ایک عظیم الشان تاریخی تعزیتی جلسے کی روداد - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • ایک عظیم الشان تاریخی تعزیتی جلسے کی روداد

    کابل کے بابر باغ میں حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن ؒ کے وصال کے موقع پر تعزیتی جلسے کا انعقاد کیا گیا تھا

    By وسیم اعجاز Published on Dec 01, 2020 Views 3159
    ایک عظیم الشان تاریخی تعزیتی جلسے کی روداد
    (حضرت شیخ الہند ؒ کی یاد میں)
    تحریر: وسیم اعجاز ، کراچی

    ایک صدی کا سفر طے کرکے ماضی میں جائیں تو وقت ہمیں ایک تاریخی مقام پر لے جاتا ہے۔ جہاں فاصلے سمٹ جاتے ہیں۔نگاہیں ادب و احترام سے جھک جاتی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کائنات کی تمام تر توانائیاں اس حریت و آزادی کے پیکر کے ادب سے سرشار ہوگئی ہوں۔ اس تاریخی جلسہ گاہ میں گو کہ ہُو کا عالم لیکن عوام کا جم غفیر تھا۔ شہر کے خاص و عام جلسہ گاہ میں موجود تھے۔ جو رہ گئے تھے وہ جوق در جوق جلسہ گاہ کی جانب رواں دواں تھے۔ عمائدین شہر، علمائے کرام، طلباء و اساتذہ اس عظیم الشان مجلس کا حصہ تھے۔ سب کے دلوں میں محبت و عقیدت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر موج زن تھا۔ یہ عقیدت و محبت ایسی عظیم ہستی سے متعلق تھی جس نے اپنی ساری زندگی وطن و ملت کے لیے وقف کردی تھی۔ آزادی و حریت  کے جذبے سے سرشار بھرپور زندگی بسر کی اور پوری ایک صدی قبل 30 نومبر1920ء کو اس دارِ فانی سے عالم بقا کی جانب کوچ کر گئے۔ ذکر ہے برعظیم پاک و ہند کی عظیم شخصیت کا جنہیں لوگ شیخ الہند ؒ کے لقب سے جانتی ہے۔کابل کے بابر باغ میں حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن ؒ کے وصال کے موقع پر تعزیتی جلسے کا انعقاد کیا گیا تھا۔
    حضرت شیخ الہندؒ نے اپنی ان تھک جدوجہد اور تحریک آزادی کی سرگرمیوں سے نہ صرف ہندوستان کی قیادت کو متأثر کیا بلکہ بین الاقوامی سطح پر لیڈروں کے ذہنوں پر بھی ان مٹ اثرات مرتب کیے۔ ان ممالک میں سر فہرست افغانستان ،ترکی، سعودی عرب، جاپان، روس مالٹا وغیرہ سر فہرست ہیں۔  مذکورہ جلسے میں کابل اور افغانستان کے دیگر علاقوں کے علاوہ ترکی سے تعلق رکھنے والے حریت پسند راہنما اور روسی سفیر بھی ادب و احترام کے ساتھ اس مجلس میں موجود تھے۔ ہندوستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے حریت پسند بھی اس اجتماع کا حصہ تھے۔
    جلسے کا آغاز اللہ تعالٰی کے پاک کلام سے کیا گیا۔ دعائیہ کلمات کے بعد امیر امان اللہ خان نے زبردست الفاظ میں حضرت شیخ الہند ؒ کو خراج عقیدت پیش کیا اور امام انقلاب ؒ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ،" حضرت شیخ الہند ؒ کی وفات سے مجھے سخت صدمہ پہنچا ہے۔ اور آپ اور دوسرے علماء جن کا مولانا محمود حسن ؒ سے گہرا تعلق تھا، میری دلی ہم دردی کے مستحق ہیں۔ وہ اسلام کی عمارت کے ایک مضبوط ستون کی حیثیت رکھتے تھے۔اور اس کی وفات سے جو خلا پیدا ہو گیا ہے وہ شاید کبھی پُر نہ ہوسکے۔"
     امامِ انقلابؒ  حضرت شیخ الہندؒ کے نام ور شاگرد اور تحریکِ ریشمی رومال میں رفیقِ خاص تھے۔ حضرت شیخ الہند ؒ کے وصال کی دل دہلا دینے والی خبر نے  کابل میں موجود تمام مہاجرین کے ساتھ ساتھ امامِ انقلاب ؒ کو بھی بہت افسردہ کردیا تھا گویا غم کا ایک پہاڑ تھا جو تمام حاضرینِ جلسہ پر ٹوٹ پڑا تھا۔
    جلسہ میں جب والی افغانستان غازی امان اللہ خان نے حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کو دعوت خطاب دی تو یقیناً حضرت سندھیؒ کی نظروں میں حضرت شیخ الہند ؒ کے ساتھ بسر کیے ہوئے شب و روز کی یادیں تازہ ہو گئی ہوں گی۔ دارالعلوم دیوبند میں شیخ الہند ؒ کے زیرِ تربیت ایام، جمعیۃ الانصار کی سرگرمیوں میں راہنمائی، انجمن ثمرۃ التربیت کے کاموں کی سرپرستی، تحریکِ ریشمی رومال میں دور اندیشی سے سرشار قائدانہ کردار۔  امامِ انقلابؒ جب اسٹیج پر تشریف لائے تو وہ اکیلے نہیں تھے بلکہ یادوں کی ایک پوری انجمن آپؒ کے ہم راہ تھی۔
