نسل پرستی اور ذات پات کا معاشی پہلو - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • نسل پرستی اور ذات پات کا معاشی پہلو

    تاریخ ثابت کرتی ہے کہ آج کی نسل پرستی اور ذات پات کے فرق کے پیچھے معاشی استحصال کی ایک لمبی داستان ہے۔

    By Shah Muhammad Published on Sep 06, 2020 Views 2820

    نسل پرستی اور ذات پات کا معاشی پہلو

    تحریر: شاہ محمد، گھوٹکی


    دنیا کے مختلف ممالک میں نسل پرستی (racism) اور ذات پات کی بنا پر نفرت دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس نفرت اور خوف کی فضا نے انسانی معاشروں کا شعور اور امن و امان تباہ کر دیا ہے۔ یہ نفرت و بغض کہاں سے پیدا ہوا؟ اس کی جڑ کیا ہے؟ آئیے تاریخ سے ان سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔

    آج کی نسل پرستی اور ذات پات کی بنیاد پر تقسیم کے پیچھے معاشی استحصال کی ایک لمبی داستان ہے۔ جو نسل اور قبیلہ کسی معاشرے میں معاشی وسائل پر قابض ہوا، اس نے نسل و ذات پات کا فرق پیدا کر کے نفرتوں کو فروغ دیا تا کہ اس کی معاشی اجارہ داری قائم رہے۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ اس میں سیاسی پہلو بھی آ جاتا ہے کیوں کہ جس معاشرے میں طاقت کا سر چشمہ سرمایہ ہوتا ہے وہاں پر سیاسی نظام پر بھی انھی لوگوں کا قبضہ ہو جاتا ہے جن کے پاس دولت کی ریل پیل ہو

    اس استحصال اور ظلم کو قائم رکھنے کے لیے بہت سارے دلائل دیے جاتے ہیں۔ مثلاً ایک تو حیاتیاتی دلیل (biological argument) دی گئی کہ جو کمتر نسلیں یا ذاتیں ہیں وہ پیدائشی طور پر کمتر ہیں۔ غلامی ان کے خمیر میں ہے۔ اور معتبر نسلیں یا ذاتیں پیدائشی معتبر ہیں۔ اس کے بعد مذہبی دلائل (religious arguments) بھی گھڑے گئے تاکہ اس تقسیم پر مذہبی مُہر بھی لگائی جا سکے۔ اس بنیادی مفروضے (hypothesis) کو ثابت کرنے کے لیے ہم تین تاریخی حقائق پر روشنی ڈالیں گے:

    1۔ امریکا میں سیاہ فام لوگوں (African-Americans) کے خلاف نسل پرستی

    2۔ انڈیا میں ذات پات کا نظام 

    3۔ پاکستان میں برادری ازم

    سن سترھویں صدی عیسوی کے آغاز میں برطانیہ نے امریکا کو اپنی کالونی (colony) بنانا شروع کیا۔ بحرِ اوقیانوس (Atlantic Ocean) کی ساحلی پٹی پر کل 13 کالونیاں بنائی گئیں۔ جنوبی کالونیوں کی زمین زرخیز تھی اس لیے وہاں پر جاگیرداری نظام نافذ کیا گیا۔ کالونیوں کے لیڈروں نے فرمان جاری کیا کہ جو جاگیردار ایک غلام لائے گا اس کو 50 ایکڑ زمین دی جائے گی۔ اور اس طرح غلاموں کی تجارت (slave trade) کا سلسلہ شروع ہوا۔ تجارتی جہازوں میں افریقا سے لاکھوں لوگوں کو جبراً بحرِ اوقیانوس پار کروا گیا اور برطانیہ کی امریکی کالونیوں میں غلامانہ زندگی میں جھونک دیا گیا۔ بعد میں یہ غلامی تمام 13 کالونیوں میں پھیلا دی گئی۔ ان سے جانوروں کی طرح کام لیا جاتا اور محض زندہ رہنے کے لیے کھانا دیا جاتا۔ ان کے کندھوں پر برطانیہ نے بہت بڑا زرعی امپائر کھڑا کر دیا (پہلے تمباکو اور پھر کپاس کا امپائر)۔ اس غلامی کی سیاہ رات کو برقرار رکھنے کے لیے اور معاشی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے برطانوی گورے جاگیرداروں نے یہ بات عام کر دی کہ سیاہ فام کی عقلی صلاحیت پیدائشی طور پے کم ہے۔ (biological argument) اس لیے وہ صرف غلامی کے لائق ہیں (حال آں کہ اس بات کا کوئی میڈیکل ثبوت نہیں ہے)۔ من گھڑت دلیلیں بائبل کے عنوان سے پیش کی گئیں کہ حضرت ابراہیم  اور عیسیٰ علیہما السلام نے کبھی غلامی کی مخالفت نہیں کی (religious argument)۔ اور اس طرح سیاہ فام کے خلاف نسل پرستی کا آغاز ہوا۔ یہ نسل پرستی کا زہر تعلیم اور پروپیگنڈے کے ذریعے آنے والی نسلوں کے ذہنوں میں ڈالا گیا تا کہ وہ اس غلامی کی حمایت کرتی رہیں۔

