جدید ہسپتال کی اسلامی بنیادیں (حصہ اول) - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • جدید ہسپتال کی اسلامی بنیادیں (حصہ اول)

    جدید ہسپتال کی بنیادیں مسلمانوں کے دور عروج میں رکھی گئیں جہاں بلا تفریق رنگ، نسل، مذہب تمام انسانوں کو صحت کی معیاری سہولیات بلا معاوضہ میسر تھیں

    By سہیل مجاھد Published on May 17, 2020 Views 4806

    جدید  ہسپتال کی اسلامی بنیادیں (حصہ اول)

    ترجمہ:  سہیل مجاہد. فیصل آباد

     

    نوٹ درج ذیل مضمون، ڈیوڈ شینز (David W. Tschanz) کی تحریر (The Islamic Roots of the Modern Hospital) کا اردو ترجمہ ہے۔ ڈیوڈ شینز عسکری و طبی تاریخ کے موضوعات پر لکھتے ہیں۔ 

    صحت اور طب کے بارے میں مغرب کے جدید نقطہ نظر اور ترقیات  پر ماضی  کی مختلف تہذیبوں کے بے شمار قرض واجب الادا ہیں۔  اس ضمن میں بابل، مصر، یونان، روم اور ہندوستان قابلِ ذکر ہیں۔ ہسپتال ایک ایسی طبی اور معاشرتی ایجاد ہے جس پر ہم شاذ و نادر ہی غورکرتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ ہمیں کونسااس کی ضرورت ہوگی، لیکن جب ضرورت پڑتی ہے پھر ہمیں اسکی اہمیت  بخوبی سمجھ میں آنے لگتی ہے۔ بطورِ انسان ہمارا تعلق چاہے کسی بھی خطے سے ہو، ہم یہی توقع کرتے ہیں کہ  ہسپتال ایک ایسی جگہ ہو جہاں ہم دردوتکلیف سے نجات پائیں اور بیماری یا حادثات کے وقت علاج کے لئے مدد حاصل کرسکیں۔

    قرون وسطی کے اسلامی معاشروں میں صحت کی دیکھ بھال کے منظم نظام نے ہسپتالوں سے متعلق ہمارے (مغرب کے) موجودہ سائنسی اور معاشرتی طرز فکرکی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ بے شمارخلفاء، سلاطین، اہلِ علم اور طبی معالجین نے متنوع روایات سے قدیم علم اور ثقافتی طریقوں کو اپنایا اور ان میں اپنی مستند تحقیق شامل کر کے آنیوالی صدیوں کے علمی خزانے اور تحقیق کی بہتری کے لیے کردار ادا کیا۔مسلم دنیا کا بیمارستان (بیمار افراد کی پناہ گاہ) نہ صرف جدید  ہسپتال کا حقیقی پیش خیمہ تھا بلکہ جدید ملٹی سروس ہیلتھ کیئر اور میڈیکل ایجوکیشن سنٹر سے عملی طور پر مختلف بھی نہیں تھا۔بیمارستان نے بیماری یا حادثے سے صحت یاب ہونے والے افراد کے لیے ایک سرائے،ایک نفسیاتی پناہ گاہ اور ایک ریٹائرمنٹ ہوم کے طور پر مختلف خدمات انجام دیں جوایسے عمر رسیدہ اور (ذہنی و جسمانی) معذورافراد کو بنیادی دیکھ بھال بھی فراہم کرتے تھے جو خاندان کی طرف سے دیکھ بھال سے محروم تھے۔

    بیمار کی  پناہ گاہ

    بیمارستان کو ترقی دینے میں قرونِ وسطی کی اسلامی معاشروں میں  طب کے میدان میں جاری فکری اور عملی جدوجہدنے اہم کردار ادا کیا ۔دور ِحاضر کے جدیدمیڈیکل اسکولز کی طرح وہاں بھی   ہسپتالوں سے منسلک لائبریریاں موجودتھیں۔ سینئر معالجین طلبہ کو اپنے سیکھے ہوئےعلم کی روشنی میں  براہ ِراست مریضوں کے علاج میں  راہنمائی دے کران کی عملی صلاحیتوں میں اضافہ کرتے۔  ہسپتالوں میں طلبہ کے  امتحانات لیے جاتے جس کے بعد ان کو ڈگریاں جاری کی جاتیں۔ادارہ جاتی سطح پر قا‏ئم بیمارستان صحت کے فروغ، بیماریوں کے علاج اور طبی علم کی توسیع اور پھیلاؤ کے لیے وقف تھے۔نورالدین بیمارستان (یا نوری ہسپتال)  دمشق کا ایک  ہسپتال اور میڈیکل اسکول تھا جو بارہویں صدی میں قائم ہوا تھا اور  آج عرب دنیا میں میڈیسن اینڈ سائنس کے میوزیم کے طورپرموجود ہے۔

