تاریخ کے اجتماعی نقطۂ نظر کی عصری اہمیت
تاریخ کو سمجھنے کے لیے اسکے اجتماعی نقطہ نظر کا مطالعہ ضروری ہے۔

تاریخ کے اجتماعی نقطۂ نظر کی عصری اہمیت
تحریر: فہد محمد عدیل۔ گوجرانوالہ۔
تاریخِ انسانی ایک ایسا علم ہے، جس کے مطالعے سے نہ صرف ماضی کے واقعات سے آگاہی حاصل ہوتی ہے، بلکہ مستقبل کے لیے رہنمائی بھی ممکن بنتی ہے۔ تاہم دیکھنا یہ ہے کہ کیا تاریخ صرف شخصی واقعات کو کہانیوں کی صورت میں بیان کرنے کا نام ہے؟ کیا یہ محض شہرت حاصل کرنے کی خاطر کمزور روایات پر مبنی مبالغہ آمیز واقعات کی من گھڑت منظرکشی کا ذریعہ ہے؟
بیش تر مؤرخین نے تاریخ کو بیان کرتے وقت محض ظاہری سجاوٹ یا جذباتیت کا سہارا لیا، جب کہ کچھ ایسے جلیل القدر محققین مؤرخین بھی گزرے ہیں، جنھوں نے علمِ تاریخ کے اصول و ضوابط مرتب کیے اور آئندہ نسلوں کے لیے ایک علمی و فکری میراث چھوڑ دی۔ ایسے ہی مؤرخین میں چودہویں صدی کی ایک بڑی علمی شخصیت علامہ ابن خلدونؒ کا نام نمایاں ہے، جنھوں نے مقدمہ ابن خلدون کے ذریعے تاریخ نویسی کے بنیادی اصول مرتب کیے۔ انھوں نے واضح کیا کہ تاریخ صرف واقعات کا مجموعہ نہیں، بلکہ ان واقعات کے پسِ منظر، اسباب و علل کو تلاش کرنے کا نام ہے۔
علامہ ابن خلدونؒ نے جہاں " مثبت نظریۂ عصبیت" (یعنی خاندانی، نسلی یا قبائلی وفاداری کی اہمیت) کو اجاگر کیا، وہیں انسانی تمدن اور معاشرتی ارتقا پر بھی گہری بصیرت کے ساتھ گفتگو کی۔
ماضی قریب میں برعظیم ہند کے عظیم مفکر امام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ (1703–1762) نے علمِ تاریخ میں ابن خلدونؒ کے اجتماعی نظریات کو ارتقا کے اگلے درجے پر پہنچایا۔ انھوں نے تاریخِ انسانی کو ایک تسلسل قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ شخصی واقعات کو محض بیان کرنا کافی نہیں، بلکہ ان پر اجتماعی نقطۂ نظر سے غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی بنیاد پر شاہ صاحبؒ نے ارتفاقاتِ اربعہ (معاشرتی ترقی کے چار مراحل) کا نظریہ پیش کیا اور انسانی ارتقا کی ایسی فکری و عملی بنیادیں فراہم کیں جو آج کے دور میں بھی مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔
تاریخ کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے محض شخصی واقعات کو بیان کر دینا کافی نہیں ہوتا، بلکہ واقعات کو اجتماعی تناظر میں، ایک تسلسل کے ساتھ پرکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کی بہترین مثال تاریخِ اسلام کے اجتماعی مطالعے کی صورت میں پیش کی جاسکتی ہے۔
نبی اکرم ﷺ جس عرب معاشرے میں تشریف لائے، وہ معاشرہ صرف جنگجو، جاہل یا بے عقل افراد پر مشتمل نہ تھا، بلکہ قریش میں کئی مثبت اوصاف اور غیرمعمولی ترقی کن صلاحیتیں بھی موجود تھیں۔ تاہم منفی عصبیت اور ظالمانہ قیادت نے اس معاشرے کو زوال و انحطاط کی راہ پر ڈال دیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان خرابیوں کا ازالہ کیا اور قریش کے صالح عناصر کو باقی رکھتے ہوئے معاشرے کو فاسد سرداروں کی قیادت سے نجات دِلائی۔ اس اجتماعی اصلاحی عمل (انقلابی پروسیجر) کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپ ﷺ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد، آپﷺ کی تربیت یافتہ جماعت نے ایسا مثالی نظامِ حکمرانی قائم کیا جو عدل و انصاف پر مبنی تھا اور جو رہتی دنیا تک ہر دور اور ہر قوم کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
یہی وہ خلافتِ راشدہ کا ماڈل ہے، جسے آج غیرمسلم دانش ور بھی بہ طور نمونہ پیش کرتے ہیں۔
قرآنِ حکیم نے بھی تاریخی واقعات کو محض قصہ گوئی کے طور پر بیان نہیں کیا، بلکہ ان سے اجتماعی فہم اور عبرت حاصل کرنے کی تعلیم دی ہے۔ سورۃ الفاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے "منعَم عَلَیْهِم" (انعام یافتہ سوسائٹی) اور "مَغضُوب عَلَیْهِم و ضالین" (ناکام و گمراہ جماعتوں) کا ذکر کر کے واضح کیا ہے کہ اجتماعی طور پر کامیاب و ناکام گروہوں سے کیا سیکھا جا سکتا ہے۔
