مُغلیہ دور! سچ کیا ہے؟ - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • مُغلیہ دور! سچ کیا ہے؟

    تاریخ وہ اہم ذریعہ ہے، جس کی بدولت ہم ماضی میں جھانک کر اُس دَور کے حالات و واقعات کا مطالعہ و تجزیہ کر کے اُس دور کے حوالے سے رائے قائم کر سکتے ہیں،

    By Qamar ud din khan Published on Oct 23, 2024 Views 255

    مُغلیہ دور! سچ کیا ہے؟

    تحریر: انجینئر قمر الدین خان(راولپنڈی )

     

    تاریخ وہ اہم ذریعہ ہے، جس کی بدولت ہم ماضی میں جھانک کر اُس دَور کے حالات و واقعات کا مطالعہ و تجزیہ کر کے اُس دور کے حوالے سے رائے قائم کر سکتے ہیں، بشرطیکہ بیان کردہ تاریخ سچائی پر مبنی ہو۔ بدقسمتی سے دُنیا میں یہ اَلمیہ رہا ہے کہ دورِ غلامی میں لکھی گئی تاریخ میں ہمیشہ دشمنوں کے حالات و واقعات کو اِس انداز میں پیش کیا جاتا رہا کہ غلامی بذاتِ خود ایک نعمت محسوس ہونے لگتی تھی۔ یہی حال برصغیر کی تاریخ کے ساتھ ہوا کہ دورِ غلامی میں انگریز نے اپنے سیاسی مقاصد کو پورا کرنے کے لیے حالات و واقعات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا اور ایک جھوٹی تاریخ مرتب کی۔

     

    انگریز کے آنے سے پہلے برعظیم پاک و ہند پر مغلوں کی حکومت تھی اور یہ ایک ترقی یافتہ خطہ تھا، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف ہندوستان دنیا کی کل جی ڈی پی کے 26 فی صد حصے کا مالک تھا۔ یہاں دولت کی ریل پیل تھی اور اِسی بنا پر اس خطے کو سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا ۔دیگر یورپی طاقتوں کی طرح برطانیہ میں یہاں موجود معاشی مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے برصغیر پہنچا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی چھتری تلے تجارت کرنے لگا ۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ حقیقتِ حال تب سامنے آئی، جب تاجر بن کر آنے والا انگریز اپنی شیطانی سیاسی چالوں اور فوجی حربوں کی بدولت اس خطے پر آہستہ آہستہ قابض ہونے لگا اور آگے چل کر 1757عیسوی میں بنگال اور 1857عیسوی میں تختِ دہلی کی فتح نے مغل بادشاہت کا مکمل خاتمہ کر دیا اور یہ خطہ مکمل طور پر ملکہ برطانیہ کے زیرِ تسلط آگیا۔

     

    یوں ہندوستان تقریباً دو سو سال انگریز کی مکمل غلامی اور جابرانہ تسلط میں رہا، لیکن حُریت پسند لیڈروں کی تحریکِ آزادی اور بے شمار قربانیوں کی بدولت انگریز کو بالآخر 1947 عیسوی میں اس خطے کو آزادی دینی پڑی۔مگر بدقسمتی کی بات ہےکہ پاکستان کے لیے یہ آزادی غُلام کے لیے صرف آقا کی تبدیلی جیسا عمل ثابت ہوئی یعنی پاکستان برطانیہ کی غلامی سے نکل کر امریکا کی غلامی میں چلا گیا۔

     

     انگریز کے دورِ حکومت میں اس خطے کی عوام پر جو مظالم ڈھائے گئے ، اس کا تذکرہ بہت کم تاریخی کتابوں میں ملتا ہے لیکن اِس کے برعکس مغل دورِ حکومت پر کیچڑ اُچھالنے سے تاریخ بھری پڑی ہے، جس سے انگریز کی متعصبانہ اور منافقانہ سوچ کی عکاسی ہوتی ہے ۔تاریخ میں مغل بادشاہوں کو عیاش، ظالم و جابر ،بے دین اور کم عقل ثابت کیا گیا ہے اور مغل بادشاہت کو یورپ کی ظالمانہ بادشاہت سے جوڑا گیا ہے حال آں کہ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اس لیے ہمارا نوجوان جب ایسی تاریخ کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کے پاس سوائے شرمندگی اور مایوسی کے کچھ نہیں بچتا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ یورپ کےموجودہ نظاموں اور فکر و فلسفہ سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

     