    ابتدائی ہسپتال

    اگرچہ بیمار افراد کے لئےقدیم زمانے سے مراکز موجود تھے لیکن ان میں سے بیشتر سادہ اور بنیادی ضروریات و نگہداشت کے ڈھانچے سے محروم تھے ۔ ان سہولیات میں بہتری کا سلسلہ یونانی عہد (323 تا331 قبل مسیح) میں جاری رہا لیکن یہ سہولیات بیمار افراد کو محض ایک مخصوص جگہ تک محدود رکھنے سے زیادہ نہ تھیں۔ابتدائی قرونِ وسطیٰ کے یورپ میں غالب فلسفیانہ عقیدہ یہ تھا کہ بیماری کی اصل وجوہات مافوق الفطرت ہیں اور اس لئے  انسانی مداخلت سے ماوراہیں، جس کے نتیجے میں  ہسپتال ایسی جگہ بن گئے  تھے جہاں مریضوں کو راہبوں کے حوالے کر دیا جاتا تھا جو جسمانی علاج کرنے کے بجائے روحانی علاج کے ذریعے مریضوں کی نجات کی کوشش کرتے۔ (اس کے برعکس) مسلم معالجین نے بالکل مختلف انداز اختیار کیا۔اپنے پیغمبرحضرت محمدﷺکے اقوال (احادیث)، مثلاً امام بخاری کی روایات ”خدا کبھی کوئی بیماری نہیں بھیجتا جب تک اس کا علاج نہیں پیدا کرتا“اور ”بیماری اور شفا دونوں خدا کی طرف سے ہیں“ اور ابودردا کی روایت کہ ”خدا نے ہر ایک بیماری کا علاج مقرر کیا ہے لہذا اپنا طبی علاج کرو“ سے رہنمائی لیتے ہوئے مسلم معالجین نے عقلی اور تجرباتی ذرائع سے صحت کی بحالی کو اپنا مقصد بنا لیا۔

    مسلمانوں کے ہسپتالوں کی ساخت اور نقشے دیگر تہذیبوں کے مقابلے میں ان کی حکمت عملی کا فرق واضح کرتے ہیں۔مغرب میں  ہسپتالوں میں بیماروں کے بستر ایسی جگہوں پہ بچھائے جاتے جہاں سے مریض روزانہ کی بنیاد پر مذہبی  سرگرمیوں کو دیکھ سکیں۔ان ہسپتالوں میں تھوڑی بہت آرائش ہوتی تھا، اکثر خستہ حال ہوتے تھے اور اکثر آب و ہوا اور فنِ تعمیر دونوں معیارات کے حوالے سے ناقص ہوتے تھے۔دوسری طرف مسلم شہروں میں، جنہیں گرم آب و ہوا کابھی فائدہ تھا،  ہسپتالوں میں روشنی اور ہوا کی آمدورفت کے انتظامات کیے گئے تھے۔اس ماحول نے ہیومرازم  Humorism  کے مطابق علاج کی تائید کی جو طب کا ایک ایسا نظام ہے جو روحانی توازن کے بجائے جسمانی  امور سے تعلق رکھتا ہے۔ ہیومرازم Humorism ایسا طبی نظریہ ہے جس کے مطابق انسانی جسم چار بنیادی   سیال مادوں (Fluids)سے بنا ہے، جن کے درمیان توازن کسی انسان کی بیماری یا تندرستی کا تعین کرتا ہے۔

    حرکت پذیر ڈسپنسریاں   (Mobile Dispensaries)

