عالمی استعماری نظام کا مکروہ چہرہ - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • عالمی استعماری نظام کا مکروہ چہرہ

    عالمی استعماری نظام کا مکروہ چہرہ

    By Kalim Ullah Published on Jul 07, 2025 Views 359
    عالمی استعماری نظام کا مکروہ چہرہ
    ( طاقت، مفاد اور سرمایہ داری کا سیاہ باب)
    تحریر:کلیم اللہ۔ بنوں 

    انسانی تاریخ ہمیشہ سے طاقت اور اخلاقیات کے درمیان ایک کشمکش کا شکار رہی ہے۔ کبھی طاقت نے اخلاقیات کو پامال کیا اور کبھی اخلاقی اصولوں نے ظلم کے نظاموں کو للکارا۔ بیسویں اور اکیسویں صدی میں یورپ کےتاریخی ارتقا نے تاجروں کو لامحدود قانونی اختیارات بخش دیے اور ایشیا اور افریقا کے وسائل کی بے دریغ لوٹ مار نے سرمایہ دارانہ نظام کو ایک ایسی قوت کے طور پر پنپنے کا موقع فراہم کیا کہ جس نے ترقی، آزادی اور انسانیت کے نعروں کے جھانسے میں لاکر دنیا کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا۔ یہ نظام محض معاشی ڈھانچہ نہیں، بلکہ ایک مکمل طرزِزندگی اور نظریہ ہے جو نشر و اشاعت کی طاقت کے ساتھ غیرمحسوس انداز میں استحصال کوطرزِحیات بنادیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں کروڑوں لوگ اپنی عزت، وسائل، زمین اور زندگیوں سے محروم ہوچکے ہیں۔سرمایہ داری نے جمہوریت، انسانی حقوق اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دنیا بھر میں مظالم کی نئی تاریخ رقم کی۔ یہ تحریر سرمایہ داری کے عروج، اس کی چالوں اور اس سے نمٹنے کے متبادل فکر کا جائزہ پیش کرتی ہے، خاص طور پر عادلانہ معاشی نظام کی روشنی میں، دینِ اسلام جو انسانیت امن، عدل اور معاشی خوش حالی کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔
    سرمایہ داری کا آغاز: تجارت سے غلبے تک
    سرمایہ داری کی جڑیں صنعتی انقلاب سے قبل نوآبادیاتی دور میں ملتی ہیں۔ یورپی طاقتوں نے تجارت کو ذریعہ بنا کر ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکا پررفتہ رفتہ معاشی و سیاسی تسلط قائم کیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اور ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی جیسے اداروں نے ابتدا میں تجارت کے نام پر مقامی وسائل کی لوٹ مار شروع کی، جو رفتہ رفتہ سیاسی غلبے میں تبدیل ہوگئی۔
    نوآبادیاتی استحصال: 
    مقامی صنعتوں کو تباہ کر کے ان خطوں کو خام مال کی فراہمی اور تیار مصنوعات کے صارفین کی منڈی میں تبدیل کیا گیا۔ مثال کے طور پر ہندوستان کی ہاتھ سے بنی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو برطانوی مشینری سے تیار کردہ سستے کپڑوں نے تباہ کر دیا۔
    غلامی کی معیشت:
    افریقی غلاموں کی تجارت سرمایہ داری کے ابتدائی ایندھن میں سے ایک تھی۔ لاکھوں انسانوں کو زبردستی امریکی براعظموں میں منتقل کیا گیا، تاکہ سرمایہ دارانہ منافع کو بڑھایا جا سکے۔
    مستقل ناانصافی: 
    نوآبادیاتی دور کے اَثرات آج بھی ترقی پذیر ممالک کی معاشی پس ماندگی اور سماجی عدمِ مساوات کی شکل میں نظر آتے ہیں۔یہ دور سرمایہ داری کا ابتدائی چہرہ تھا، جہاں طاقت، وسائل کی لوٹ اور استحصال نے اس نظام کی بنیاد رکھی۔
    جنگِ عظیم دوم کے بعد: نیا عالمی نظام:
    دوسری جنگِ عظیم(1944ء) کے بعد طاقت کا توازن مغرب کی طرف منتقل ہوا۔ اس دور میں سرمایہ داری نے عالمی مالیاتی نظام کے ذریعے اپنی گرفت مضبوط کی۔
    بریٹن ووڈز نظام: 
