فلسفہ قربانی .. پس منظر، حکمتیں اور مطلوبہ تقاضے - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • فلسفہ قربانی .. پس منظر، حکمتیں اور مطلوبہ تقاضے

    " وہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اس کو تمام ادیان (نظاموں) پر غالب کردے، خواہ یہ کام مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار گزرے

    By AsadIqbal Published on Aug 10, 2019 Views 2599

    فلسفہ قربانی ( پس منظر، حکمت اور مطلوبہ تقاضے)

    تحریر: اسد اقبال، کراچی


    اچھے معاشروں میں ذمہ دار میڈیا کا بنیادی فرض ہوتا ہے کہ  وہ اپنی قوم کو شعوری معلومات بہم پہنچائے اور بالخصوص ان مواقعوں پر جب قوم اپنا کوئی مذہیبی یا قومی تہوار منا رہی ہو۔ تہواروں کا حقیقی پس منظر اگر قوم بالخصوص نوجوان نسل کے سامنے نہ لایا جائے تو مجموعی طور پر پوری قوم ان تہواروں سے انفرادی و اجتماعی طور پہ مستفید ہونے کی بجائے صرف ایک رسم کے طور پہ ادا کر رہی ہوتی ہے۔ اس تناظر میں ہم اگر اپنے میڈیا کا کردار دیکھیں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ ہمارا میڈیا عام دنوں اور بالخصوص تہواروں کے دنوں میں قوم کو شعور دینے کی بجائے چند سطحی قسم کے پروگرامز کر کے انہیں تفریح طبع کا سامان بنا دیتے ہیں۔

    میڈیا کا یہ فرسودہ اور سطحی کردار آنے والے عظیم الشان تہوار " عید الاضحی" دیکھنے، پڑھنے اور سننے کو ملے گا جب ہر چینل پہ اس تہوار کا تعارف جانوروں کے ساتھ کیٹ واک کرتی ماڈل سے کروایا جائے گا تو کہیں جانوروں کے ساتھ سیلفیاں بنانے کو عظیم کاوش کے طور پہ پیش کیا جائے گا اور کہیں اس کا تصور صرف جانور ذبح کرنے اور اس کا گوشت کھانے تک محدود کر دیا جائے گا اور پھر آخر میں مختلف چینلز پہ  زرق برق لباسوں میں ملبوس مہمانوں کے قہقہوں اور بنتے پکوانوں کی دھویں میں قربانی کی روح اور حقیقی مقصدچھپا دیا جائے گا۔

    ایسے ماحول میں ضرورت اس بات کی ہے کہ  فلسفہ قربانی کو درست انداز میں سمجھا جائے اور روح قربانی اور اس جڑے مقاصد کا شعور حاصل کیا جائے اور اسی طرح یہ سمجھا جائے کہ اس فلسفے کے نتیجے میں معاشرت اور سماجی حوالے سے کیا اثرات پیدا ہونے چاہیں وغیرہ وغیرہ

    اصل عربی لفظ ”قُربان‘‘ ہے اور اس کا مادّہ ”ق ر ب ‘‘ہے ،اس کے معنی ہیں :اللہ تعالیٰ کی ذات سے قربت حاصل کرنے اور اُس کی رضا کے لیے عبادت کی نیت سے اس کی بارگاہ میں کوئی جانی یا مالی نذر اور صدقہ پیش کرنا ، اس لفظ کو ہم نے اردو میں بدل کر ”قربانی‘‘ بنا دیا۔ قربانی ایک ایسا عمل ہے جسے اگر اخلاص اور اس کے تقاضوں کے مطابق ادیا کیا جائے اور اس فلسفے کی روشنی میں زندگی گزاری جائے تو یہ عمل بندے کو اپنے خالق و مالک کے قریب کر دیتا ہے۔  اور اپنے خالق کی قربت کو پا لینا ہی حقیقی کامیابی ہے۔