    اسلامی تاریخ کاسب سے پہلا اور مشہور طبی نگہداشت کا مرکز حضرت محمدﷺؐ کی زندگی میں ہی رفيدة الأسلمية  (مدینہ کے قبیلہ خزرج سے تعلق رکھنے والی پہلی مسلمان خاتون سماجی کارکن، نرس اور سرجن جنہوں نےحضرت عائشہ سمیت کئی افراد کو طب کی تعلیم دی)نے ایک خیمے میں قائم کیا تھا۔غزوہ خندق کے دوران انہوں نے زخمیوں کاایک الگ خیمے میں علاج کیاجو اسی مقصد کے لئے مخصوص کیا گیا تھا۔بعد میں حکمرانوں نے ایسے خیموں کو حرکت پذیر  ڈسپنسریوں میں تبدیل کیا جو دوائیوں، کھانا، مشروبات، کپڑے، ڈاکٹرز اور فارماسسٹ سے مکمل لیس ہوتی تھیں۔ان کا مقصد بیرونی علاقوں کی طبی ضروریات کو پورا کرنا تھا جو بڑے شہروں اور مستقل طبی مراکز سے دور تھے۔ان ڈسپنسریوں نےخود حکمرانوں کو بھی مختلف اسفاراور مہمات میں طبی سہولیات فراہم  کیں۔بارہویں صدی کے ابتدائی دور میں سلجوق سلطان محمد سلجوقی کے عہد تک موبائل  ہسپتال اتنا وسیع ہوچکا تھا کہ اس کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی اور حرکت پذیری  کےلیے40 اونٹوں کی ضرورت ہوتی تھی۔

    مستقل  ہسپتال

    مسلم معاشروں میں پہلا باقاعدہ اور مستقل  ہسپتال آٹھویں صدی کے اوائل میں اموی خلیفہ ولیدبن عبد الملک کے دورمیں دمشق میں تعمیر ہوا  جوصرف کوڑھیوں کے لئے ایک پناہ گاہ کے طور پر بنایا گیا  تھا۔اس  میں تعینات معالجین کو بڑی بڑی جائیدادوں اور شاہانہ تنخواہوں کی شکل میں معاوضہ دیا جاتا تھا۔مریضوں کو ایک جگہ محدود کر دیا جاتا (چونکہ جذام ایک متعدی بیماری تھی) مگر نابینا افراد کی طرح انہیں بھی وظیفہ دیا جاتا جس سے ان کے اہل خانہ کی دیکھ بھال میں مدد ملتی۔

    پہلا جنرل ہسپتال تقریبا ایک صدی بعد805ء کے  بغداد میں خلیفہ ہارون الرشید کے وزیر نے بنوایا تھا۔اسکی کچھ تفصیلات دستیاب ہیں کہ بختیشو  (شامی و ایرانی اطباء یعنی ڈاکٹرز کا ایک خاندان جن کی خدمات ساتویں، آٹھویں اور نویں صدی تک رہیں)  کنبے کے ممبران جو جندیشاپور (ایران) میں فارسی میڈیکل اکیڈمی کے سابق سربراہان بھی تھے، انہوں نے درباری معالجین کی حیثیت سے  ہسپتالوں کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ اگلی چند دہائیوں میں اسلامی دنیا میں مزید 34  ہسپتالوں کااضافہ ہوااور یہ تعداد ہر سال بڑھتی گئی۔قیروان (موجودہ تیونس)  میں نویں صدی میں ایک  ہسپتال تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ مکہ اور مدینہ میں بھی ہسپتال قائم کئے گئے۔ ایران میں کئی  ہسپتال تھے جن میں سے ایک شہر ری  (موجودہ تہران)  میں تھا جوبغداد کے پڑھے لکھے اور مقامی فرزند  محمد ابن زکریا الرازی کی سربراہی میں قائم کیا گیا تھا۔

    دسویں صدی عیسوی کے دوران بغداد میں پانچ مزید ہسپتال بنائے گئےجن میں سےپہلا نویں صدی کے آخر میں المعتضد بالله (عباسی خلیفہ) نے قائم کیا تھااوراس کی تعمیراورمعاملات کی نگرانی الرازی کے سپردکی گئی ۔ ہسپتال کی تعمیر شروع کرنےسے پہلےالرازی شہر کا سب سے زیادہ صحت افزا ءمقام معلوم کرنا چاہتا تھا۔اس نے شہرکے مختلف حصوں پہ تازہ گوشت کے ٹکڑے رکھےاور کچھ عرصے بعد یہ جانچ پڑتال کی کہ کون سا گوشت کم سے کم سڑا(خراب ہوا)اورپھر اس مقام پر ہسپتال کی بنیاد رکھی۔جب یہ  ہسپتال کھلا تو اس میں 25  ڈاکٹر کام کررہے تھے جن میں  آنکھوں کا ڈاکٹر، سرجن اور ہڈیوں کے امراض کے ماہر  شامل تھے۔ہسپتال میں ڈاکٹروں اورمختلف شعبہ جات کی تعداد مسلسل بڑھتی رہی یہاں تک کہ 1258ء  میں  منگولوں نے بغداد کو تباہ کر کے اس سلسلے کا خاتمہ کردیا۔