    45۔1944 ءمیں قائم ہونے والے آئی ایم ایف اور ورلڈبینک نے ترقی پذیر ممالک کو قرضوں کے جال میں پھنسایا۔ یہ قرضے ترقی کے نام پر دیے گئے، لیکن ان کے ساتھ منسلک شرائط نے مقامی معیشتوں کی خودمختاری کو ختم کردیا۔
    نجکاری اور ڈھانچہ جاتی اصلاحات:
    ترقی پذیر ممالک کو نجکاری، سب سڈی ختم کرنے اور مزدوروں کے حقوق کمزور کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اس سے مقامی صنعتوں اور کسانوں کو نقصان پہنچا، جب کہ کثیرالقومی کمپنیوں نے ان منڈیوں پر قبضہ کیا۔مثلاً 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں میں افریقی اور لاطینی امریکی ممالک پر آئی ایم ایف کی شرائط نے ان کی زرعی معیشتوں کو تباہ کیا، جس سے بھوک اور غربت میں اضافہ ہوا۔اس نظام نے سرمایہ داری کو ایک عالمی ڈھانچے کے طور پر مستحکم کیا، جس نے کمزور ممالک کو قرضوں کی غلامی میں دھکیل دیا۔
    سرد جنگ: نظریات کی آڑ میں مفادات :
    (1947-1991) سرمایہ داری اور اشتراکیت کے درمیان نظریاتی جنگ کا دور کہلاتی ہے، لیکن اس کے پیچھے اصل مقصد سیاسی اور معاشی غلبہ تھا۔ 
    سرمایہ دارانہ طاقتوں نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے دنیا بھر میں مداخلت کی:
    ایران (1953ء): امریکی اور برطانوی خفیہ ایجنسیوں نے وزیراعظم محمد مصدق کی منتخب حکومت کا تختہ اُلٹ کر شاہِ ایران کو اقتدار دیا، کیوں کہ مصدق نے تیل کی صنعت کو قومیانے کی کوشش کی تھی۔
    لاطینی امریکا: 
    چلی، گوئٹے مالا اور دیگر ممالک میں بائیں بازو کی حکومتوں کو ختم کر کے فوجی آمروں کو اقتدار دیا گیا، جو سرمایہ دارانہ مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرتے تھے۔
    افغانستان (1979-1989): 
    سوویت اَثر و رسوخ کو روکنے کے لیے مغربی طاقتوں نے مجاہدین کی حمایت کی، جو بعد میں دہشت گردی کا ایک نیا بحران بنا۔یہ تمام اقدامات "جمہوریت" اور "آزادی" کے نام پر کیے گئے، لیکن ان کے نتائج تباہ کن تھے: خانہ جنگی، معاشی بدحالی اور سماجی انتشار۔
    اکیسویں صدی: براہِ راست حملے اور جدید غلامی
    نائن الیون (2001) کے بعد سرمایہ داری نے "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کے نام پر اپنی جارحیت کو نئی شکل دی۔ اس دور میں براہِ راست فوجی مداخلت اور بالواسطہ استحصال دونوں نے عالمی سطح پر تباہی پھیلائی۔ 
    عراق (2003): 
    تیل کے وسائل پر قبضے اور جغرافیائی اَثر و رسوخ کے لیے عراق پر حملہ کیا گیا۔ لاکھوں شہری ہلاک ہوئے اور داعش جیسی تنظیموں کا جنم ہوا۔
    افغانستان (2001-2021):
    افغانستان میں بیس سالہ امریکی دراندازی اور جنگ کے بعد اچانک انخلا نے اس ملک کو انتشار اور غربت کے حوالے کر دیا۔
    لیبیا (2011): 
    قذافی کے خاتمے کے بعد لیبیا ایک ناکام ریاست بن گیا، جہاں غلاموں کی منڈیاں تک قائم ہوگئیں۔
    شام:
    خانہ جنگی کو ہوا دی گئی، جس سے لاکھوں افراد ہلاک اور کروڑوں بے گھر ہوئے۔اس کے ساتھ، ڈرون حملوں، اقتصادی پابندیوں اور نجی فوجی کمپنیوں کے استعمال نے ظلم کی نئی شکلیں متعارف کروائیں۔
    ذہنوں پر قبضہ: 
    میڈیا، تعلیم اور ثقافت:
    سرمایہ داری کی سب سے خطرناک چال ذہنی انتشارپیدا کرنا ہے۔ اس نے ثقافتی، تعلیمی اور میڈیا کے ذرائع کو استعمال کر کے انسانوں کے شعور کو مضمحل کیا:
    ہالی ووڈ: 
    جنگی فلموں اور ہیرواِزم کے ذریعے طاقت کو جائز اور پرکشش بنایا گیا۔فلموں میں امریکی فوجی مداخلت کو ہمیشہ بہادری سے جوڑا جاتا ہے۔
