فرسودہ معاشرے کے خاص لوگ - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • فرسودہ معاشرے کے خاص لوگ

    فرسودہ معاشرے کو خاص لوگ ہی بدل سکتے ہیں وگرنہ وہ اس معاشرے میں گھٹ گھٹ کے جینے پر مجبور ہوتے ہیں۔

    By Kabir Abbasi Published on Nov 02, 2024 Views 382

    فرسودہ معاشرے کے خاص لوگ

    تحریر: کبیر عباسی۔ مری

     

    دنیا میں عموماً دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔

    1۔ عام لوگ (عوام الناس)

    وہ لوگ جو دنیا کو دوسروں (نظامِ ظلم کے حامل طبقوں) کی عینک سے دیکھتے ہیں۔یہ لوگ عموما ویسے ہی اعمال کرتے ہیں جو حکمران طبقہ کررہا ہوتاہے رسم ورواج پر سختی سے کاربند رہتے ہیں۔ ان کا لباس، ان کا حلیہ، بات کرنے کا انداز سب اپنے اردگرد بسنے والے بیش تر دوسرے لوگوں کی طرح ہوتا ہے۔ یہ کوئی بھی کام کرنے سے قبل سوچتے ہیں کہ "دوسرے لوگ کیا کہیں گے، کیا سوچیں گے"۔ گویا مرعوبیت کا شکار ہوتے ہیں۔ ایسے انسان عموماً اوسط درجے یا اس سے کم ذہانت کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ تعداد میں سب سے زیادہ ہوتے ہیں، اس لیے عام طور پر معاشرے میں اپنا اَثر و رسوخ بڑھا لیتے ہیں اور معاشرے پھر انھی کے ڈھب پر چلتے ہیں۔ ان کی خامی یہ ہوتی ہے کہ یہ جہالت کے سبب اپنے سے مختلف نظریات رکھنے والوں کو پسند نہیں کرتے، نہ ہی برداشت کرتے ہیں، بلکہ ان کے لیے مسائل کھڑے کرتے رہتے ہیں۔

     

    2۔ خاص (باشعور) لوگ  

    یہ دنیا کو مختلف نظر سے دیکھتے ہیں۔ جینیس ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ فنونِ لطیفہ کے شائق ہوتے ہیں یا سائنسی لحاظ سے ان کا ذہن تیز ہوتا ہے۔ بعض اوقات دونوں طرح کے لوگوں کے رجحانات ان میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان کا ذہن سوالات کی آماجگاہ ہوتا ہے۔ یہ لوگ معاشرے میں ہونے والے کسی بھی عمل کو اس کی توجیہہ جانے بغیر قبول نہیں کرتے۔ معاشرے میں رائج مختلف رسم و رواج اور عقائد و نظریات کو اپنے ذہن سے پرکھتے ہیں اور ان کے متعلق سوالات اُٹھاتے ہیں۔ پس ماندہ معاشرے میں جہاں عام افراد کا زیادہ رسوخ ہوتا ہے، وہاں انھیں عموماً پسند نہیں کیا جاتا،جس کی وَجہ سے بعض اوقات یہ گُھٹن میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ایک معروف قول ہے کہ "اعلیٰ عقل انسان کو سماجی طور پر تنہا کر دیتی ہے"۔ یہ قول ایسے لوگوں پر صادق آتا ہے۔ تنگ نظر معاشروں میں ایسے لوگ نہیں پنپ سکتے اور ان کی ذہانت و قابلیت سے معاشرہ محروم رہتا ہے۔ان میں سے بعض لوگ بعض اوقات ردعمل کی نفسیات کاشکار ہوجاتے ہیں اورمنفی رجحانات کاشکار ہوجاتے ہیں۔

     

