برصغیر میں 1857ء کی جنگ آزادی؛ فوجی بغاوت یا قومی تحریک
1757 سے جابرانہ برطانوی تسلط کے خلاف برصغیر کی غیور عوام اس بیرونی طاقت کے خلاف ہمیشہ برسر پیکار رہی۔ 1857 کی جنگ آزادی اس کاوش کا ہی ایک شاخسانہ ہے۔

برصغیر میں 1857ء کی جنگ آزادی؛ فوجی بغاوت یا قومی تحریک
تحریر: رانا رفاقت علی۔ بہاولپور
1857 کی تحریک کے حقیقی اسباب جاننے کے لیے ایک صدی پہلے کے دور کا تجزیہ کرنا ضروری ہے۔ 23 جون 1757ء کو ایک بیرونی طاقت ایسٹ انڈیا کمپنی کی شکل میں جنگ پلاسی میں فتح کے بعد بنگال پرقابض ہوتی ہے۔
جنگ پلاسی 1757ء سے تحریک آزادی 1857ءکے سو سال
1757ء میں اس قبضہ کے بعد بنگال میں محصولات کا ایک ایسا گورکھ دھندا شروع ہوا کہ یہاں کے مقامی لوگ محکومی،غربت، افلاس اور تنگ دستی کا شکار ہوگئے۔ Wealth of Nations کے مصنف ایڈم سمتھ اس کمپنی کی حکمرانی کے حوالے سے لکھتے ہیں :"مخصوص سوداگروں کی ایک ٹولی کی حکومت شاید دنیا میں حکمرانی کی بدترین مثال ہے۔۔۔"
برصغیر کے غیور عوام1757ء میں پلاسی کی شکست ابھی تک فراموش نہ کر پائے تھے اور ہر سال پلاسی کے میدان میں جمع ہوکر شہیدوں کو خراجِ عقیدت پیش کرتے تھے۔ 1857ء میں جنگ پلاسی کی صد سالہ یادگار کی تقریب ہوئی، جس میں اسی ہزار سے زائد لوگوں نے شرکت کی۔ عوام میں اس فرنگی حکومت کے خلاف ایک غم وغصہ موجود تھا،جس کے بارے میں ایک امریکی مصنف ایڈورڈ تھامپسن اپنی کتاب The Other Side of the Medal میں لکھتے ہیں: "ہندستانی قوم کی دیوانگی ایسی بعید از قیاس نہیں جو سمجھ میں نہ آسکے، کیوں کہ سو سال تک مصائب اور تکلیفیں اُٹھاتے اُٹھاتے اس کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا اور وہ اپنے جذبات پر قابو نہ پا سکی"۔
غیرملکی کمپنی کے نمائندے اور رعایا کے ایک صدی پہ محیط جابرانہ، ظالمانہ اور طبقاتی رویے کی وَجہ سے یہی محکوم قوم اس ظلم و جور سے نجات حاصل کرنا چاہتی تھی۔ ایک خاموش لاوہ تھا جو عوام میں اُبل رہا تھا۔ انگریز حکومت کے خلاف ایک نفرت تھی جو دن بدن بڑھ رہی تھی۔ آزادی کی چنگاری اندر ہی اندر سُلگ رہی تھی۔
فوجی بغاوت یا جنگ آزادی
1857ء کی تحریک کو مستشرقین کی طرف سےچربی والے کارتوس استعمال کرنے کے خلاف ایک فوجی بغاوت یا غدر تصور کیا جاتا ہے،جب کہ برصغیر میں اسے جنگ آزادی سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس تحریر میں تاریخی حقائق کے تناظر میں یہ سوال زیربحث رہے گا کہ یہ صرف ایک فوجی بغاوت تھی یا انگریزی تسلط کے خلاف ایک عوامی/قومی تحریک۔
جنگ آزادی کی خفیہ منصوبہ بندی
1857ء کے پہلے تین مہینوں میں برصغیر کے شمال مغربی اور وسطی صوبوں میں پراسرار چپاتیاں تقسیم کی گئیں۔ یہ ہندوستان کے غریب اور اَن پڑھ عوام کو خبردار کرنے کا ایک طریقہ تھا کہ وہ جنگ آزادی کے لیے تیار ہوجائیں۔ Sir Theophilus John Metcalfe کمشنر دہلی اس کا اعتراف کرتا ہے:"اغلب گمان یہ ہے کہ وہ مشترکہ اعلان تھا جو ہندو، مسلمان سازش کنندگان کا مشترکہ نتیجہ تھا"۔
