نوجوان کو شعوری طرزِعمل اپنانے کی ضرورت۔
اس استحصالی نظام میں ایک نوجوان کو کیا کرنا چاہیے ؟
نوجوان
کو شعوری طرزِعمل اپنانے کی ضرورت۔۔۔
تحریر:
محمدعلی، ڈیرہ اسماعیل خان
نوجوان
کسی بھی معاشرے کا اہم حصہ ہوتے ہیں، ان میں معاشرتی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے
مطلوبہ جسمانی و ذہنی صلاحیت، عمر کے باقی گروہوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے، اسی طرح
کسی کام کو کرنے کا جوش و جذبہ بھی باقی افراد سے زیادہ ہوتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے
کہ جیسے جسم میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت ہے، اسی طرح نوجوانوں کی سماج میں حیثیت ہے،
تو غلط نہ ہوگا۔
یو
این ڈی پی کی ایک رپورٹ کے مطابق وطنِ عزیز کی 64 فی صد آبادی 30 سال کی عمر سے کم
ہے اور 29 فی صد آبادی 15 سال سے 29 سال کے درمیانی عمر کی ہے۔
لیکن
بدقسمتی سے وطنِ عزیز میں نوجوان طبقے کے لیے نہ تو رسمی تعلیم کے بہتر وسائل و
مواقع ہیں، نہ ٹیکنیکل تعلیم کے اور نہ ہی مناسب روزگار کے۔ ایسے میں کئی نوجوان
وہ تعلیم حاصل نہیں کر پاتے جو جدید دنیا کا تقاضا ہے۔
پاکستانی
معاشرے میں نوجوان سے خاندان کی کافی اُمیدیں وابستہ ہوتی ہیں، والدین یہ چاہتے
ہیں کہ ان کا بیٹا پڑھ لکھ کر کوئی اچھا روزگار حاصل کر لے اور گھر کے اخراجات
سنبھالنے میں ان کا ساتھ دے۔ یوں معاشرتی دَباؤ، بے روزگاری اور مہنگائی سے تنگ آ
کر یا تو وہ جرائم میں ملوث ہو جاتے ہیں یا وہ عرب اور دیگر یورپی ممالک کا رخ کرتے
ہیں، جہاں انھیں غیر انسانی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کی حیثیت محض سستے
محنت کش کی ہوتی ہے، جس کا سارا فائدہ وہاں کا سرمایہ دار اور کارخانہ دار طبقہ
اُٹھاتا ہے۔
عرب
ممالک میں کفیل کے ہاتھوں ہونے والے استحصال پر پڑوسی ملک میں ایک فلم بھی بن چکی
ہے، جس میں باہر ممالک سے روزگار کی تلاش میں آنے والے افراد کے ساتھ برتے جانے
والے رویے کی منظر کشی کی گئی ہے۔ غرض ! جب کوئی نوجوان اپنے ملک کو چھوڑ کر کسی
دوسرے ملک جاتا ہے تو وہاں اسے وہ عزت و وقار نہیں ملتا جو اپنے ملک میں مل سکتا
تھا۔ اس سب کی وَجہ یہ فاسد نظام ہے، جس کا مقصد صرف استحصال ہے-اس نظام سے کوئی
خیر برآمد نہیں ہوسکتی کیوں کہ اس نظام نے 77 سالوں سے نہ ہی سیاسی امن دیا نہ
معاشی خوش حالی اور نہ ہی سماجی عدل۔
یہ
نظام اتنا بوسیدہ ہوچکا ہے کہ جدید دور کے تقاضے پورے کرنا تو درکنار، یہ تو
بنیادی انسانی ضروریات و مسائل تک حل نہیں کرسکتا۔ اگر ہم صرف تعلیمی نظام کو
دیکھیں تو ہمارا تعلیمی نظام آج بھی لارڈ میکالے کی فلاسفی پہ چل رہا ہے اور صرف
نوکر پیدا کررہا ہے۔ اس میں سائنسی تحقیق، شعور و آگہی، قومی سوچ پیدا کرنے اور
جدید دنیا کے ساتھ چلنے کا کوئی عنصر ہی نہیں۔
اس
نظامِ تعلیم نے ہماری حقیقی تاریخ کو بھی سامراجی تاریخ سے بدل دیا ہے، نتیجہ یہ
ہے کہ اس نظام میں شعوری آبیاری کے لیے کوئی پیغام نہیں ہے کہ نوجوان کو صحیح اور
غلط کا فرق معلوم ہوسکے۔ اسی لیے پاکستانی نوجوان کبھی معاش کے سلسلے میں صرف سستا
مزدور بنتا ہے تو کبھی مختلف کھوکھلے نعروں کا شکار ہو کر اشرافیہ کی آپسی رسہ کشی
اور اقتدار کی جنگ کا ایندھن بنتا ہے۔
اس
میں سوال یہ ہے کہ آخر ایک عام نوجوان ہی کیوں اس جنگ میں جان سے جاتا ہے؟ کوئی
نام نہاد راہ نما کیوں نہیں؟ یا ان کے گھر اور خاندان کا کوئی نوجوان اَب تک ان
جنگوں میں کیوں شریک نہیں ہوا؟ کیا ان نام نہاد رہنماؤں سے یہ سوال نہیں ہونا
چاہیے کہ آپ ہر بار نوجوانوں کو آگ میں جھونک کر ملک وقوم کی کیا خدمت سرانجام
دیتے ہیں؟
ساتھ
ہی ساتھ نوجوان کو بھی سنجیدگی سے اس سوال پر غور کرنا ہوگا کہ کب تک وہ اشرافیہ
کی جنگ کا حصہ بنتا رہے گا؟ کب تک وہ اس ظالم اور استحصالی نظام کی چکی میں پستا
رہے گا، جو اس کی صلاحیتوں کو نکھرنے نہیں دیتا؟ جس میں کبھی وہ عرب کفیل کے
ہاتھوں ذلیل ہوتا ہے تو کبھی مقامی سامراجی آلۂ کار سیاست کار اس کی زندگی اور عزت
سے کھلواڑ کرتے ہیں۔
نوجوان
کو ان سیاست کاروں کے ہاتھوں مزید کٹھ پتلی بننے سے انکار کرنا ہوگا، اسے غور کرنا
ہوگا کہ مسئلہ کہاں ہے؟ کتنے اقتدار الٹ پلٹ ہو گئے، کتنے لوگ آئے اور چلے گئے،
لیکن حالات جوں کے توں ہیں تو آخر مسئلہ کہاں ہے؟ کیا مسئلہ افراد میں ہے یا نظام
میں؟ اگر نظام میں مسئلہ ہے تو کیوں کر، اور اس کا حل کیا ہو سکتا ہے؟ کیا اس کا
حل یہ نعرے، یہ جلسے جلوس، یہ دھرنے ہیں یا اس نظام کی مکمل تبدیلی اس کا حل ہوگی؟
جب
تک نوجوان یہ سوچے گا نہیں، تب تک وہ یوں ہی استعمال ہوتا رہے گا۔