    تاریخ بتاتی ہے کہ قربانی کا عمل ابتدائے انسانیت سے مختلف شکلوں اور طریقوں سے جاری و ساری رہا ہے۔ قران پاک میں حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کی قربانی کا تذکرہ ملتا ہے جن میں سے ایک کی قربانی قبول ہو جاتی ہے اور دوسرے کی کی رد۔ پھر اسی قبولیت کے ضمن میں اللہ پاک نے فرمایا:

    "اللہ تو صرف ان کی قربانی قبول کرتے ہیں جو تقوی اختیار کرتے ہیں"

    اسی طرح ایک جگہ اللہ پاک ارشاد فرماتے ہیں۔

    "اللہ تک تمہاری قربانیوں کا گوشت یا خون ہر گز نہیں پہنچتا بلکہ تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے"

    اس سے واضح ہوتا ہے کہ قربانی کے لئے تقوی شرط اول ہے۔ تقوی کی تشریح شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ اپنی مشہور کتاب "غنیۃ الطالبین" میں قران پاک کی اس آیت سے فرماتے ہیں۔

    "بے شک اللہ تعالی عدل قائم کرنے، اجتماع انسانی میں احسانی حالت پیدا کرنے اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور فحش، منکرات اور بغاوت سے منع کرتا ہے"

    درج بالا کلام سے واضح ہوتا ہے کہ ہر انسان کو ایک پر امن، خوشحال اور عدل پر قائم معاشرہ بنانے کی جدوجہد کرنی چاہیے اور اگر جدوجہد کے راستے میں وقت، مال اور جان کی قربانی کی ضرورت پڑ جائے تو کسی بھی حال میں دیر نہ کی جائے

    ہم مسلمان بحیثیت امت محمدیہ کے جو قربانی کا فریضہ ادا کرتے ہیں وہ دراصل اس سنت  ابراہیمی کی یاد تازہ کرنے کے لئے ہے جیسا کہ نبی کریم سے پوچھا گیا "یا رسول اللہ! یہ قربانیاں کیا ہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا: تمھارے باپ ابراہیم کی سنت ہیں"

    سنت ابراہیمی کی یاد منانے کے ساتھ ساتھ  مشن ابراہیمی کو سمجھنا بھی ضروری ہے تا کہ ہم قربانی کی اصل حکمت اور حقیقت کا درست ادراک حاصل کر لیں۔  سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے پہلے تمام انبیاء مختلف قوموں اور قبیلوں کی طرف مبعوث کیے گئے، حضرت ابراہیم علیہ السلام وہ پہلے نبی ہیں جنہیں کل انسانیت کا امام بنا کر بھعجا  گیا اور آپ نے کل انسانیت کو ہی اپنے  فکر و مشن کا محور بنایا۔ گویا  سیدنا  ابراہیم علیہ السلام سے عالمی سطح پہ دین کے غلبے کا آغاز ہوا جس کی تکمیل نبی کریم نے کی۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی تحریک پہ اگر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کی آپ کی تحریک کا بنایدی مقصد انسانیت کو دو طرح کی لعنتوں سے نجات دلانا تھی۔

    1۔ شہنشاہیت انسانی کا خاتمہ: شہنشاہیت انسانی یہ ہے کہ   ملکی  یا بین ا لاقوامی سطح پر اگر ایسے گرہ غالب آ جائیں جو اپنے مفادات کے لئے انسانوں کو  غلام بنا دیتے ہیں اور طاقت کے بل بوتے پر رعایا سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں اور انہیں ظالمانہ ٹیکسوں  کے بوجھ کے نیچے ایسا دبا دیتے ہیں کہ انہیں دن رات محنت و مشقت  سے  اتنی فرصت ہی نہیں ملتی کہ وہ اپنی انسانیت کی ترقی کی طرف دھیان دے سکیں۔

    2۔ الوہیت انسانی کا خاتمہ: الوہیت انسانی یہ ہے کہ  کچھ انسانی گروہ علم اور علم کے وسائل پہ قابض ہو جاتے ہیں اور پوری انسانیت کو یا تو علم کی نعمت سے محروم کر دیتے ہیں یا پھر اس علم و سائنس کی طاقت  کے بل بوتے پر انسانوں کو غلام بنا کر استحصال کرتے ہیں۔ گویا اس علمی اجارہ داری کے طفیل یہ گروہ عوام پہ اپنی "خدائی" کرتا ہے۔

