تحریک شیخ الہندؒ اور سانحہ جلیانوالا باغ کے سو سال - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • تحریک شیخ الہندؒ اور سانحہ جلیانوالا باغ کے سو سال

    تحریک شیخ الہندؒ کے تناظر میں جلیاں والا باغ کےحریت پسندوں کی داستانِ خون چکاں کے سو سال مکمل ہونے پر برطانوی سامراج کے ماتھے پر لگے سیاہ داغ کا تذکرہ

    By وسیم اعجاز Published on Apr 13, 2019 Views 4244

    تحریک شیخ الہندؒ اور سانحہ جلیانوالا باغ کے سو سال

    تحریر: وسیم اعجاز ۔ کراچی


    تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ ماضی میں حصولِ آزادی کی جدوجہد میں ولی اللہی تحریک پیش پیش رہی ہے۔اس تحریک کا ایک مرحلہ شیخ الہند مولانا محمود حسن ؒ کی تحریک ریشمی رومال (1915) ہے۔ اس تحریک کی ایک خوبی یہ رہی ہے کہ اس نے پورے ہندوستان میں مراکز بنا کر کام کیا۔ ان مراکز میں دہلی، دین پور، امروٹ،کھڈہ کراچی، چکوال، باجوڑیاغستان،کابل اور حجاز کے علاوہ بے شمار ذیلی مراکز قابلِ ذکر ہیں۔ ایک طرف خود حضرت شیخ الہند ؒ حجاز میں بیٹھ کر خلافت عثمانیہ کے ساتھ رابطہ قائم کئے ہوئے تھے اور دوسری جانب کابل میں امام انقلاب مولانا عبید اللہ سندھیؒ عارضی حکومتِ ہند کے مشن کو سرانجام دے رہے تھے۔

    تحریک کا مشن یہ تھا کہ اندرونی اور بیرونی دبائو کو بروئے کارلا کر ہندوستان کو ظالم انگریزوں سے آزادی دلائی جائے۔اس تحریک کی ایک اورمنفرد بات یہ تھی کہ پیغام رسانی کا تمام نظام ریشمی رومالوں پر لکھ کر کیا جاتا تھا جو اس تحریک کی وجہ تسمیہ بنا۔ کسی وجہ سے یہ خطوط انگریزوں کے ہاتھ لگ جانے سے حکومتی ایوان لزر جاتا ہے اورتدابیر سوچنے لگتا ہے کہ کس طرح اس صورت حال سے نمٹا جائے۔1917ء میں شریف مکہ کی غداری کے سبب حضرت شیخ الہندؒ کو دیگر حریت پسندوں کے ہمراہ مالٹا میں قید کرلیا جاتا ہے۔

     کابل میں مولانا عبید اللہ سندھیؒ اور ان کی قائم کی گئی حکومت موقتہ کی موجودگی اور پنجاب اور بنگال میں جاری تحریکوں کی وجہ سے 1918ء میں سڈنی رولٹ نامی انگریز جج کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم ہوئی۔ اس کا کام ہندوستان میں جاری تحریکوں کے ممکنہ جرمن اور دیگر ممالک کےروابط کا جائزہ لینا تھا۔رولٹ کمیٹی نے بہت تفصیل سے حضرت شیخ الہندؒ کی تحریک پر روشنی ڈالی ہے۔اگرچہ انگریز اس تحریک کے تمام گوشوں سے واقف تو نہ ہوسکے لیکن جیسے جیسے ان کو معلومات ملتی گئیں ویسے ویسے ان کے پائوں لرزتے گئے۔رپورٹ تو بہت طویل ہے لیکن حضرت سندھیؒ کے کردار کے حوالے سے اس میں لکھا ہے کہ،" عبیداللہ تجویزیں تیار کرنے میں بہت عجیب و غریب اور غیر معمولی آدمی تھا۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ کسی بڑی سلطنت کا حکمران ہے۔کابل میں عارضی حکومت کا ایک اہم رکن تھا۔" کمیٹی کی تجاویز پر رولٹ ایکٹ(جسے کالا قانون کہا گیا)  18مارچ1919ء کو منظور ہوا جو 1915ء والے ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ کی وسیع تر شکل تھی۔ اس سے ہندوستانی شہری آزادیاں مزید محدود ہو گئیں۔ ظلم و جبر کو قانونی حیثیت دی گئی۔ لوٹ مار اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا گیا۔ آزادی رائے اور اجتماعات پر پابندی لگا دی گئی۔