    تعلیمی نظام: 
    مقابلہ، کیریئراِزم اور مادیت کو فروغ دیا گیا۔ نصاب میں انسانیت، اخلاقیات اور سماجی رشتوں کی اہمیت کو پسِ پشت ڈال دیا گیا۔
    سوشل میڈیا: 
    فیس بک، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز نے نوجوانوں میں تنہائی،خودپسندی اور مادیت پرستی کو بڑھاوا دیا۔ نوجوان نسل اپنی شناخت کو مادی کامیابی سے جوڑنے لگی۔اس ثقافتی حملے نے انسان کو روحانیت، سماجی رشتوں اور زندگی کے مقصد سے دور کر کے ایک ایسی مشین میں تبدیل کر دیا جو صرف منافع اور مقابلے کے لیے چلتی ہے۔
    معاشی عدم مساوات: 
    ترقی کے پردے میں تباہی سرمایہ داری نے معاشی نابرابری کو بے تحاشا بڑھایا،دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم، آج دنیا کی 1% آبادی 50% سے زائد دولت پر قابض ہے۔ آکسفیم کی 2023ء کی رپورٹ کے مطابق، دنیا کے 8 ارب پتیوں کے پاس اتنی دولت ہے جتنی نصف عالمی آبادی کے پاس ہے۔
    غربت اور بھوک: 
    اقوامِ متحدہ کے مطابق، 2024ء تک 80 کروڑ سے زائد لوگ بھوک کا شکار ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کی ترجیح منافع ہے، نہ کہ انسانیت۔
    مزدوروں کا استحصال: 
    عالمی معیشت میں مزدور طبقہ مہنگائی، کم اجرت اور قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ بنگلادیش کی گارمنٹس فیکٹریوں سے لے کر ایمازون کے گوداموں تک، محنت کشوں کا استحصال جاری ہے۔سرمایہ داری کا یہ ماڈل انسانوں کی فلاح کے بجائے زیادہ سے زیادہ منافع کے حصول کی دوڑ پر مبنی ہے۔
    دینی معاشی نظام: 
    ایک منصفانہ متبادل معاشی نظام انسانیت کا بنیادی تاریخی تقاضا ہے۔ بہ حیثیت مسلمان موجود استحصالی ڈھانچے کی بوسیدگی ہم سے اس ذمہ داری کا مطالبہ کرتی ہے کہ ہم اس کا ایک مضبوط متبادل پیش کریں۔ تاریخی طور پراسلامی نظامِ معیشت کی بنیادیں عدل، توازن اور انسانیت کی معاشی خوش حالی پر استوار ہیں۔ 
    مزدور کے حقوق: 
    نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی اُجرت ادا کی جائے۔ یہ محنت کشوں کے استحصال کے خلاف ایک واضح اصول ہے۔
    دولت کی منصفانہ تقسیم: سورہ الحشر  میں ارشاد ربانی ہے کہ یہ دولت صرف امیروں کے درمیان گردش نہ کرے۔ اسلامی نظام وسائل کو معاشرے کے تمام طبقات تک پہنچانے پر زور دیتا ہے۔یہ نظام فرد، معاشرے اور ریاست کو عدل و انصاف کے تابع کرتا ہے، نہ کہ طاقت اور مفاد کے۔
     نظام کے شعور کی ضرورت و اہمیت
    موجود نظام سرمایہ داری نے ترقی کے نام پر دنیا کو استحصال، نابرابری، اور تباہی سے دوچار کیا ہے۔ 
    آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم نظاموں کا شعورحاصل کریں اور ایک ایسے نظام کی تشکیل کے لیے کام کریں جو عدل، معاشی خوش حالی اور امن پر مبنی ہو۔اسلامی معاشی تعلیمات ایک قابلِ عمل متبادل حل پیش کرتی ہیں جو انسان کو وسائل کا امین بناتی ہیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم سرمایہ داری کے جھوٹے وعدوں کی مصنوعی فضا سے نکل کر ایک منصفانہ، فطری اور فلاحی نظام کی طرف بڑھیں جو نظریہ قرآن پاک انسان دوست تعلیمات پر مبنی ہو۔
    ادارہ رحیمیہ علوم قرانیہ ٹرسٹ لاہور ایسے ہی سوچ پر مشتمل ادارہ ہے، جو نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے نوجوان اس نادر موقع سے بھرپور فائدہ اُٹھائیے اور ادارے کے تربیتی نظام میں خود کو شامل کریں۔
    Share via Whatsapp