    امریکی انقلاب (1783-1776) میں سیاہ فام کی غلامی کو ختم نہیں کیا گیا۔ تقریباً 80 سال بعد امریکی خانہ جنگی کے بعد 1865 میں آئین میں 13ویں، 14ویں اور 15ویں ترامیم کر کے غلامی کو ختم کیا گیا۔ لیکن اصل میں ہوا یوں کہ سیاہ فام کو زرعی غلامی سے نکال کر صنعتی غلامی میں دھکیل دیا گیا۔ آج تک امریکی تعلیمی نظام اور میڈیا نسل پرستی کو ختم نہیں کر سکا۔ بلکہ یہ ادارے جان بوجھ کہ سفید فام بالادستی (white supremacy) کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکی نظام میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنے سیاسی و معاشی مقاصد کے حصول کے لیے اپنی قوم میں اس "divide and rule" کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔

    اب آتے ہیں انڈیا کے ذات پات کے نظام (Indian Caste System) کی طرف۔ انڈیا کے ہندوؤں میں 4 بڑی ذاتیں پائی جاتی ہیں جن کو ویدانتی زبان میں ورنا (varna) کہا جاتا ہے۔ اس طبقاتی تقسیم میں سب سے اوپر براہمن آتے ہیں جو دانش ور اور پنڈت ہیں۔ اس کے بعد شتریوں کا درجہ آتا ہے جو حکمران اور جنگجو ہیں۔ تیسرے نمبر پے ویش ہیں جو زمین دار اور تجارت پیشہ ہیں۔ سب سے آخر میں شودروں کا نمبر آتا ہے جو صرف کسان اور مزدور ہی بن سکتے ہیں۔

    1500 قبل مسیح کے قریب وسطی ایشیا سے آرین نسل (Aryans) برِصغیر میں داخل ہوئی۔ اور یہاں کے معاشی وسائل پر قابض ہو گئیں۔ اپنی معاشی بالادستی کو قائم رکھنے کے لیے انہوں نے ہی یہ ذات پات کی طبقاتی تقسیم پیدا کی۔ انہوں نے خود کو پہلی تین ذاتوں (براہمن، شتری اور ویش) میں منظم کر لیا۔ اور مقامی آبادی کو شودر بنا کر اپنا غلام بنا دیا۔ اس کے بعد اچھوت (untouchables) کے نام سے ایک اور ذات بنائی گئی جن کو دلِت بھی کہا جاتا ہے۔ اس تقسیم کے پیچھے بنیادی مقصد معاشی استحصال اور سیاسی جبر تھا۔ پہلی تین ذاتوں کو ہر طرح کے حقوق اور مواقع میسر تھے، اور باقیوں کو غلام بنا کر جانوروں والی زندگی بسر کرنے پے مجبور کر دیا گیا۔

    اس معاشی اجارہ داری اور سیاسی جبر کو برقرار رکھنے کے لیے مقتدر آرین نسل نے حیاتیاتی دلیل (biological argument) یہ دی کہ براہمن کے اندر پیدائشی ستوہٰ (عقل و دانش) والی خصوصیت ہے۔ شتریوں اور ویش میں راجس (جرات و بہادری) اور شودر کے اندر طماس (بے عقلی اور بزدلی) والی خصوصیت ہیں۔ اس لیے شودر نسل در نسل غلام رہیں گے۔

    اس کے علاوہ آرین نسل کی قدیم مذہبی کتاب "رِگ ویدا" میں ایسی باتیں ڈالی گئیں جو اس تقسیم پر مذہبی مُہر لگانے کا کام کرتی ہیں (religious argument)۔ اس کتاب میں لکھا ہے کہ براہما دیوتا نے اپنا انت کر کے انسانی معاشرہ بنایا۔ اور یہ سب ذاتیں اس کے جسم کے مختلف حصوں میں سے نکلیں۔ براہمن اس کے سر سے وجود میں آئے، شتری ہاتھوں سے، ویش رانوں سے اور شودر اس کے پیروں سے نکلے۔ شودر پیروں سے نکلے اس لیے دیوتا براہما چاہتا ہے کہ وہ غلام ہی رہیں۔

    گویا ثابت یہ ہوا کہ مقتدر آرین نسل نے معاشی استحصال برقرار رکھنے کے لیے طبقاتی تقسیم کی اور پھر اس تقسیم کے حق میں عجیب قسم کے حیاتیاتی اور مذہبی جواز دیے۔ بلکل ایسے ہی جیسے سیاہ فام لوگوں کا معاشی استحصال قائم رکھنے کے لیے برطانوی استعمار نے من گھڑت حیاتیاتی اور مذہبی دلیلیں دیں۔ برصغیر کے ہندؤوں کی تاریخ میں یہ ذات پات کی تقسیم کی شدت، حکمران طبقے کے حساب سے، کبھی کم اور کبھی زیادہ ہوتی رہی۔ بُدھ مت اور اشوکا کے نسبتاً عادلانہ نظامِ حکومت میں اس تقسیم کی شدت کو کم کیا گیا۔ مغلوں نے براہمنوں کی اجارہ داری کو توڑا اور اس تقسیم کو کافی حد تک کم کیا۔