    دسویں صدی کے اوائل میں عباسی وزیرعلی ابن عیسی ابن جرح ابن ثابت نے بغداد کے چیف میڈیکل آفیسر کوجیلوں میں موجود قیدیوں کی صحت سے متعلق اپنی فکر مندی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا:

      ” میں قیدیوں کے بارے میں بہت پریشان ہوں۔جیلوں کی حالت ذار اور قیدیوں کی بڑی تعداد دیکھتے ہوئے مجھے یقین ہے کہ ان میں بہت سے بیمار افراد موجود ہوں گے۔ لہٰذا میں اس رائے کا حامل ہوں کہ ان (جیلوں) کے پاس اپنے ڈاکٹر ہوں جو ہر روز قیدیوں کی جانچ کریں اور جہاں ضروری ہو ان قیدیوں کو دوائیں اور کاڑھی(جڑی بوٹیوں سے تیار شدہ سیرپ) دی جائیں۔ان ڈاکٹروں کو تمام جیلوں کا دورہ کرنا چاہئے اور وہاں کے بیمار قیدیوں کا علاج کرنا چاہئے۔“

    اس واقعہ کے فورا ًبعد ہی مجرموں کے لئے ایک علیحدہ  ہسپتال بنایا گیاجسے مکمل عملہ اورضروری طبی سامان فراہم کیا گیا۔

    مصر میں پہلا  ہسپتال 872ء میں فسطاط (موجودہ قاہرہ) کے جنوب مغربی حصے میں مصر کے عباسی گورنر احمد ابن طولون نے تعمیر کروایا۔اب تک دستیاب دستاویزات کے مطابق یہ پہلا  ہسپتال ہے جہاں  عام بیماریوں کے ساتھ ساتھ ذہنی بیماریوں کا بھی علاج کیا جاتا تھا۔بارہویں صدی عیسوی میں سلطان صلاح الدین نے قاہرہ میں ناصری  ہسپتال قائم کیا جو کہ اپنے زمانے کا بہترین ہسپتال تھا۔ہسپتال کی تکمیل 1284ء میں ہوئی  اور یہ پندرہویں صدی عیسوی تک قاہرہ میں ایک بنیادی طبی مرکز رہا ۔ آج اس کا نام قلاوون  ہسپتال رکھاگیا ہے اور یہ امراض چشم کے (علاج کے) لئے مخصوص ہے۔   اپنے معیار اور وسعت کے لحاظ سے اس درجے کا دوسرا بڑا ہسپتال منصوری ہسپتال کے نام سے مشہور ہے۔  

    دمشق میں نوری  ہسپتال، بارھویں صدی کے وسط میں اپنی تعمیر کے وقت سے لے کر پندرھویں صدی تک معیار اور سہولیات کے حوالے سے سب سے آگے تھا۔اس دوران دمشق میں میں پانچ دیگر  ہسپتال بھی موجود تھے۔ آئبیریائی جزیرہ قرطبہ(موجودہ سپین) میں  پچاس سے زائد ہسپتال موجود تھے۔ کچھ خصوصی طور پر فوج کے لئے تھے اور وہاں ڈاکٹرزاورطبی ماہرین خلفاء، فوجی کمانڈروں اور شرفاء کے علاج کیلئے موجودہوتے۔

     ہسپتال کی تنظیم  (Organization of Hospital)

    جس انداز میں آج جدید ہسپتال بنے ہوئے ہیں، روائیتی اسلامی  ہسپتال کو بھی ایسے ہی مختلف شعبہ جات، مثلاً پورے جسم کو متاثر کرنیوالی امراض (Systemic Diseases)، سرجری، امراض چشم (Ophthalmology)، ہڈیوں کے امراض (Orthopedics ) اور ذہنی امراض میں تقسیم کیا گیاتھا۔

    Systemic Diseases کا شعبہ  دورِ حاضر کے Internal Medicine کے شعبے جیسا تھاجسے مزیدذیلی حصوں میں تقسیم کیا گیاتھا جن میں بخار، ہاضمہ کی تکلیف، انفیکشن اور دوسری کئی امراض شامل  تھے۔ بڑے  ہسپتالوں میں  مختلف ڈیپارٹمنٹ  اور متنوع ذیلی شعبے موجود ہوتے تھےاور ہر شعبے میں ایک نگران ماہر کے علاوہ ایک انچارج آفیسر اور ایک اعلی سربراہ بھی ہوتا تھا۔