مختلف علاقوں کے انقلابی راہ نماؤں کی خفیہ میٹنگ میں جنگ آزادی کے آغاز کی تاریخ 31 مئی رکھی گئی۔ مسڑ ولسن جسے بعد میں اس واقعہ کی تحقیقات پر مقرر کیا گیا تھا، نے بھی اس تاریخ کی تصدیق کی۔
چربی والے کارتوس اور منگل پانڈے
کلکتہ کے قریب ایک علاقہ بیرک پور میں فوجی چھاؤنی تھی، جہاں چربی والے کارتوس کی خبر سب سے پہلے پہنچی۔ یہاں سے ایک 30 سالہ نوجوان منگل پانڈے کو جب اس بات کا علم ہوا کہ کارتوس میں گائے اور سور کی چربی استعمال ہوتی ہے تو اس نے 29 مارچ 1857ء کو برطانوی فوج کے افسران پر حملہ کردیا، جس سے ایک انگریز لیفٹیننٹ ہنری لارنس زخمی ہوئے۔ منگل پانڈے کو گرفتار کر کے مقدمہ چلایا گیا اور 8 اپریل 1857ء کو پھانسی کی سزا دی گئی۔
میرٹھ میں قبل از وقت بغاوت
9 مئی 1857ء میں میرٹھ میں 85 سپاہیوں نے چربی والے کارتوس کا استعمال کرنے سے انکار کر دیا۔ جنھیں 10 سال قید کی سزا سنائی گئی ۔ اگلے دن 10 مئی کو شام کے وقت میرٹھ کی چھاؤنی میں مقامی سپاہیوں نے بغاوت کردی۔ برطانوی سپاہیوں پر حملہ کر دیا اور جیل توڑ کر اپنے ساتھیوں کو آزاد کرا لیا۔ اس کے بعد یہ سپاہی تقریباً 45 میل کے فاصلے پر موجود دہلی دربار کی طرف چل پڑے۔
دہلی جنگ آزادی کا مرکز
11 مئی 1857ء کو یہ سپاہی مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر سے ملے اور دہلی کو اس تحریک کا مرکز بنایا۔ اس دوران 50 کے قریب برطانوی سپاہی اور شہری قتل ہوئے۔ انگریز جب دہلی سے بھاگے تو اس بغاوت کی اطلاع بذریعہ تار انبالہ دے دی، جہاں سے مزید آگے پھیل گئی اور انگریز محتاط ہو گئے۔ جنگ آزادی کا آغاز 31 مئی کو ہونا تھا، لیکن ان سپاہیوں کی جلد بازی سے 20 دن قبل کرنا پڑا۔
انگریز کی فوج جو دہلی سے بھاگ چکی تھی، جون کے شروع تک پنجاب اور دوسرے علاقوں کی فوجوں کو ساتھ شامل کر کے دہلی پہنچی اور باغیوں سے جنگ شروع ہوئی۔ دھول پور، بیکانیر، راجہ نالی گڑھ ، راجہ جموں نے انگریزوں کی مدد، الہی بخش اور رجب علی جیسے غداروں اور ہتھیاروں کی کمی کے باوجود ان باغیوں نے 14 ستمبر تک انگریز فوج کو دہلی پر قبضہ نہ کرنےدیا۔
ہندو مسلم اتحاد
اس جنگ آزادی میں بلاتفریق مذہب ، نسل ، علاقہ مقامی حکمرانوں، راجاؤں، قبائلی سرداروں، مذہبی راہ نماؤں اور عام شہریوں نے انگریزی حکومت سے آزادی کے لیے قربانیا ں دیں۔1857ء کی بغاوت میں ہندؤوں اور مسلمانوں کے درمیان بے مثال اتحاد دیکھنے کو ملا۔ بالخصوص دہلی میں، جہاں دونوں کمیونیٹیز نے مل کر بہادر شاہ ظفر کو اپنا بادشاہ تسلیم کیا (ولیم ڈیل رمپل، دی لاسٹ مغل)ایک انگریز ایچی سن اس طرح مایوسی کا اظہار کرتا ہے کہ "اس موقع پر ہم مسلمانوں کو ہندؤوں کے خلاف کھڑا نہ کر سکے"۔
برصغیر کے مختلف علاقوں میں جنگ آزادی کی قیادت
برصغیر کے مختلف علاقوں میں جنگ آزادی کے کئی مراکز تھے، جیسا کہ کانپور جس کی قیادت مرہٹہ حکومت کے پیشوا نانا صاحب نے سنبھالی، لکھنو میں نواب واجد علی شاہ کی اہلیہ بیگم حضرت محل، آگرے میں شہزادہ فیروز شاہ، فیض آباد میں مولانا احمد اللہ شاہ، بریلی میں بہادر خان بہادر روحیلہ، بہار میں ستر سالہ بزرگ رانا کنور سنگھ، جھانسی میں لکشمی بائی قیادت و مزاحمت کے استعارے بن گئے۔