    لیکن جب انگریز برصغیر پر قابض ہوئے اور انہوں نے معاشی استحصال اور سیاسی جبر کی نئی رات مسلط کی تو اس ذات پات کے نظام نے نئے سرے سے سر اٹھایا۔  انگریزوں نے اپنی "divide and rule" پالیسی کے تحت براہمن کو اپنے ساتھ ملایا اور اس تقسیم میں شدت پیدا کی۔ نامور اینتھروپالجسٹ سوسین بیلی اپنی کتاب "Caste, Society and Politics in India" میں لکھتی ہیں، "کالونیل دور سے پہلے برصغیر کے اکثر لوگ ذات پات کی تقسیم کو خاص اہمیت نہیں دیتے تھے۔ آج کل کے ذات پات والے نظام نے تب سر اٹھایا جب برصغیر میں مغلیہ سلطنت کا زوال ہو رہا تھا اور مغربی استعمار کا اثر رسوخ بڑھ رہا تھا۔" آزادی کے بعد انڈیا کے آئین نے اس ذات پات کے نظام کو کالعدم قرار دے دیا لیکن آج بھی انڈیا کے کئی دیہی علاقوں میں یہ تقسیم رائج ہے۔ اس کی یہ وجہ ہے کہ انڈیا کے مقتدر طبقے میں کچھ ایسے لوگ ہیں جو اپنے معاشی و سیاسی مفادات کی وجہ سے اس تقسیم اور نفرت کو ختم نہیں کرنا چاہتے۔

    اب آخر میں آتے ہیں پاکستان کے برادری ازم کی طرف۔ یہاں بھی کچھ برادریوں (ذاتوں )کو معتبر سمجھا جاتا ہے اور کچھ کو نیچ۔ اگر آس پاس نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہاں کی معتبر اور طاقتور برادریاں وہی ہیں جن کے پاس زیادہ معاشی وسائل ہیں۔ استعماریت (colonialism) کے لیے اپنی خدمات سر انجام دینے کے عوض، انگریزوں نے ان برادریوں کے رہبروں کو بڑی بڑی جاگیریں دیں۔ وہی برادریاں آج ملک میں سیاسی و معاشی اثر رسوخ رکھتی ہیں۔ خصوصاً دیہی علاقوں میں ان معتبر برادریوں کے سربراہان نے برادریوں  کی تقسیم اور اس کی بنا پرنفرت کو بہت فروغ دیا ہے۔

    اگر آپ دیہی علاقوں میں چلے جائیں تو یہ تأثر آپ کو عام سننے کو ملے گا کہ معتبر برادریاں پیدائشی معتبر ہوتی ہیں اور کمتر برادری پیدائشی کمتر (biological argument)۔ ان بےشعور لوگوں کو یہ نہیں پتا کہ آج وہ جس کو کمتر ذات سمجھتے ہیں، اگر انگریز اس کو جاگیریں دے دیتا تو وہ آج کی معتبر برادری کہلاتی۔ البتہ اس تقسیم کے حوالے سے کوئی مذہبی دلیل نہ بھی ملے تو ان مقتدر و معتبر برادریوں کے سربراہان فاسد مذہبی طبقے کے ساتھ تعلقات بنا کر اپنی اجارہ داری پر مذہبی مہر لگانے کی کوشش کرتی ہیں۔

    نیز یہ حقیقت ثابت ہو چکی کہ معاشروں میں نسل، ذات پات اور فرقہ وارانہ تقسیم اور اس کی بنا پے نفرت وہ طبقہ پیدا کرتا ہے جو معاشی وسائل پر قابض ہو کر استحصال کرتا ہے۔ اور مظلوم نسلوں یا ذاتوں کی کمتری کو ثابت کرنے کے لیے فضول اور من گھڑت دلیلیں پیش کرتا ہے۔ اصل حقیقت تو یہ ہے کہ ہر فرد کو، بلا تفریق رنگ، نسل، ذات اور مذہب، خدا نے قابلیت دی ہے اور عزتِ نفس دی ہے۔ اگر برابری کے حقوق اور مواقع دیے جائیں تو ہر قسم کا فرد ترقی کے مراحل طے کرسکتا ہے۔ آج ہمیں چاہیے کہ شعور حاصل کریں، تاریخ کا مطالعہ کریں۔ انسانیت دوست نظریہ اپنائیں اور ہر مسئلے کا سیاسی اور معاشی پہلو سے جائزہ لیں۔ اسی میں ہی ہماری نجات ہے۔

    Share via Whatsapp