اَمن اور جنگ: حقیقی دوستوں کی پہچان - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • اَمن اور جنگ: حقیقی دوستوں کی پہچان

    تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ تنازعات کے وقت اکثر ایسے لوگ منظرعام پر آتے ہیں جو خود کو ہمدرد ظاہر کرتے ہوئے دراصل....

    By Noor Wahab Published on Oct 29, 2025 Views 351

    اَمن اور جنگ: حقیقی دوستوں کی پہچان 

    تحریر: نوروہاب، ہنگو جنوبی ریجن

    تاریخ اس بات پر شاہد ہے  کہ  تنازعات کے وقت اکثر ایسے لوگ منظرعام پر آتے ہیں جو خود کو ہمدرد ظاہر کرتے ہوئے دراصل آگ میں تیل ڈالتے ہیں۔ یہ وہ طاقتیں ہوتی ہیں جو دونوں فریقوں کو ہتھیار اور سرمایہ فراہم کرتے ہوئے ان کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتی ہیں۔ حقیقی دوست وہ ہے جو اَمن کی طرف بلاتا ہے، نہ کہ جنگ کی طرف۔ اس مضمون میں ہم یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ حقیقی اور ناقص نیتوں والے دوستوں میں فرق کیسے کیا جائے اور خاص طور پر جنوبی ایشیا میں بھارت اور پاکستان کے تناظر میں یہ سبق کتنا اہم ہے۔

    جب دو فریقوں کے درمیان دشمنی یا لڑائی ہو، تو بہت سے لوگ دونوں طرف جا کر کہتے ہیں: ”بھائی، ہم آپ کے ہمدرد ہیں۔ آپ نے بہت اچھا کیا کہ مخالف فریق کے افراد کو نقصان پہنچایا۔ انھیں سبق سکھانا چاہیے“    ۔ یہی لوگ پھر کہتے ہیں: ”اگر آپ کو اسلحہ، بارود، مارٹر، توپ یا میزائل چاہیے تو ہم دینے کو تیار ہیں۔ اگر آپ کو پیسے یا افراد درکار ہیں تو وہ بھی فراہم کر دیں گے“۔  لیکن سمجھ لیجیے، ایسے لوگ آپ کے دوست نہیں، بلکہ دشمن ہیں۔

    یہ لوگ نہیں چاہتے کہ آپ اور مخالف فریق کے درمیان صلح ہو، امن قائم ہو یا مذاکرات ہوں۔ دشمنی کی صورت میں آپ کا پیسہ، وقت اور توانائی ضائع ہوجاتی ہے اور آپ ترقی سے کوسوں دور ہوجاتے ہیں۔ نتیجہ؟ آپ معاشی طور پر کمزور، مقروض اور دیوالیہ ہوجاتے ہیں۔ایسے لوگوں کے صرف دو ہی مقاصد ہوتے ہیں ۔ یا تو آپ کو کمزور کرناہے یا آپ کے ذریعے اس  دشمن کو کمزور کرنا ہے، جس سے اس کو بھی خطرہ ہے ۔

    اس کے برعکس، کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کہتے ہیں: ”آپ نے بالکل اچھا نہیں کیا۔ دشمنی تباہی لاتی ہے، غربت پیدا کرتی ہے، یتیم اور معذور افراد جنم دیتی ہے، معیشت کو برباد کرتی ہے۔ آئیے بات کریں، تاکہ صلح ہو۔ اَمن میں سب کی بھلائی ہے“۔

    یہ وہ لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ اگر آپ کی شرائط بہ ظاہر کمزور بھی ہوں، تب بھی اَمن کی طرف جانا بہتر ہے۔ کمزور شرائط ماننے میں کوئی قباحت نہیں۔ اصل طاقت یہ ہے کہ آپ طاقت رکھتے ہوئے اسے محفوظ رکھیں اور بے جا استعمال نہ کریں۔

