مجمع لگانا اب مشکل نہیں لیکن
پاکستان میں کبھی پارٹیوں کی طاقت کو جلسہ گاہ کے رش اور مجمعے کی کثرت سے پہچانا جاتا تھا اور ملک بھر کی جلسہ گاہیں اس کا پیمانہ ہوا کرتی تھیں
مجمع لگانا اب مشکل نہیں لیکن……..
تحریر : محمد عباس شاد ،لاہور
پاکستان میں کبھی پارٹیوں کی طاقت کو جلسہ گاہ کے رش اور مجمعے کی کثرت سے پہچانا جاتا تھا اور ملک بھر کی جلسہ گاہیں اس کا پیمانہ ہوا کرتی تھیں جیسے لاہور کا موچی دروازہ، کراچی کا نشتر پارک، اور پولو گراؤنڈ راولپنڈی کا لیاقت باغ اور ملتان کا حضوری باغ. کسی سیاسی پارٹی کی طاقت کو اس وقت تک تسلیم نہیں کیا جاتا تھا جب تک وہ اس جلسہ گاہوں میں کامیاب جلسہ کرکے مجمع کا ٹیسٹ پاس نہیں کرلیتی تھی. لیکن اب یہ باتیں تاریخ کا حصہ ہوچکیں. اب تو ہر گلی محلے کی نکڑ پر جلسے ہونے لگے ہیں اور کیمروں کا کمال ہے کہ وہ تنگ وتاریک گلیوں میں لاکھوں کا مجمع دکھانے کا ہنر جانتے ہیں جسے اس پارٹی کے کارکن بڑے فخر سے سوشل میڈیا پر شیئر کرتے اور اپنی پارٹی کی دھاک بٹھاتے ہیں.
جن ملکوں کی آبادی بڑی تیزی سے بڑھی ہے اور ان ملکوں کا شمار دنیا کے کثیر الآبادی ممالک میں ہوتا ہے ان میں اب ہرکس و ناکس کو عوام کے بڑے بڑے مجمعے دستیاب ہیں اور وہ ملک کے طول عرض میں اپنے اپنے مجمعے اکٹھے کرکے اپنے سچ پر خوش وخرم اور مطمئن ہیں قرآن حکیم نے کسی بھی معاشرے میں موجود گروہیتوں کے اس گمان اور نفسیاتی کیفیت کے متعلق فرمایا ہے کلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ کہ ہر گروہ کو جو کچھ حاصل ہے وہ اسی پر خوش ہے. ایسے پسماندہ ممالک جن کی آبادیوں کے ہجوم نے سینکڑوں کی تعداد میں ایسے کچے پکے رھنماء پیدا کردیئے ہیں جو اپنی رھنمائی اور قیادت کے لیے عوام کے سامنے کسی ٹیسٹ، قابلیت اور معیار کے پیمانے سے گزرنے کو ضروری نہیں سمجھتے بلکہ وہ خود کو حق وباطل کی پہچان کا ایک معتبر پیمانہ تصور کرتے ہیں.
ایسے پسماندہ اور مسائل سے گھرے معاشروں میں جہاں نظام کے خلاف شعور نہ ہو بیماری، بے روزگاری، بڑھتے ہوئے انسانی اختلافات، معاشرے میں موجود عدم برداشت، نفسیاتی دباؤ، تنگ نظری اور معاشی دباؤ کے سبب آبادی کی اکثریت توہمات اور عارضی سہاروں کی متلاشی ہوتی ہے.
ایسے میں رات ورات کامیابی، کاروبار میں ترقی، کامیاب ملازمت مہیا کروانے والے موٹیویشنل سپیکر اور محض رسمی اعمال سے ذہنی سکون مہیا کرنے والے مذہبی سکالر ، تعویذ گنڈہ اور دم سے موذی بیماریوں سے چھٹکارہ دلانے اور دشمن پر فوری قبضہ دلانے والے عامل ، ترک دنیا اور انفرادی اصلاح کرنے والے صوفی ، اوررمضان المبارک میں شہر اعتکاف بسانے والوں کو بڑے بڑے مجمعے میسر آجاتے ہیں اس دنیا کے جہنم سے خوف زدہ مخلوق خدا جنت اور ابدی سکون کی تلاش میں ایسے مراکز کی طرف جوق در جوق دوڑتی اور لپکتی ہے اور پریشان حال مخلوق کے ٹھٹ کے ٹھٹ ایک عام انسان کی نظروں کو خیرہ کردیتے ہیں کہ اتنا بڑا مجمع شاید حق یہیں ہے.
لیکن یہ کثرت اور مجمعے حق کی وجہ سے نہیں بلکہ یہ اپنے گمان اور اندازوں کے اسیر ہیں ان کی پریشان حالیوں نے ان بے مغز لیڈروں کی دکانیں آباد کر رکھی ہیں ان مجمعوں کی شان وشوکت سے تم حق تک نہیں پہنچ سکتے بلکہ یہ تمہیں راہ خدا سے بہکا بھی سکتے ہیں. قرآن حکیم نے ان مجموعوں کی ذہنی کیفیت کو یوں بیان کیا ہے.
وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللّهِ إِن يَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلاَّ يَخْرُصُونَ
اور اگر آپ روئے زمین کی اکثریت کا اتباع کرلیں گے تو یہ راہ خدا سے بہکادیں گے.یہ صرف گمان کا اتباع کرتے ہیں اور صرف اندازوں سے کام لیتے ہیں.
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ایک باشعور آدمی ہجوم کا شکار نہیں ہوتا بلکہ وہ ہجوم کے اکھٹے ہونے کے سماجی، نفسیاتی اور معاشرتی اسباب پر غوروفکر کرتا ہے اور پھر ان اسباب کو دور کرنے کی جدوجہد کرتا ہے تاکہ مخلوق کا خدا تک پہنچنے کا راستہ صاف اور آسان ہوسکے.