    اِس حقیقت سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اورنگزیب عالمگیر ؒ کی وفات کے بعد مغلیہ سلطنت کا زوال شروع ہو گیا تھا اور مغل بادشاہوں میں سیاسی اور اخلاقی کمزوریاں پیدا ہونا شروع ہو گئی تھیں (جس کی طرف امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے بھی توجہ دلائی اور اس کے سدِباب کےلیے "فکِ کُلِ نظام" کا فکروفلسفہ پیش کیا)، لیکن دورِعروج میں مغل بادشاہوں اور نظامِ عدل پر اٹھائے گئے اِعتراضات کی بنیاد وہ جھوٹی تاریخ ہے جو انگریز نے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے مرتب کروائی۔

     

    جب یورپ یونیورسٹیاں بنا رہا تھا تو ہمارے ہاں تاج محل بن رہا تھا" یہ ایک ایسا جذباتی اعتراض ہے جو یورپ سے متاثر ہر پاکستانی دانش ور کی زبان سے سننے کو ملتا ہے اور ساتھ ہی اِسی نکتہ کو ہمارے آج کے زَوال کی اصل وَجہ قرار دی جاتی ہے۔ یعنی ہمارے مُغل حکمران عشق و سَرور کی دُنیا میں مَوج مَستیاں کر رہے تھے، جب کہ اس کے برعکس یورپ سائنس اور دیگر علوم میں تحقیق و تربیت کے لیے تعلیمی ادارے بنا رہا تھا۔ یہ وہ جملہ ہے جس کو سن کر ہمارا نوجوان جذبات سے مغلوب ہو کر ایک مایوسی کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتا ہے اور اگلے درجے میں یورپ کے نظاموں سے مرعوب ہو کر اسے اپنا اِمام ماننے لگتا ہے ۔

     

    اَب آئیے! ذرا تاج محل کی تعمیر پر اُٹھائے گئے اعتراضات کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا یہ عمارت جو آج دنیا کا ساتواں عجوبہ ہے ایک عام کاریگر کی تخلیق ہے؟ یا اس کے پیچھے انجینئرز ،آرکیٹیکٹ، جیالوجسٹ اور فن تعمیر کے ماہرین کی ٹیم کی کاوشیں شامل ہیں؟

     

    تاج محل دریائے جَمنا کے کنارے 1653 عیسوی میں تعمیر کیا گیا جو آج قریباً 350 سال گزرنے کے بعد بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔ ماہرین تعمیرات سمجھ سکتے ہیں کہ پانی کے کنارے تعمیر ہونے والی عمارت کی بنیادوں کا ڈیزائن انتہائی پیچیدہ اور خاص ہوتا ہے، کیوں کہ پانی کی وَجہ سے زمین کے بیٹھنے سے عمارت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ یہی وَجہ ہے کہ تاج محل کی بنیادیں قریباً 60 میٹر گہری کھودی گئیں اور پھر اِن کی بھرائی ریت اور مختلف قسم کے پتھروں سے کی گئی، تاکہ زلزلے اور پانی کے اَثرات سے محفوظ رکھا جا سکے۔ دوسرا محل کے چاروں مینار ایک سے دو ڈگری باہر کی طرف جھکے ہوئے ،ہیں تاکہ زلزلے کی صورت میں اگر مینار گریں بھی تو اندر کے بجائے باہر کی طرف گریں اور مقبرہ محفوظ رہے ۔ پتھر وں پر کی گئی قرآنی آیات کی تحریر اور گنبد کے اندر اسمائے حسنہ کی خطاطی خود فنِ خطاطی کی خاص مہارت کی عکاسی کرتی ہے۔ یہی وَجہ ہے فنِ تعمیرکے اِس شاہکار کو دنیا کے ساتواں عجوبہ کا درجہ ملا ۔

     

    تاج محل کی تعمیر میں بیس ہزار مزدوروں اور ماہرین نے حصہ لیا اوراسے 21 سال کی مدت میں مکمل کیا گیا۔دَرج بالا حقائق کی روشنی میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ تاج محل انجینیرنگ کاایک شاہکار ہے، جس کو عملی شکل دینے میں انجینئرز،آرکیٹیکٹس، جیالوجسٹ اور خطاط ٹیموں نے حصہ لیا جو اَپنے اَپنے شعبے کے ماہرین پر مشتمل تھیں۔تاج محل کے چیف انجینئر کا نام استاد احمد لاہوری تھا جن کا تعلق لاہور سے تھا اور جو تاج محل کے علاوہ دیگر شاہکار عمارات کی تعمیر کرچکے تھے۔ ان سب باتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اُس وقت جب یورپ اِبھی تعلیم و تحقیق کے میدان میں قدم رکھنے لگا تھا۔ عین اِس وقت یہاں بر عظیم پاک و ہند میں ہمارا تعلیمی نظام اور تربیتی اِدارے اتنے مضبوط تھے کہ یہاں ہر شعبے کے ماہرین پیدا کرنے کی صلاحیت موجود تھی۔ 