     ہسپتالوں میں ایک سینیٹری انسپکٹر بھی موجودہوتا تھا جو صفائی ستھرائی اور حفظانِ صحت کے طریقوں کو یقینی بنانے کا ذمہ دار ہوتا۔ اس کے علاوہ محاسب یا اکاؤنٹنٹ (Accountant) اور دیگر انتظامی عملہ موجودہوتا تھا جو  ہسپتال کے مالی اور دیگر معاملات کو  طے شدہ معیار کے مطابق   یقینی بناتا تھا۔ہر ہسپتال میں ایک سپرنٹنڈنٹ بھی موجود ہوتا تھا جو پورے ادارے کی انتظامیہ کی نگرانی کا ذمہ دار تھا۔

    معالجین کے کام کے اوقات مقرر ہوتے جو  اپنی ڈیوٹی کے دوران آنے والے مریضوں کا علاج کرتےتھے۔ہر ہسپتال میں لائسنس یافتہ فارماسسٹ (صیدالانی) اور نرسوں کا اپنا عملہ ہوتا تھا۔ طبی عملے کی تنخواہیں قانوناً مقرر تھیں اور  ہر ہسپتال انکو   دل کھول کر  معاوضہ  ادا  کرتا   تاکہ بہترین طبی ہنر مندوں کو راغب کیا جاسکے۔

    اسلامی  ہسپتالوں کے لئے مالی مدد وقف کے محصول سے ہوتی تھی۔مخّیر افراداور حکمران اپنی جائیدادیں تعمیر شدہ یا زیرِ تعمیر بیمارستانوں کو عطیہ کردیتے تاکہ ان  سے حاصل ہونے والی آمدنی طبی  عمارات اور  ان کی  دیکھ بھال کے لئے خرچ کی جاسکے۔اس  مقصد کے لئے  دیگر رقوم مختلف اقسام کی آمدنیوں مثلاً دکانوں، کارخانوں،(دنیا کا پہلا کاغذبنانے کا منظم کارخانہ بغداد میں ساتویں صدی کے اوائل میں قائم ہوا ، ان کارخانوں کی  تعدادآٹھویں صدی تک پچاس سے زیادہ ہوچکی تھی) کاروان سرائے  یا پھر پورے گاؤں کی مشترکہ آمدنی سے حاصل ہوتی تھیں۔

    وظیفے سے حاصل ہونے والی آمدنی میں بعض اوقات  مریض کو  ہسپتال سے برخاست ہونے پر تھوڑا سا وظیفہ بھی دیا جاتاتھا۔ سرکاری بجٹ کا ایک حصہ بھی  ہسپتالوں کی بحالی پہ خرچ ہوتا تھا۔ مریضوں کے لئے  ہسپتال کی خدمات مفت تھیں البتہ انفرادی معالجین کبھی کبھار فیس وصول کرتے ہیں۔

    *تیرھویں صدی عیسوی میں قاہرہ کے ایک ہسپتال کے حوالے سے پالیسی بیان:*

        ” ہسپتال تمام مریضوں، مردوں اور خواتین کو اس وقت تک داخل  رکھے گا جب تک وہ مکمل طور پر صحت یاب نہ ہوجائیں۔ان کے صحت یاب ہونے تک کے تمام اخراجات  ہسپتال برداشت کرے گا، چاہے وہ دور سے آئے ہوں یا قریب سے، خواہ وہ مقامی باشندے ہوں یا غیر ملکی، طاقتور ہوں یا کمزور، تعداد میں کم ہوں یا زیادہ، امیر ہوں یا غریب، ملازم ہوں یا بے روزگار، اندھے ہوں یا اشاروں سے بات کرنیوالے، جسمانی مریض ہوں یا ذہنی  اور خواندہ ہوں یا ناخواندہ۔ ہسپتال میں داخلے اور ادائیگی کی کوئی شرائط نہیں ہیں۔ عدم ادائیگی پر کسی پر بھی اعتراض یا بالواسطہ (اس شخص کی)نشاندہی کرنے کی بھی اجازت نہیں۔یہ ساری خدمات خدا کی عظمت  کا اظہار ہیں جو  بڑامہربان ہے۔“

    (پالیسی بیان، المنصور قلاوون بیمارستان، قاہرہ 1284ء)

    جاری ہے۔۔

     

    Share via Whatsapp