    دشمنی تو بڑے عزت داروں کی عزت خاک میں ملا دیتی ہے۔ ان کی جان، مال اور عزت خطرے میں پڑجاتی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ اَمن کی طرف قدم بڑھایا جائے۔ تاکہ تعلقات بحال ہوں، مذاکرات ہوں، آپس میں مدد ہو اور تجارت و کاروبار چلے۔ یہی اصل دوست ہے، جو آپ کی خیرخواہی چاہتا ہے۔ کیوں کہ عقل مند وہ نہیں جو جنگ کی طرف جائے، بلکہ وہ ہے جو دشمنی ختم کر کے اَمن کی طرف بڑھے۔

    اسی طرح   پاکستان   ، بھارت یا  افغانستان کے درمیان بھی کچھ ممالک جنگ کی آگ بھڑکانے کا کام کر رہے ہیں۔  امسال  دونوں ملکوں کے ساتھ ناخوشگوار   حالات سے گزرنا  پڑا۔  حالیہ دنوں  میں افغانستان  کے ساتھ  سرحد پار حملوں اور فائرنگ کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان افغانستان کے خلاف دہشت گردی کی وَجہ سے ہتھیار اُٹھاتا ہے تو افغانستان بھی جواب میں آتا ہے۔وہ دوست جو دونوں کو لڑا تے ہیں وہ  ممالک ان  سب کو اسلحہ اور پیسہ دے رہے ہیں، تاکہ یہ پڑوسی آپس میں لڑتے رہیں، اُلجھتے رہیں اور جنگی سازوسامان انھی سے خریدتے رہیں۔ ان کا کاروبار چلتا رہے اور یہ ہمسایہ  ممالک ان کے محتاج بنے رہیں۔ یہ ایک سادہ اقتصادی حساب ہے: جب جنگ ہو تو اسلحہ بکے۔ جب اَمن ہو تو اسلحہ زنگ کھا جائے۔ اسلحے کو زنگ سے بچانے کے لیے اس کا استعمال ضروری ہے اور استعمال کے لیے جنگ درکار ہے۔ ہمارا اپنا قومی مفاد یہ ہے کہ افغانستان میں جلد از جلد اَمن قائم ہو، سرحد پر بھائیوں سے دشمنی ختم ہو، اور دونوں ملکیں باہمی تعاون سے اپنی معاشی ترقی میں منہمک ہوں۔

    لہٰذا پاکستان، افغانستان  اور بھارت کو اپنے اصل دوستوں اور دشمنوں کی صحیح پہچان ہونی چاہیے۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ کون ہمیں لڑائی پر اُکسا رہا ہے اور کون ہماری بھلائی چاہتا ہے، جنگ بندی اور اَمن کی طرف بلا رہا ہے۔ عقل مندی یہی ہے کہ نام نہاد ہمدردوں کی بجائے ان دوستوں کی بات مانی جائے جو ہمیں اسلحہ تھمانے کی بجائے اَمن کی طرف راغب کرتے ہیں۔  دو  یا تین ممالک کے درمیان جنگ تو بہت خطرناک ہے، کیوں کہ  ان ممالک میں کروڑوں لوگ بستے ہیں۔ جنگ کی صورت میں ان کی خوراک، تعلیم اور صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ نتیجتاً غربت، بے روزگاری اور جرائم بڑھتے ہیں اور قانون کی پابندی میں مشکلات پیش آتی ہیں۔

    لہٰذا اَمن کی طرف بڑھنے میں دونوں ممالک کی بھلائی ہے۔ چند افراد کی کسی کارروائی کی وَجہ سے کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنا نادانی ہے۔ عقل مندی یہ ہے کہ ہر واقعے کی تحقیق کی جائے، اس کی تہہ تک پہنچا جائے۔ تاکہ چند افراد کی شرارت کی وَجہ سے دونوں ممالک جنگ پر آمادہ ہونے کی بجائے تحقیق کریں اور ایک بڑے المیے سے بچا جا سکے۔

    Share via Whatsapp