     

    ہمارے ہاں تعلیمی اداروں کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک موجود تھا ،جہاں سے عالمِ دین، ماہرین طِب ،ماہرینِ تعمیرات، ماہرین سیاست اور ماہرین فلسفہ و فلکیات وغیرہ فارغِ التحصیل ہورہے تھے۔صرف ٹھٹھہ شہر میں کم و بیش 500 تعلیمی ادارے موجود تھے۔ اِس کے برعکس یورپ میں اُس وقت جہالت ناچ رہی تھی،تعلیم و تربیت اور اخلاقیات کا کوئی نظام موجود نہیں تھا۔معاشی اور سیاسی بدحالی کا دور دورہ تھا۔یورپ تاریکی کے دور(Dark Age) سے گزر رہا تھا اور اس سے نکلنے کےلیے نظام کی تعمیر ِ نو کر رہا تھا۔ یورپ خود اس دورِ جہالت کا معترف ہے۔ اس لیے یونیورسٹیز کا قیام یورپ کی ضرورت تھی، ہمارے ہاں تو تعلیم و تربیت کا نظام آغازِ اسلام سے چلا آ رہا ہے اور دورِ عُروج میں اس کی باقاعدہ ایک مضبوط شکل موجود تھی۔ تاریخ کا غیرجانبدار مطالعہ اس حقیقت کی بھی نشان دہی کرتا ہے کہ جدید سائنس کے بنیادی نظریات اور تجربات کی تشکیل میں مسلمان سائنسدانوں نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔

     

    مندرجہ بالا بحث کے بعد نوجوان کو اِس بات پر غور کرنا ہو گا کہ بالعموم اسلام کے دورِ عروج اور بالخصوص مغل دورِ حکومت پر اُٹھائے گئے اس قسم کے اِعتراضات حقیقت کے برعکس و منافی ہیں اور اِن اِلزامات کو ہمارے آج کے زوال کا موردِ الزام ٹھہرانا قطعی درست نہیں۔ ہمارے زَوال کی اَصل وجہ تو یہاں انگریز کا قائم کردہ 200 سالہ ظالمانہ تسلط اور غلامی کا دَور ہے جس نے ہمارے سیاسی، معاشی،معاشرتی اور تعلیمی نظام کو تباہ کر کے غلامی کا نظامِ ظُلم نافذ کیا،جس نے یہاں کے وسائلِ دولت کو لوٹ لوٹ کر برطانیہ کے خزانوں کو بھرنے کا کردار ادا کیا۔

    اگر ہماری آزادی سلَب نہ کی جاتی اور دورِ عروج کا نظام برقرار رہتا اور اس میں مطلوبہ اصلاحات کرلی جاتیں تو آج یورپ کی جگہ سائنس و ٹیکنالوجی اور دیگر ترقیات میں ہندوستان دنیا کی اِمامت کر رہا ہوتا، لیکن بدقسمتی سے 200سال انگریز سے آزادی حاصل کرنے میں لگ گئے اور 1947 عیسوی میں جب یہ خطہ آزاد ہوا تووہاں بھی اس کو تقسیم کر کے کمزور کر دیا گیا۔ پاکستان کے لیے تو یہ آزادی غلام کے لیے صرف آقا کی تبدیلی ثابت ہوئی اور مزید جو نظامِ ظُلم ہم پرنافذ کیا گیا آج اُسی کے زیرِ اَثر پون صدی گزرنے کے بعد بھی پاکستان معاشی اور سیاسی استحکام حاصل کرنے میں ناکام ہے۔

    اس لیے آج پاکستان کے نوجوان کو زوال کے اصل محرکات اور وجوہات کا پتہ لگا کر مایوسی سے نکلنا ہو گا اور حقیقی تاریخ سے راہ نمائی لے کر ملکِ پاکستان میں قائم نظامِ ظلم سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے عملی کردار ادا کرنا ہو گا۔ وَگرنہ یہ نظام ایک مخصوص اور منظم طریقے سے مایوسی پھیلا کر نوجوانوں کو بےعمل اور بے اثر رکھنا چاہتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے نوجوان کو صحیح تاریخ کا کھوج لگانے اور مسلم دورِ عروج کے اَصل حقائق کو جاننے کی صلاحیت اور استعداد عطا فرمائے۔آمین!

    Share via Whatsapp