    جب مولانا عبید اللہ سندھیؒ اپنے محسن و مربی کی یاد میں تعزیتی جلسےمیں تقریر کے لیے اسٹیج پر کھڑے ہوئے تو فرطِ غم سے ضبط نہ کر سکے اور زارو قطار رونے لگے۔ کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو اشک بار نہ ہو۔ آنکھوں سے جاری اشکوں کے نادر و نایاب موتی حضرت شیخ الہندؒ کی عظیم جدوجہد کے لیے ایسی خراجِ عقیدت تھے جنہوں نے زبان و بیان سے قبل ہی بازی جیت لی تھی۔ امام انقلابؒ حضرت شیخ الہندؒ کے ادب و احترام میں کھڑے رہے۔  
    امامِ انقلاب ؒ نے فرمایا؛
    " حضرت شیخ الہندؒ کی زندگی ایک مکمل کتاب کی طرح ہے۔ جس کے ورق ورق سے ہم نصیحت حاصل کر سکتے ہیں۔ وہ نہ صرف برگزیدہ مذہبی راہنما تھے بلکہ شمع آزادی کے سچے پروانے تھے۔"
    امامِ انقلاب مولانا عبید اللہ سندھی ؒنے حضرت شیخ الہند ؒ سے اپنی آخری ملاقات کا احوال بیان فرمایا کہ حضرت شیخ الہند ؒ  سے اجازت لے کر جب افغانستان کے لیے رختِ سفر باندھا تو حضرت شیخ الہند ؒ نے ارشاد فرمایا کہ،
    " جب بھی آپ کو کوئی تکلیف پہنچے یا کسی بات پرپریشان ہوں تو یہ اشعارپڑھیں ان شاء اللہ آپ کا حوصلہ قائم رہے گا۔"
    (حضرت سندھیؒ کے ایک شریک سفر حاجی فیض محمد خان ؒ  نے صرف دو اشعار بیان کیے ہیں یہاں مکمل اشعار لکھ دیے ہیں جو کہ آج بھی ہم سب کے لیے ہمت و جرأت کا نشاں ہیں)
    اهل نظر که عالَم تحقیق دیده اند 
    عشق تو را به مُلک دو عالم خریده اند 
    (اہلِ نظر(یعنی باشعور اجتماعیت) جو عالم حقیقت کو دیکھتے ہیں، (اےرب!) تیرے عشق کو دو جہانوں کے ( خزانوں اور دولت) کے عوض خریدتے ہیں)
    صاحبدلاں به مُلک کساں دل نمی دهند 
    آں ها که از کمال تو ، رَمزی شنیده اند
    ( اہل دل لوگ بادشاہی پر دل نہیں دے دیتے بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے تیرے کمال سے ایک اشارہ( اللہ تعالیٰ کی منشا کو) حاصل کر لیا ہے)
    غافل مشو ، که مَرکبِ مردانِ مرد را 
    در سنگلاخ بادیه ، پی ها بُریده اند 
    (غافل نہ ہو (یعنی یاد رکھو) کہ جدوجہد کے راستے کے بہت سے جواں مردوں نےسنگلاخ چٹانوں اور دشورا گزار راستوں پر مسلسل چل کر اپنے پاؤں زخمی کیے ہیں۔ )
    نومید هم مباش ، که رندان باده نوش 
    ناگَه به یک خروش ، به منزل رسیده اند 
    ((مشکلات کی وجہ سے) نا امید نہ ہو کہ جدو جہد کے جذبے سے سرشار لوگ ایک ہی ساعت میں منزل تک پہنچ جاتے ہیں۔)
    انصاری از بلا چه بنالی ؟ صبور باش 
    دانی که صابران چه بلاها کشیده اند
    (اے انصاری! بلاؤں اور مصائب پر کیوں روتا ہے؟ صابر بن جا، جانتا ہے کہ صابر لوگ (منزل کے راستے میں) کس قدر مشکلات برداشت کرتے ہیں)
    ( خواجه عبدالله انصاری )
    حضرت شیخ الہند ؒ کے حکم سے جب حضرت سندھیؒ افغانستان تشریف لائے تو برعظیم پاک و ہند کی آزادی کی تحریک ریشی رومال کے لیے دن رات ایک کر دیے تھے۔ قدم قدم پر مصائب نےرکاوٹیں ڈالیں۔ اپنوں اور غیروں نے دھوکے بھی دیے۔کتنے ہی موقعوں پر امامِ انقلابؒ کو حضرت شیخ الہند ؒ سے آخری ملاقات میں ہونے والی باتیں یاد آئی ہوں گی۔ 
    مولانا اپنی پوری تقریر کے دوران پھوٹ پھوٹ کر روتے رہے۔ عجیب رقت آمیز منظر تھا۔ آج اس عظیم ہستی کو ہم سے جدا ہوئے پورے سو سال گزر چکے ہیں لیکن ان کے فکرو عمل کی تازگی آج بھی برقرار ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ولی اللہی فکر و عمل کے کارواں کے اس مردِ مجاہد کو آج ہم اپنی زندگی کا حصہ بنائیں اور انسانیت دوستی کی اساس پر اپنے عمل کی بنیاد رکھیں۔
    اللہ تعالیٰ ہمیں ان اکابریں کے مشن سے استقامت کے ساتھ وابستہ فرما اور تحریکِ ریشمی رومال کے قائدین کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرما۔( آمین یا رب العالمین)
    Share via Whatsapp