    کسی معاشرے کی ترقی دیکھنی ہو تو وہاں دیکھا جاتا ہے کہ کس قسم کے لوگ زیادہ اثرورسوخ رکھتے ہیں۔ اگر معاشرہ عام لوگوں کے کنٹرول میں ہے تو وہاں آئن سٹائن جیسے لوگ گمنام رہ جاتے ہیں۔ سقراط کو زہر کا پیالہ پینا پڑتا ہے۔ گلیلو کو اپنے نظریات پر معافی مانگنا پڑتی ہے۔ منصور حلاج کو سولی پر چڑھنا پڑتا ہے اور سماجی تبدیلی کے نظریے پر کام کرنے والوں کو فتوؤں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بہرحال "معاشرہ خاص لوگوں کے کنٹرول میں ہو" تو وہ ترقی کرتا ہے۔ کوئی فرسودہ عقیدہ،نظریہ، رسم ۔۔۔ ایسے معاشرے میں زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی۔ لوگوں کی تربیت اس نہج پر ہوتی ہے کہ وہ شعوری منطقی انداز میں سوچنے لگتے ہیں۔ وہ چیزیں پرکھ کے قبول کرنے لگ جاتے ہیں۔ نت نئی ایجادات اور دریافتیں عام ہونے لگتی ہیں۔ عام لوگ بھی ایسے معاشرے کےلیے مفید ثابت ہونے لگتے ہیں کہ نئی چیزیں جب معاشرے میں عام ہوتی ہیں تو وہ انھیں قبول کر لیتے ہیں۔خاص لوگوں کو اپنا کردار ادا کرنے کےلیے بھرپور مواقع میسر آتے ہیں اور معاشرہ ان کی بدولت تیزی سے ترقی کرنے لگتا ہے۔

     

    اَب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا معاشرہ جو عام لوگوں کے کنٹرول میں ہو، جس میں انھوں نے ایسا نظام وضع کر رکھا ہو جو ان کے ذاتی وگروہی مفادات کا نگہبان ہو، عام عوام کو جاہل رکھا جا رہا ہو اور خاص لوگوں کی زبانیں بند رکھنے کا انتظام ہو تو وہاں خاص (تشکیل نو کے نظریے کے حامل) لوگوں کی نظام پر حاکمیت کیسے قائم ہوسکتی ہے؟ اور کیسے اس معاشرے کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے؟ تو ا س کےلیے خاص (ایک نظریہ عدل کے) لوگوں کا اکٹھا ہونا ضروری ہے۔ ان کی سوچ کا ایک جیسا ہونا ضروری ہے اور یہ تبھی ممکن ہے کہ خاص لوگ مل کر اپنی اجتماعیت قائم کریں جو رائج مسلط نظام کی خرابیوں کو سمجھیں اور ایسا نظام وضع کریں جو دورِجدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔ خود کو مضبوط کریں اور اس دوران اس راستہ میں آنے والی ہر مشکل کا مردانہ وار سامنا کریں۔ جب ان میں اتحاد قائم ہو گا تبھی وہ عام لوگوں میں اپنا اثرورسوخ پیدا کر سکیں گے۔وہ عام لوگوں کو اپنی صلاحیت و قابلیت سے متاثر کرسکیں گے، انھیں ان کے مسائل کا حل بتا پائیں گے، ان کی آنکھوں میں نئے خواب بن پائیں گے اور ان خوابوں کی تکمیل کےلیے خاص لوگوں کا ساتھ دیں گے۔ ایسا نہ پہلی بار ہو گا نہ آخری بار، بلکہ رہتی دنیا تک ہوتا رہے گا۔جیسے چودہ سو سال قبل مکہ سے حضرت محمد رسول اللہ ﷺاُٹھے، معاشرے کے خاص لوگوں (نوجوانوں) کو اکٹھا کیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک ایسی جماعت تیار کی، جس نے دنیا کا نقشہ ہی تبدیل کر دیا اور رہتی دنیا تک تمام انسانوں کےلیے مثال قائم کر گئے۔

     

    Share via Whatsapp