شخصیت پرستی کا بُت - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • شخصیت پرستی کا بُت

    سماجی تبدیلی اجتماعی جدوجہد کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے محض شخصیت پرستی کے نتیجے میں سماجی میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہو سکتی

    By Muhammad Salman Rana Published on Jan 16, 2020 Views 3925
    (شخصیت پرستی کا بُت)
    تحریر:محمد سلمان رانا

    "فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں" 
    آپ نے ایک بہت مشہور جملہ سُنا ہو گا کہ قومیں اپنی تاریخ سے سیکھتی ہیں مگر ہم نے تاریخ میں انسانی معاشروں کے اُتارچڑھاؤ  کے حوالے سے کچھ نہیں سیکھا۔ اس میں قصور ہماری قوم کا بھی نہیں کیونکہ قوم کو درست تاریخ نہ تو پڑھائی گئی نہ ہی سُنائی گئی ہے۔
    اگر کسی خود ساختہ مُصنف یا مؤرخ نے کوئی تاریخ لکھی بھی ہےتو اس نےمحض اپنے ذاتی فکری رجحانات اور انفرادی نقطہ نظر کو ہی پیش نظر رکھا ہے۔
    انفرادی نقطہ نظر سے تاریخ کا مطالعہ کرنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ ہم نئے سماج کی تعمیر وتشکیل یا پھر عروج و زوال کا ذمہ دار فرد واحد کو تصور کرنے لگے۔یا پھر شخصی کوتاہیوں کو بنیاد بنا کر ایک  صالح اجتماعی نظام کو ہی غلط قرار دینے لگے۔
    تاریخ کےمطالعے کا یہ انداز غیر حقیقت پسندانہ اورنقصان دہ ہے۔
     اس کے برعکس اہم اصول یہ ہے کہ تاریخ کا مطالعہ اجتماعی نقطہ نظر سے کیا جائے۔ انسانی معاشرے کے عروج و زوال کے تعین میں اجتماعی سماجی حالات کو مدنظر رکھاجائے۔یہ دیکھا جائے کہ اُس معاشرے کی سیاسی، معاشی معاشرتی واخلاقی حالت کیا تھی۔
    اور پھر اِس کا کریڈٹ یا الزام  بھی کسی فرد واحد کو دینے کے بجائے ، نظام مملکت کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔
    انفرادی نقطہ نظر سے تاریخ کو لکھنے اور پڑھنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری قوم کو یہ یقین ہوگیاہے کہ دنیا میں ہر تبدیلی اتفاقی اور حادثاتی ہوتی ہے اور تاریخ میں اسلامی نظام کو ملنے والا عروج بھی اسی طرح سے  محض حسن اتفاق کا نتیجہ تھا جیسے کچھ خودساختہ مؤرخین نے اس تأثر کو عام کیا کہ اچانک سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسی شخصیت تاریخ اسلام میں پیدا ہوگئی اور انھوں نے اسلام کو عروج بخشا۔ اور پھر کچھ عرصے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز پیدا ہوئے جنہوں نے اسلامی حکومت کو مستحکم کر دیا ورنہ اسلامی فکر یوں ترقی نہ کرتاحالانکہ ایسانہیں ہے۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دنیا میں کوئی بھی چیز یا تبدیلی حادثاتی یامحض انفرادی نہیں ہوتی بلکہ سب چیزیں علت اور معلول کے ایک منظم اور مسلسل عمل کا نتیجہ  ہوتا ہے۔
     نظام کائنات میں،انسانی معاشروں کے عروج و زوال کے اصول و ضوابط اور قوانین باقاعدہ طور پر طے شدہ ہیں۔ ایک منظم اور مربوط نظام ہی   کے نتیجے میں بلند ہمت اور ذہین و فطین لوگ پیدا ہوتے ہیں۔اس لیے ان دونوں اولوالعزم شخصیات کو  بھی جماعت صحابہ کے قائم کردہ نظام خلافت و حکومت سے جدا کرکے نہیں دیکھا جا سکتا۔