اگر کہیں مقامی راجاؤں نے انگریز کا ساتھ بھی دیا،تو وہاں کی عوام ان راجاؤں کے خلاف ہوگئی۔ جیسا کہ حیدرآباد کے راجہ افضل الدولہ اور اس کا وزیر سالار جنگ انگریز کا ساتھ دے رہے تھے۔ جون 1857ء میں حیدرآباد میں مشہور علما کے دستخطوں سے جنگ آزادی میں شرکت کے حوالے سے فتاویٰ، اعلانات اور اشتہارات شائع ہوئے۔ اس کے بعد دہلی دروازے حیدرآباد سے پانچ ہزار لوگوں کا مجمع اکٹھا ہوا۔
برصغیر کے عوام کی تحریک آزادی میں شمولیت
اس تحریک نےنہ صرف لکھنو، کانپور، جھانسی، بریلی اور بہار تک کو اپنی لپیٹ میں لیا، بلکہ آزادی کی یہ چنگاری پورے برصغیر میں سلگ چکی تھی۔ ان علاقوں میں انگریزی فوج کے مقامی باشندوں کے علاوہ مقامی آبادی نے بھی اپنے تئیں کردار ادا کیا۔ John William Kaye نےاپنی کتاب History of Sepoy War in India میں لکھا کہ" نہ صرف گنگا پار کے ضلعوں میں، بلکہ دونوں دریاؤں کے درمیانی علاقوں میں بھی دیہاتی عوام نے بغاوت کی اور تھوڑے ہی عرصے میں شاید ہی کوئی ہندو یا مسلمان ایسا بچا ہو جو ہمارے خلاف کھڑا نہ ہو گیا تھا" ۔
ہندو اور مسلم مذہبی راہ نماؤں کا کردار
عام عوام، مقامی راجاؤں کے علاوہ ہندو پنڈت اور مسلم مذہبی راہ نما بھی اس جنگ آزادی میں اپنا کردار ادا کررہے تھے۔دکن کے برہمنوں نے کالپی سے جنگ آزادی میں شرکت پر زور دیا۔ شاہ عبدالقادر دہلویؒ اور شاہ عبد العزیز دہلویؒ کے تربیت یافتہ شاگردوں نے دہلی، رامپور، سہارنپور، بنارس اور لکھنو میں نہ صرف انگریزوں کے خلاف جہاد کے فتاوی دیے، بلکہ شاملی کے میدان میں امداد اللہ مہاجر مکی کی سرپرستی میں عملی طور پر شریک رہے، جیسا کہ Christopher Hibbert اپنی کتاب The Great Mutiny میں لکھتے ہیں کہ باغی سپاہیوں کے علاوہ، بہت سے علاقائی راجاؤں اور مذہبی راہ نماؤں نے بھی اس بغاوت کی حمایت کی اور ان کی شمولیت نے حقیقتاً اسے ایک قومی تحریک بنا دیا۔
1858ء کے آخر تک جب تقریباً پورے برصغیر پر انگریزی تسلط دوبارہ قائم ہوگیا اور ملکہ وکٹوریہ کی طرف سے عام معافی کے اعلان کے باوجود کئی انقلابی راہ نما ، شہزادہ فیروز، خان بہادر، بیگم حضرت محل، نانا صاحب وغیرہ 1859ء کے آغاز تک انگریز کے خلاف کارروائی جاری رکھے ہوئے تھے۔
الغرض! 1857ء کی تحریک آزادی میں یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ اس تحریک میں برصغیر کی اکثریت بالخصوص وسط ہند نے اپنے تمام اختلافات پس پشت ڈال کر ایک غیرقوم سے آزادی حاصل کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کیا۔ انگریز کی پر تشدد طرزِحکمرانی کے باوجود برصغیرکی عوام نے اپنا مذہبی اور قومی فریضہ سمجھ کر کردار ادا کیا اور اس مزاحمتی سوچ کو اگلی نسل تک منتقل کیا، یہی مزاحمتی نظریہ 90 سال بعد انگریز کو برصغیر سے نکالنے کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