    مشن ابراہیمی کو سمجھنے کے بعد حضرت ابراہیم سے تقاضا کی گئی قربانی کی حکمت واضح ہو جاتی ہے کہ  وہ قربانی دراصل عزم تھا اس بات کا کہ دنیائے انسانیت کو انسانی شہنشاہیت اور برہمنیت کے تسلط سے نجات دلا کرایک اللہ وحدہ لا شریک کی طرف سے دی گئی آزادی سے ہمکنار کرنے کے لئے  اگر جان تک قربان کرنے کی ضرورت پیش ائی تو جان بھی قربان کر دیں گے۔ اسی طرح آگے چل کر اس مشن کی تکمیل جناب رسول اللہ نے کی ۔ آپ کے اس مقصد بعثت کو قرآن نے بڑے خوبصورت الفاظ میں یوں واضح کیا۔

    " وہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اس کو پوری جنسِ دین پر غالب کردے، خواہ یہ کام مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار گزرے"

    اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ جناب رسول اللہ   نے غلبہ دین کے نظریے پہ جماعت سازی کی اور معاشرے کی فلاح اور سماجی ارتقاء کا جزبہ رکھنے والے حساس دل نوجوانوں کو دعوت کے عمل سے اس غلبہ دین کی تحریک سے جوڑا۔ پھر آپ اور آپ کی جماعت نے پہلے قومی اور پھر بین القوامی درجے پہ  بلا تفریق رنگ و نسل و مذہب پوری انسانیت کے لئے عدل، امن اور معاشی خوشحالی کا  ایسا بہترین  نظام دیا جو قیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے نمونہ اور مشعل راہ  بن گیا۔ تاریخ کے سینے میں انسانیت کے لئے قربانی کی ایسی شاندار مثالیں رقم کی جس کی آج تک نظیر نہیں ملتی۔ انسانیت کے لئے ایک بہترین نظام زندگی دینے کے راستے میں اگر وقت کی قربان کرنا پڑا تو ہر طرح کے آسائش و آرام کو چھوڑ کر پورا پورا وقت قربان کر دیا، اس راستے نے مال کی قربانی کا تقاضا کیا تو ہر فرد نے اپنی بساط سے بڑھ کر مال قربان کیا یہاں تک کہ ایک بزرگ نے تو گھر کا تمام مال و متاع لٹا دیا، اس راستے نے جان کی قربان مانگی تو جان تک نچھاور کر دی۔

    یاد رکھئے دنیا کا چھوٹے سے چھوٹا کام بھی  مشقت اٹھائے اور قربانی دئے بغیر ممکن نہیں تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ  پوری دنیا کو ایک عدل، امن اور معاشی خوشحالی کا نظام بغیر کسی مشقت اٹھائے اور بغیر قربانی دیئے  ممکن ہو سکتا ہے۔ رہتی دنیا کو لوگوں کو یاد دہانی کے لئے ایک تہوار دیا گیا تا کہ وہ اپنے اصل مشن سے جڑے رہیں اور تجدید عہد کرتے رہیں۔ آئیے اس بار قربانی کے دن ہم سب مل کر روح قربانی کو زندہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو تاریخ کی عظیم ہستیوں کے عظیم مشن سے وابست کر لیں جنہوں نے کو انسانیت کو عدل، امد اور معاشی خوشحالی کا نظام دے کر دنیا کو جنت نظیر بنا دیا۔ آئیے آج عزم کریں کہ ہم اپنے آپ کو زیور تعلیم سے آراستہ کریں اور اس بہترین نظام زندگی کا شعور حاصل کریں  اور اس کے غلبے کے لئے جدوجہد کا راستہ اختیار کریں اور یہ عزم مصمم کریں کہ اگر اس جدوجہد کے لئے اپنے جان و مال کی قربانی بھی دینی پڑی تو دریغ نہیں کریں گے۔

     

     

    Share via Whatsapp