برین ڈرین اور مزاحمتی شعور کی اہمیت - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • برین ڈرین اور مزاحمتی شعور کی اہمیت

    کسی شخص کے لیے اپنا گھر، علاقہ/ وطن ترک کرنا اور اپنے پیاروں سے علاحدگی اختیار کرنا اور انھیں چھوڑ کر دیارِغیر کو روانہ ہونا ایک انتہائی مشکل فیصلہ ہو

    By سہیل قریشی Published on Aug 20, 2025 Views 201

    برین ڈرین اور مزاحمتی شعور کی اہمیت 

    تحریر:سہیل قریشی، مانسہرہ 

     

    کسی شخص کے لیے اپنا گھر، علاقہ/ وطن ترک کرنا اور اپنے پیاروں سے علاحدگی اختیار کرنا اور انھیں چھوڑ کر دیارِغیر کو روانہ ہونا ایک انتہائی مشکل فیصلہ ہوتا ہے۔ خاص طور پر جب ہجرت کا یہ عمل کسی معاشی مجبوری کے تحت کیا جا رہا ہو تو متعلقہ شخص اس کا نفسیاتی دَباؤ محسوس کرتا ہے۔ ہجرت آسان نہیں ہوتی۔ یہ اپنے ساتھ کئی مصیبتیں لاتی ہے۔ ہجرت مہاجر کو اپنے سماجی حلقے سے کاٹ دیتی ہے۔ جب کہ نئے معاشرے میں اس کو قبولیت نہیں ملتی اور وہ وہاں محض دولت پیدا کرنے کا ایک سستا آلہ بن کر رہ جاتا ہے۔ سارا دن کام اور رات کو کمرے میں تنہا۔ اس مہاجر کو وہاں نہ تو آزادی اِظہارِ رائے کا حق حاصل ہوتا ہے اور نہ ہی اس معاشرے میں کسی قسم کے سیاسی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ اس نئے معاشرے میں اس کی سیاسی وُقعت صفر ہوجاتی ہے۔ وہ سماج باہر سے آنے والے اس شخص کو اپنے مسائل کی وَجہ سمجھتا ہے۔ دوسری طرف ایسا مہاجر شخص اپنے بوڑھے والدین کو نہ تو اس وقت کمپنی دے سکتا ہے، جب انھیں اس کی انتہائی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی سفر آخرت میں ان کی میت کو کندھا دینے پہنچ پاتا ہے۔ یہ نہ تو اپنے بچوں کی اپنی نگرانی میں پرورش کر پاتا ہے اور نہ ہی اپنے سہاگ کو وقت دے سکتا ہے۔ یہ کرب اس کو بعد کی زندگی میں کئی طرح کے نفسیاتی مسائل کا شکار کر دیتا ہے۔ 

     

    ہجرت آسان نہیں ہوتی۔ ہجرت دکھوں بھری زندگی ہے۔ جس میں ایک ایک لمحہ کڑھنا پڑتا ہے۔ کسی کو ہجرت پر مجبور کرنا اتنا بڑا جرم ہے کہ قرآنِ حکیم نے ان لوگوں سے جنگ کا حکم دیا ہے جو لوگوں کو ان کے گھروں سے نکلنے اور ہجرت پر مجبور کرتے ہیں۔ 

     

    لمحہ فکریہ ہے کہ آج انڈیا اور چائنا اپنی نوجوان قوت کی بنیاد پر کارخانے چلا کر دنیا میں معاشی و سیاسی قوت حاصل کر رہے ہیں، جب کہ ہمارے ملک کا نوجوان پاسپورٹ کے حصول کے لیے قطار میں لگا ہوا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے ہماری اشرافیہ نوجوانوں کی اس ہجرت کو خوش آئند قرار دیتی ہے،تاکہ یہ نوجوان اگرچہ خود مصیبت میں گرفتار ہو، اور انسانی درجے سے گِر کر گدھے اور بیلوں کی طرح محض کام کاج کرتا رہے، لیکن ملکی اشرافیہ کے لیے ڈالر فراہم کرتا رہے۔

     

    ہم سب سمجھتے ہیں کہ نوجوان معاشی دَباؤ کی وَجہ سے ملک چھوڑ رہا ہے۔ یہ معاشی بدحالی کیسے پیدا ہوئی؟ کیا ملک میں وسائل کی کمی ہے؟ امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں کہ معاشی بدحالی کی وَجہ وسائل کی کمی نہیں، بلکہ وسائل کی غلط تقسیم ہے۔ وسائل پر ایک خاص طبقے کا قبضہ یا ایک خاص طبقے کا عالمی استعمار کی دلالی کر کے وسائل کو اس کے قبضے میں دینا ملک میں انتہا درجے کی بدحالی پیدا کررہا ہے۔ وسائل کی یہ لوٹ کھسوٹ اجتماعی اخلاقی گراوٹ اور معاشرتی مسائل کا باعث بن رہی ہے۔ استحصال کرنے والے طبقے نے ملکی ادارے تباہ و برباد کر دیے۔ جدید تعلیم و ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے یونیورسٹیوں کو بجٹ نہیں دیا جا رہا۔ یونیورسٹیوں کی فیسیں بڑھنے سے تعلیم مہنگی اور عام آدمی کے بس سے باہر ہوگئی۔ تعلیم یافتہ نوجوان کے لیے روزگار کا کوئی بندوبست نہ ہونے کے باعث ایک والد بچے کی تعلیم پر خرچ کرنے کی بجائے اسے ملک سے باہر بھیجنے، بلکہ فروخت کرنے پر مجبور ہے۔ 

     

    نوجوانوں کو سوچنا چاہیے کہ ایک ایک کر کے اِنفرادی طور پر اپنا کیریئربنانے اور پیسہ کمانے کی خاطر ملک چھوڑنا دانش مندی ہے یا اجتماعیت پیدا کر کے وسائل سے مالا مال اس ملک کو آزاد کرانا عقل مندی ہے؟ مزاحمت کے اس عمل کو اختیار کرنا، بزدلی دِکھانے اور بھوک کے خوف سے میدان چھوڑنے سے بدرجہا بہتر ہے۔ اپنے حقوق، اپنی زمین، اپنے وطن، اپنے وسائل کےلئے لڑنا بہتر ہے یا اسے دشمن طاقت کے حوالے کر کے بھاگ جانا؟ دنیا کی عزت دار قوموں کے نوجوانوں نے اپنی آزادی کے لیے سروں کا سودا کیا ہے، کیا فرق پڑتا ہے اگر وہ ایک رات کم جیے، کم ازکم سر تو اٹھا کر جیے۔ 

    آج ہمارے نوجوان کو فیصلہ کرنا ہے کہ اس نے شعوری مزاحمت کرنی ہے یا ایک ایک کر کے مرنا ہے؟ ہمیں جان لینا چاہیے کہ مزاحمت زندگی ہے۔ بھاگ جانا موت ہے۔ خاص کر وطن سے بھاگ جانا نِری موت!


    Share via Whatsapp