رسولِ اکرم ﷺ نے اپنی دعوت کے ذریعے ایک ایسی اجتماعیت تشکیل دی، جس نے نہ صرف آپ کے افکار و نظریات کو محفوظ کیا، بلکہ بعد میں دینی نظام کی تشکیل میں بھی مرکزی کردار ادا کیا۔
خلفائے راشدینؓ کے بعد بنوامیہ کا دور اسلامی تاریخ کا ایک تابناک باب ہے، جس میں طارق بن زیاد، موسیٰ بن نصیر اور محمد بن قاسم جیسے جری سپہ سالار پیدا ہوئے۔ اگرچہ کچھ رومانویت پسند، انفرادی نقطہ نظر کے حامل اور مائل بہ رفض مؤرخین نے اس دور کو گدلانے کی بھرپور کوششیں کیں، لیکن بایں ہمہ ان متعصب مؤرخین کی تحریرات دورِ اموی کی اسلامی فتوحات کے چکا چوند کے سامنے دھندلا کر رہ گئیں۔ کیوں کہ بنو امیہ کی قیادت میں اسلامی سلطنت نے 22 لاکھ مربع میل سے بڑھ کر 85 لاکھ مربع میل تک وُسعت اختیار کی۔ شمال میں وسطی ایشیا، جنوب میں افریقا، مشرق میں برعظیم ہند اور مغرب میں یورپ تک اسلام کا پرچم لہرا اٹھا۔
امویوں کے بعد عہدِ بنوعباس اسلامی تاریخ کا وہ درخشاں دور ہے، جس میں معاشرتی، علمی اور سائنسی ترقی اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ یہاں بھی بعض نام نہاد مؤرخین نے ذاتی عناد یا تعصب کے باعث اس دور کو کم تر دکھانے کی کوشش کی، مگر عہدِعباسی کی سائنسی و فکری ترقیات اور مسلمان سائنس دانوں کی خدمات کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ بغداد اس دور میں علم و فن کا عالمی مرکز بن چکا تھا، اور بیت الحکمت جیسے علمی ادارے آج بھی تاریخ میں اپنی نظیر نہیں رکھتے۔
درحقیقت موجودہ دور کی سائنس و ٹیکنالوجی کی بنیادوں میں مسلمانوں کے نظریات اور تحقیقات کی جھلک واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔
چاہے سلطنتِ عثمانیہ کا دور ہو یا دیگر اسلامی قومی بادشاہتیں، ہر دور میں مجموعی طور پر انسانیت نے ترقی کی۔ اگر تاریخ کو صرف شخصی واقعات کے بجائے اجتماعی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اسلام نے کم و بیش تیرہ صدیوں تک بنی نوعِ انسان کو انسانی آزادی کی بنیاد پر بلاتفریق رنگ، نسل و مذہب امن، عدل اور معاشی خوش حالی کا نظام فراہم کیا، کسی بھی دور میں انسانیت پر مجموعی معاشی جبر یا سیاسی زوال مسلط نہیں ہوا۔ اسلام نے ہر دور میں انسانی مساوات کے سنہرے حقیقی عالمگیر اصول اور انسانیت دوستی کے فلسفے کے تحت انسانوں کی خدمت کی، انھیں علم و فن سے روشناس کرایا، نت نئے علوم و فنون اور صنعت و حرفت کے نئے تصورات اور جہانبانی کی نئی جہتیں متعارف کروائیں۔ عدل و انصاف کی اعلیٰ مثالیں قائم ہوئیں، عادلانہ حکمرانی، سچائی، معاشی مساوات اور تمدنی تعمیر و تشکیل کے روشن اصول متعین کیے گئے۔
تاہم اٹھارویں صدی میں جب مسلم معاشرے زوال کا شکار ہونے لگے، تو یورپ کی نشاۃ ثانیہ (Renaissance) کا آغاز ہوا۔ یورپ کی سائنسی ترقی نے بلاشبہ ایک نئے دور کی بنیاد رکھی، مگر اس کے ساتھ ہی سرمایہ دارانہ نظام نے دنیا پر ایسے تباہ کن اَثرات مرتب کیے، جن سے جنگیں، بھوک و افلاس اور معاشی تفاوت نے جنم لیا۔ اگرچہ سائنسی ترقی نے دنیا کو آسانیاں فراہم کیں، لیکن سیاست میں فریب، مفادپرستی، ظلم و جبر اور نوآبادیاتی تسلط کی بنیاد پر فرعونیت کی ایک نئی تاریخ رقم ہوئی۔ یورپی نوآبادیاتی نظام اٹھارویں صدی سے دنیا پر غالب آنے لگا اور اس نے دنیا کو "فرسٹ ورلڈ" "سیکنڈ ورلڈ" اور "تھرڈ ورلڈ" جیسے تحقیر آمیز طبقاتی تصورات میں تقسیم کر دیا۔ یورپی تغلب کے ساتھ ظلم، تنگ نظری، غربت، بیماری اور استعماری نظام دنیا پر مسلط ہو گئے، جن کی کوکھ سے بین الاقوامی سرمایہ دارانہ اداروں نے جنم لیا۔ آج قومیں بہ ظاہر آزاد کہلاتی ہیں، لیکن حقیقت میں وہ انھی اداروں کی معاشی غلامی اور استحصالی نظام کا شکار ہیں۔
یہی وہ ولی اللہی اجتماعی تاریخی نظریات و تصورات ہیں، جن پر اجتماعی مؤرخین متفق ہیں۔ آج کے باشعور طبقے کو چاہیےکہ وہ ولی اللہی فلسفہ تاریخ پر نئے دور کے تقاضوں کے مطابق بہ قولِ امام سندھی "ایک ہسٹاریکل لارج کھڑی کردے" تاکہ آنے والی نسلوں کو تاریخ کا حقیقی پیغام دیا جا سکے اور وہ مستقبل کی درست رہنمائی اور پیش بندی کے لیے تیار ہو سکیں۔