    اسی طرح کسی سماج کی تعمیر و تشکیل بھی مسلسل اور مربوط عمل کے نتیجے میں ہی ممکن ہوتی ہے۔ تاریخ  انسانی سے اس کی بہترین مثال انبیا کرام کی جدو جہد ہے۔کئی انبیاء کرام علیہم السلام جن معاشروں میں آئے وہ زوال یافتہ تھے۔انبیا کرام کی کوششوں کے بعد وہ معاشرے ترقی کی راہ پہ گامزن ہوگئے۔ان معاشروں کو زوال سے نکالنے کی انبیاء کی  حکمت عملی اور جدوجہد  کا مطالعہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سب سے محبوب بندے،انبیاء کرام علیہم السلام ،اپنی قوم پر مسلط انسانیت دشمن نظام سے صلح کے بجائے اس کے خلاف اجتماعی جدوجہد کو اختیار کرتے  ہیں۔ اور نئے سماج کی تشکیل کو اپنا ہدف ٹہراتے ہیں
     چناں چہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کے ساتھ مل کر فرعون کے انسانیت دشمن نظام کے خلاف جدوجہد کی۔ حضرت یوسف علیہ السلام نےقید کے دوران ہی اجتماعی کوشش کاآغاز کیا بالآخر آپ نے مصرکو معاشی بحران اور بد نظمی سےنجات دلائی۔
    بعینہ نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مکہ کے مسلط نظام سے نجات کے لیے اجتماعی جدوجہد کے اسی اسلوب کو اختیار کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ جدوجہداجتماعی تھی محض شخصی بنیادوں پہ نہیں تھی.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نظریہ کی بنیاد پر  مضبوط جماعت پیدا  کی۔ چناں چہ اس دنیا سے آپ کے رحلت فرما جانے کے بعد  اس جماعت نے آپ کے قائم کردہ نظام کو تمام دنیا پر غالب کردیا.
    تاریخ سے ہمیں یہ بھی سبق ملتاہے کہ انسانیت دشمن اور انسانوں کو تقسیم کرنے والے قوانین کی موجودگی میں اگر کسی نہایت امانت دار، نیک، اور مخلص شخص کو حکومت دے بھی دی جائے تو اس فرد کی تمام تر صلاحیتیں زنگ آلود  اور کاوشیں رائیگاں چلی جاتی ہیں۔
    اگر محض کسی فرد واحد  کی تبدیلی سے نئے سماج کی تشکیل ممکن  ہو سکتی تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سرداران قریش کی طرف سے کی گئی اقتدار اور سرداری کی پیش کش کو قبول فرما لیتے۔بلکہ اس کے برعکس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتماعی جدوجہد کو ترجیح دیتے یوئے جماعت صحابہ رض کے تعاون سے مدینہ میں ایک ریاست قائم کی پھر اس نظام کو مکہ پر غالب کیا۔اسی اجتماعی  نظام کے تسلسل میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر بن عبدالعزیز رح جیسے لوگ سامنےآئے۔پھر اسی نظام کے نتیجے میں 1000 سال تک جہاں جہاں حکومتیں قائم ہوئیں وہاں انسانیت ، سیاسی معاشی واخلاقی غرض ھر شعبے میں کامیابی کی منازل طے کرتی رہی۔
    اس لیے کوئی بھی فرسودہ معاشرہ محض چہروں کی تبدیلی سے تبدیل نہیں ہوتا بلکہ انسانیت دوست نظریہ کی بنیاد پر بننے والی جماعت کی جدوجہد  کے نتیجے میں تبدیلی جنم لیتی ہے۔
    اس لیے حدیث میں آتا ہے کہ "جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہوتا ہے" اور اسی طرح قرآن مجید میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کی جماعت کا کئی جگہ ذکر کیا گیا ہے۔
    سورۃ فتح میں رسول اللہ کی جدوجہد کے ساتھ آپ کے ساتھیوں کا ذکر کیاگیا ہے۔
    اس لیے آج ہمارے معاشرے کے مسائل کے حل کے لیے محض کسی بھی فرد واحد کے آنے جانے سے سےکوئی خاص فرق نہیں پڑ ےگا بلکہ اس نوعیت کی فکر کے پروان چڑھنے سے زوال کی گھڑیاں طویل تر ہوتی جاتی ہیں۔ 
     آج ہماری قوم بالخصوص نوجوانوں کو یہ سوچنا ہوگا کہ ایک صالح جماعت تیارکی جائے جو سماج کی صحیح بنیادوں پر تشکیل کو یقینی بنائے۔اگر ایسا ہواتو کامیابی کی امید ہےورنہ
     یہ سب قصے کہانیاں ہیں بابا۔
    Share via Whatsapp