداروں، طبقوں اور کرداروں کو پرکھتے ہیں کہ کیسے یہ نظام اپنے اندر جبر، استحصال اور خاموش اطاعت کے پیچیدہ جال بُنے ہوئے ہے اور کیسے اس کھیل میں اصل مہرےیعنی عوام ہمیشہ صرف آگے بڑھنے اور قربان ہونے کے لیے محفوظ ہیں۔
بادشاہ (king) — ریاستی نظام / آئینی ڈھانچہ
شطرنج کی بساط پر بادشاہ سب سے اہم، مگر کمزور ترین مہرہ ہوتا ہے۔ وہ کھیل کا محور ہے، مگر صرف ایک خانہ چل سکتا ہے اور ہمیشہ دوسرے مہروں کے تحفظ کا محتاج رہتا ہے۔ یہی حال پاکستان کے آئینی نظام کا ہے ۔پاکستان کا آئینی سفر ایک ایسے بادشاہ کی کہانی ہے جو بار بار شہ مات کا شکار ہوا ہے۔ 1947ء سے 1973ء تک کے 26سال میں تین آئین بنے اور ٹوٹے۔ اور موجودہ آئین کو 25 سے زائد ترامیم کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ فوجی احکامات، سیاسی مفادات، اور عدالتی مداخلت نے آئین کو اس کی اصل روح سے دور کردیا ہے۔
منتخب حکومتیں اسی بے بس بادشاہ کی مانند ہیں جو خفیہ اداروں کے دَباؤ میں فیصلے کرتی ہیں، عدلیہ کی مداخلت کا سامنا کرتی ہیں اور فوج کے سائے میں "چیک میٹ" کے خطرے سے دوچار رہتی ہیں۔ پاکستان کا آئینی نظام ہر وقت محاصرے میں رہتا ہے، دوسرے اداروں پر انحصار کرتا ہے اور آزادانہ حرکت سے قاصر ہے۔ یہی وَجہ ہے کہ سب سے اہم ادارہ—آئین—خود ہی کمزور اور بے بس ہے۔
وزیر(Queen): اسٹیبلشمنٹ؛فوج
شطرنج میں وزیر سب سے طاقت ور مہرہ ہے جو ہر سمت حرکت کرسکتا ہے اور بساط پر اپنا رعب قائم رکھتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی بساط پر یہ کردار فوج اور اسٹیبلشمنٹ ادا کرتی ہے، جس کے پاس اصل اقتدار ہے اور جو ہر سمت سے سیاسی، اقتصادی اور سماجی معاملات پر اثرانداز ہوتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں تین بار (1958ء، 1977ء، 1999ء) فوجی آمروں نے آئین کو معطل کرکے براہِ راست اقتدار سنبھالا، جیسے وزیر، بادشاہ کو شہ مات کردے۔ جب فوج براہِ راست حکومت نہیں کرتی تو بھی یہ پس پردہ حکومت سازی، عدالتی فیصلوں اور میڈیا بیانیے تک اَثر رکھتی ہے۔ منتخب حکومتیں اس طاقت ور وزیر کے سامنے محدود اختیارات کے ساتھ کھیل کھیلنے پر مجبور ہیں۔ فوج کے خفیہ اداروں نے داخلی سیاست میں ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہی وَجہ ہے کہ پاکستان میں حقیقی جمہوریت کا خواب ابھی تک ادھورا ہے، کیوں کہ سب سے طاقت ور مہرہ اپنی مرضی سے کھیل کھیلتا ہے۔
رخ (Rook) — عدلیہ اور بیوروکریسی :
شطرنج میں رخ سیدھی لکیر میں حرکت کرتا ہے اور دفاعی کردار ادا کرتا ہے، مگر اس کی حرکت محدود ہے۔ پاکستان میں یہ کردار عدلیہ اور بیوروکریسی ادا کرتی ہے جو قانون اور پالیسی کے نفاذ کا ذریعہ ہیں، لیکن عملی طور پر اپنی ذمہ داریاں پورا کرنے میں ناکام ہیں۔پاکستان کی عدلیہ آئینی تشریح کا اختیار رکھتی ہے، مگر سیاسی مقدمات میں اس کی آزادی مشکوک ہے۔ سابق چیف جسٹسز کے متنازع فیصلے، 30 فی صد مقدمات کا پانچ سال سے زائد التوا ، اور سیاسی جانب داری کے الزامات نے عوام کا اعتماد مجروح کیا ہے ۔ بیوروکریسی خاندانی سرپرستی، کرپشن اور سیاسی وابستگیوں کا شکار ہے جو عوامی مسائل سے لاتعلق رہتی ہے۔ رخ کی طرح یہ ادارے صرف سیدھی لکیر میں کام کرتے ہیں، لچکدار حل فراہم کرنے سے قاصر ہیں اور حقیقی تبدیلی کے بجائے صرف نظام کو برقرار رکھنے کا کردار ادا کرتے ہیں۔
فیل (Bishop) — مذہبی ادارے / نظریاتی کونسل :