    خود امام انقلاب مولانا عبید اللہ سندھیؒ فرماتے ہیں کہ،" برطانیہ جانتا تھا کہ ماوراء الہند کے آزاد علاقوں میں پرانی(جماعت مجاہدین) اور نئی(قبائلی حریت پسندوں) کے متعدد مراکز سے ہمارا  گہرا تعلق ہے۔اور امیر افغانستان کی کارروائی اس پر کوئی اثر نہیں ڈال سکتی۔اس لئے وہ رولٹ ایکٹ نافذ کرنے پر مجبور ہوا"۔ رولٹ ایکٹ کے نفاذ کے بعد پورے ملک میں انگریز سامراج کے خلاف ایجیٹیشن شروع ہوئی۔ 30 مارچ کو متعدد مقامات پر اس ایکٹ کے خلاف ہڑتالیں ہوئیں۔خاص طور پرامرت سر میں تحریک شیخ الہندؒ کے ایک اہم رکن ڈاکٹر سیف الدین کچلو جن کا تعلق امرت سر سے تھا35ہزار افراد کے مجمع سے خطاب کیا اور اس کالے قانون کے خلاف پر امن جدوجہد کی تاکید کی۔ 6اپریل سے شہر شہر مظاہرے ہونے لگے۔دہلی،بمبئی،الہ آباد، احمد آباد، امرت سر، لاہور، گوجرانوالا، قصور اور بے شمار مقامات پر عوام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔اکثر مقامات پر گولیاں چلیں اور کافی جانی نقصان ہوا۔اس مزاحمت کے ساتھ ساتھ تحریک شیخ الہندؒ سے وابستہ علماءکرام اور دیگر نے ترک موالات کا فتویٰ دیا۔12 اپریل کو گوجرانوالا اور قصور میں زبردست ہنگامہ ہوا۔کافی خون خرابہ ہوا۔ڈاکٹر کچلو کو دیگر کے ہمراہ نظربند کرلیا گیا۔شام کو امرتسر میں ہڑتل کے رہنماؤں نے ہندو کالج میں اجلاس کیا۔ اجلاس میں ہنس راج جو ڈاکٹر کچلو کے مشیر تھے، نے اگلے روز ساڑھے چار بجے شام کو جلیاں والا باغ میں عوامی مظاہرے کا اعلان کیا اور اس کے انتظام کی ذمہ داری ڈاکٹر محمد بشیر کو سونپی گئی اور اس کی صدارت کانگریس کے بزرگ رہنما  کنہیا لال  کے ذمے لگائی گئی۔ رولٹ ایکٹ کے خلاف ، حالیہ برطانوی اقدامات اور ڈاکٹر ستیہ پال اور ڈاکٹر کچلو کی آزادی کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ اس کے بعد یہ اجلاس ختم ہو گیا۔

     پھر ایک دن کی تاخیر سے وہ دن آگیا جس کو گزرے آج پورے 100 سال بیت چکے ہیں۔یعنی13اپریل 1919ء بروز اتوار۔ آس پاس کے شہروں اور گاؤں سے لوگ 13 اپریل کو یوم بیساکھی کی تقریبات اور اس ایکٹ کے خلاف احتجاج کے لیے امرتسر میں جمع ہوئے جس کے بعد ناقابل تصور اور دلخراش واقعہ پیش آیا۔ 15٬000 افراد جلیاں والا باغ میں جمع تھے۔ جنرل ڈائر  90  فوجی لے کر باغ پہنچا۔ ان میں سے 50 کے پاس رائفلیں اور 40 کے پاس لمبے گورکھا چاقو تھے۔ اس کے علاوہ مشین گن سے لیس دو بکتربند گاڑیاں بھی ساتھ آئی تھیں مگر ان گاڑیوں کو باہر ہی چھوڑ دیا گیا کہ باغ کے راستے بہت تنگ تھے اور گاڑیاں اندر نہیں جا سکتی تھیں۔