شطرنج میں فیل ہمیشہ ایک ہی رنگ کے خانوں پر حرکت کرتا ہے اور اپنے راستے سے نہیں ہٹتا۔ پاکستان میں یہ کردار مذہبی ادارے اور نظریاتی کونسل ادا کرتے ہیں جو مخصوص فکری دائرے میں قید رہتے ہیں اور لچک دار سوچ سے دور ہیں۔ اکثر یہ جدید اصلاحات کی مخالفت، فرقہ واریت کو فروغ اور مذہب کا سیاسی استعمال کرتے رہے ہیں۔ سنی-شیعہ کشمکش، اقلیتوں کے حقوق کی پابندی اور خواتین کے خلاف سخت مؤقف نے سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچایا ہے۔فیل کی طرح یہ ادارے اپنے مخصوص "رنگ" یعنی نظریاتی دائرے سے باہر نکلنے سے قاصر ہیں، جس کی وَجہ سے اکثر جدید ضروریات اور سماجی تبدیلیوں کے مقابلے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ یہ روحانی رہنمائی فراہم کرنے کے بجائے سیاسی اثر و رسوخ بڑھانے میں زیادہ مصروف رہتے ہیں۔
گھوڑا (Knight) — میڈیا / سیاسی جماعتیں :
شطرنج میں گھوڑا "L" کی شکل میں ٹیڑھی میڑھی چالیں چلتا ہے اور غیرمتوقع حرکت کرتا ہے۔ پاکستان میں یہ کردار میڈیا اور سیاسی جماعتیں ادا کرتی ہیں جو مسلسل غیرمتوقع بیانیے بناتی ہیں، اتحاد توڑتی بناتی رہتی ہیں اور عوامی رائے کو مختلف سمتوں میں موڑتی رہتی ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں خاندانی اجارہ داری کا راج ہے، جہاں بھٹو اور شریف خاندانوں نے 50 سال حکومت کی ہے۔ یہ جماعتیں عوامی نمائندگی کے بجائے اقتدار کی کشمکش میں مصروف رہتی ہیں اور موقع پرستانہ اتحاد بناتی ہیں۔ میڈیا پر 13 مرتبہ سنسرشپ، سوشل میڈیا کنٹرول اور "خرید" تجزیوں نے آزاد اِظہار کو دفن کردیا ہے۔ گھوڑے کی طرح یہ ادارے مسلسل ٹیڑھی میڑھی چالیں چلتے ہیں، کبھی اس طرف کبھی اُس طرف، لیکن کبھی سیدھی لکیر میں عوامی مفاد میں نہیں چلتے۔
پیادے (Pawns) — عوام:
شطرنج میں پیادہ سب سے کمزور مہرہ ہے جو صرف آگے بڑھ سکتا ہے اور اکثر دوسرے مہروں کی حفاظت کے لیے قربان کیا جاتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی بساط پر یہی حال عوام کا ہے جو نظام کا اصل ستون ہونے کے باوجود تبدیلی کے خواب دیکھنے والے مگر جبر اور قربانی کے مقدر میں جکڑے ہوئے ہیں۔
عوام کو صرف انتخابی عمل میں جزوی شرکت کی اجازت ہے، اس کے علاوہ وہ تمام فیصلہ سازی سے باہر رکھے جاتے ہیں۔ 2025ء میں 42.3 فی صد غربت، 40 فی صد بچوں کی غذائی قلت اور آبادی کا 2.98 فی صد حصہ روزانہ 2.15 ڈالر سے کم پر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ روزگار، تعلیم، صحت اور انصاف جیسی بنیادی سہولیات عوام سے دور ہیں، جب کہ قرض کے بوجھ تلے کسان اور مزدور دم توڑ رہے ہیں۔
800 سے زائد جبری گمشدگیوں کے واقعات (2023-25) اور پولیس کے ظلم نے عوام کو مکمل طور پر بے بس بنا دیا ہے۔ پیادے کی طرح عوام صرف آگے بڑھنے کے پابند ہیں، پیچھے ہٹنے یا اطراف میں جانے کی اجازت نہیں، اور جب احتجاج کرتے ہیں تو جبر کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ نظام کے اصل مالک ہونے کے باوجود محض قربانی کے بکرے بن کر رہ گئے ہیں۔
خلاصہ کلام:
یہ علامتی تجزیہ اس حقیقت کو اُجاگر کرتا ہے کہ پاکستانی ریاستی نظام میں طاقت کا توازن نہایت پیچیدہ اور کثیرالجہتی ہے۔ پاکستان کا نظام شطرنج کی بازی سے مشابہ ہے، جہاں ہر مہرہ صرف ایک علامت نہیں، بلکہ اپنے ساتھ سیاسی، سماجی اور مذہبی اَثرات کے ساتھ ایک استحصالی پہلو بھی سموئے ہوئے ہے۔ بادشاہ (آئین) اکثر مہروں کے رحم و کرم پر رہا، وزیر (فوج) نے اصل کنٹرول سنبھال لیا، رخ (عدلیہ اور بیوروکریسی) نے انصاف کے راستے مسدود کیے، فیل (مذہبی ادارے) نے سماجی ہم آہنگی کو کمزور کیا، گھوڑا (سیاسی جماعتیں اور میڈیا) نے بیانیہ اپنی سمت میں موڑا، اور پیادے (عوام) ہمیشہ قربانی کا سامان بنتے رہے۔
ریاستی جبر اور اختیارات کے اس غیرمتوازن ڈھانچے نے عوامی شراکت کو محدود اور تابع رکھا۔ تاہم اسی استعارے کے ذریعے ہم اس کھیل کے اصل اصولوں کو بے نقاب کر سکتے ہیں—اور شاید کچھ مہروں کو حقیقی معنوں میں آزاد چلنے کا موقع بھی دے سکیں۔ جب تک عوام کو پیادے سے اگلے درجے میں ترقی نہیں دی جاتی، تبدیلی محض ایک خواب ہی رہے گی۔