    ڈائر نے مجمع کو کوئی تنبیہ نہیں دی اور نہ ہی انہیں اجلاس ختم کرنے کا کہا اور اس نے اہم داخلی راستے بند کر دیے۔ بعد میں اس نے بتایا، میرا مقصد مجمع ختم کرنا نہیں بلکہ ہندوستانیوں کو سزا دینا تھا۔ ڈائر نے فوجیوں کو حکم دیا کہ مجمع میں ان حصوں پر گولی چلائی جائے جہاں سب سے زیادہ افراد جمع ہوں۔ فائرنگ تب روکی گئی جب گولیاں تقریباً ختم ہو چکی تھیں اور اندازاً 1650 کارتوس چلے۔ہلاک ہونے والوں میں بچے، بوڑھے،خواتین، جوان سب شامل تھے۔10منٹ تک گولیاں چلتی رہیں۔ اندھادندھ فائرنگ کے نتیجے میں تڑپتی ہوئی لاشیں،شدید زخموں کی وجہ سے پھڑکتے ہوئے جسم، بہتا ہوا خون اور بلکتے ہوئے بچے سفاک صفت ڈائر کے سامنے تھے۔لیکن ظالم ڈائر کے بقول" اگر اور گولیاں ہوتیں تو میں وہ بھی چلوادیتا۔داخلی راستہ تنگ ہونے کی وجہ سےآرمڈ گاڑیاں اندر نہیں جاسکیں ورنہ ان کی مشین گنوں کے ذریعے بھی ایسا ہی کیا جاتا اور ہلاکتوں کی تعداد بڑھ جاتی۔" جنرل ڈائر کا کہنا تھا کہ اگر اس کو موقع دیا جائے توپورے پنجاب میں اسی طرح کی کارروائیاں کی جائیں۔ کانگریس کمیٹی نے زخمیوں کی تعداد 1٬500 سے زیادہ اور ہلاکتوں کی تعداد کا اندازا 1٬000 لگایا۔

    آج جلیاں والا باغ کے کرب انگیز واقعے کو گزرے پورے100 سال ہوچکے ہیں لیکن جو سیاہ کلنک کا ٹیکا برطانوی سامراج کے ماتھے پر لگ چکا ہے وہ آج بھی قائم ہے۔ وزیر اعظم برطانیہ تھریسامے نے ماضی میں ہندوستان کے شہر امرتسر میں ہوئے جلیان والا باغ قتل عام کو برطانوی ہند کی تاریخ پر ایک ’’ شرمناک؍بدنما داغ‘‘ قراردیا۔ اُنہوں نے مذکورہ المناک واقعہ کے 100سال کی تکمیل پر مذکورہ ریمارکس دئے ہیں۔ اگرچہ ملکہ الزبتھ دوم نے اپنے 1961ء اور 1983ء کے دوروں میں اس قتلِ عام پر کوئی تبصرہ نہیں کیا مگر 13 اکتوبر، 1997ء کے سرکاری عشائیے میں انہوں نے یہ کہا:"بے شک ہمارے ماضی میں کئی مشکل دور آئے ہیں جن میں جلیاں والا باغ انتہائی تکلیف دہ مثال شامل ہے۔" فروری 2013ء کو ڈیوڈ کیمرون پہلے برطانوی وزیرِ اعظم تھے جنہوں نے اس جگہ کا دورہ کیا اور پھول چڑھائے اور امرتسر قتلِ عام کو برطانوی تاریخ کا انتہائی شرمناک واقعہ قرار دیا۔ تاہم کیمرون نے سرکاری طور پر معافی نہیں مانگی۔

    آج مذکورہ بالا واقعہ کو یاد کرکے تجدید عہد کا دن بھی ہے کہ ولی اللہی جماعت نے جو شعور و آگہی قوم کو دی ہے اس پر کاربند رہ کر ظالم قوتوں کے خلاف ہر لحظہ مزاحمتی فکر کو اختیار کئے رکھیں۔
    Share via Whatsapp