پاکستانی ناظرین اور ارطغرل غازی: چند گذارشات
ارطغرل ڈرامہ کے پس منظر میں پیدا ہونے والے نظریات اور سوچوں کا عمیق تجزیہ کرکے ہی ہم خلافت عثمانیہ کے تاریخ سے درست نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں۔
پاکستانی ناظرین اور ارطغرل غازی: چند گذارشات
تحریر:محمد داؤد خان، پشاور ۔
پاکستان نے خلافت عثمانیہ کی (تخلیقی) تاریخ پر مبنی ٹی وی سیریز ارطغرل دکھانے کا آغاز کیا ہے۔ اس سیریز کا پہلا سیزن ترکی میں 2014 میں دکھایا گیا تھا اوراب تک اس کے چار سیزنز آچکے ہیں۔ سوشل میڈیا کے مطابق اسلامی دنیا، بلکہ دنیا بھر میں، اس کھیل کو بہت مقبولیت ملی ہے۔ پاکستان میں بھی اس کو خوب پذیرائی مل رہی ہے اور ہر دوسرا شخص اس کے سحر میں مبتلاء نظر آتا ہے۔ ایسے میں ضرورت ہے کہ شعوری بنیادوں پر اس نئی لہر اور اس کی ممکنہ اثر آفرینی کا جائزہ لیا جائے۔
کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ اس کھیل کے ذریعیے دوبارہ عالم اسلام میں نیا "جہادی" ولولہ پیدا کیا جا سکتا ہے ،خلافت کی چنگاری دوبارہ سلگائی اورایک مسیحاکےانتظار کی تمنابیدارکی جا سکتی ہے۔ ان ممکنہ خدشات اور پاکستانی تناظر کےحوالے سے چند گذارشات راقم کے ذہن میں آئیں جو پیش خدمت ہیں۔
اس بات سے قطعاً انکار نہیں کہ خلافت عثمانیہ کا اسلام کے دور عروج میں ایک اعلی کردار اور مقام رہا ہے لیکن چونکہ ناظرین اس سیریل کو پاکستان کے زمان و مکاں کے تناظر میں دیکھیں گے لہذا چند اہم امور کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ہر مسبب کے پیچھے ایک سبب،ایک نظریہ یا ایک سوچ کارفرما ہوتی ہے۔ایک شخص کو اگر ایک بندوق تھمادی جائے اور اسے اس کے استعمال کا نظریہ اور شعور نہ سکھایا جائےتو ہوسکتا ہے کہ وہ اس سے کسی کا خون کردے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اس بندوق سے اپنے دفاع کو یقینی بنائے۔اب بندوق کا صحیح اور درست استعمال شعور،تربیت اور نطریے پر منحصر ہے۔ تاریخ کا علم بھی ایک قوت رکھتا ہے۔ اس کی آگہی، خاص طور سے دور عروج کی طرف سفر کی آگہی بھی ہمارے اندر ایک ولولہ بھرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، مگر اس آگہی کو کہاں اور کس وقت استعمال میں لے کر آنا ہے یہ ہمیں شعوری تجزیہ سے ہی پتہ چل سکتا ہے۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ جب سے پاکستان معرضِ وجود میں آیا تب سے ہمارا سماجی ، سیاسی و تعلیمی نظام کسی نظریہ اور سوچ پر قائم ہی نہیں ہوا اور اسی لیے یہ اپنے عوام کی شعوری تربیت کرنے سے قاصر رہا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ یہاں کے عوام نت نئے ڈراموں، واقعات، افسانوں،اور امیدوں کی طرف مائل ہوتے رہے ہیں۔ بالکل زیر بحث کھیل کی طرح، ماضی کے ڈرامے، واقعات، افسانے اور امیدیں بھی بہت خوشنما تھے اور عوام کا دل فورا موہ لیا کرتے تھے۔ سب کو یاد ہے کہ اسی نظام نے یہاں کے انسانوں کو جان بوجھ کر پر تشدد تحریکات کی طرف اس لیے راغب کیا کیونکہ کسی سامراجی قوت کی سیاسی بساط کو پر تشدد پیادوں کی ضرورت تھی۔ عوام بےچارے بے شعوری کی وجہ سے اس کا شکار ہو گئے۔ لہذا کبھی پاکستانی عوام امریکن میڈ "جہاد" میں کود گئے تو کبھی قوم پرستی کے نعرے پر مر مٹنے کے لیے تیار ہو گئے۔ اس بےشعوری کی وجہ سے ہم کسی بھی تحریک کا درست زاویہ نظر سے تجزیے کی صلاحیت سے قاصر رہے۔ اس پس منظر میں ازحد ضروری ہے کہ ہم ہر نئی تحریک یا لہر کو ،چاہے وہ جتنی ہی دلنشیں کیوں نہ ہو، شعوری بنیادوں پر پرکھیں، اس کے ممکنہ نتائج پر غور کریں اور اجتماعی نقطۂ نظر کے اصول پر اس کو پرکھیں۔
ارطغرل ڈرامے کی بابت ہمیں سوچنا چاہیے کہ آج کے اس قومی جمہوریتوں کے زمانے میں جہاں ہر قوم کو اپنے ریاستی ڈھانچے میں اپنی قوم کی فلاح و ترقی کو یقینی بنانا ہے وہاں اپنے خطے کے ہیروز، صوفیاء و اولیاء اور قدیمی تاریخ کو چھوڑ کر کسی اور قومی جمہوریہ کے ماضی کے ہیروز اور صوفیاء وغیرہ سے رومانوی وابستگی پیدا کرنے سے کیا نتائج پیدا ہونے کا امکان ہے؟ خاص طور پر جب ہم جانتے ہوں کہ ماضی میں بھی اسلامی رومانویت کے نام پر اس ملک عزیز کے نوجوانوں کو سپانسرڈ "جہاد" کی ترغیب دی گئی۔
لہذا ہمیں جائزہ لینا ہوگا کہ ہمارے نوجوان ارطغرل غازی کو دیکھ کر کیا نتیجہ اخذ کرتے ہیں؟ کیا اس سے ایک بار پھر "جہادی" ذہن تیار ہوگا؟ کیا اس سے پھر ہیروازم کے انفرادی تصورات ان کے ذہنوں میں راسخ ہوں گے؟ کیا ایک بار پھر ان کے ذہنوں میں قومی جمہوریتوں کے دور میں خلافت کے متروک تصور کی چنگاری سلگائی جائے گی؟
پاکستان جیسے معاشرہ میں جہاں تشدد کے گراف کو اوپر ہی جاتے دیکھا گیا ہے وہاں پر پاکستانی نوجوان ارطغرل غازی کو زمانہ قدیم میں غیر مسلموں کو گاجر مولی کی طرح کاٹتے دیکھیں گے تو کیا اس سے ایک بار پھر ان کے ذہن تشدد کی طرف تو مائل نہیں ہوں گے؟ ایسے میں ضرورت ہے کہ ان کی اس حوالے سے تربیت کی جائے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں فقہ کا اصول ہے کہ جب تک عادلانہ سسٹم موجود نہ ہو تب تک قتال نہیں کیا جاسکتا۔گویا جہاد بالسیف کےلیے لازمی شرائط میں سے حقیقی اسلامی نظام کا قائم ہونا اور جہاد ریاست کی افواج کے ذمہ ہونا شامل ہے۔
اسی طرح ان نوجوانوں کو باورکروانا ہوگا کہ جب اسلامی عادلانہ نظام قائم نہ ہو تو عدم تشدد پر مبنی جدوجہد کی جاتی ہے۔اسی کو علماء نے جہاد کا پہلا مرحلہ قرار دیا ہے۔جب انقلاب برپا کرکے ایک عادلانہ نظام قائم کر دیا جاتا ہے اس کے بعد پھر بین الاقوامی سطح پر ظلم کے نظاموں کو روکنے کےلیےریاست قتال یا جنگ کر سکتی ہے۔
چونکہ ڈرامے میں دکھایا جاتا ہے کہ کائی قبیلے کے بنیادی مسائل بیرونی سازشوں کی وجہ سے ہیں، اس لیے اس کا ایک ممکنہ منفی تأثر یہ ہو سکتا ہے کہ نوجوانانِ پاکستان بجائے اپنے قومی مسائل کا ادراک کرنے، جدوجہد کے پہلے مرحلے کی طرف مائل ہونے اور عدم تشدد کےاصول پر کاربند ہوتے ہوئے ملک عزیز کے داخلی نظام کو شعوری بنیادوں پر بہتر کرنے کے، وہ دوبارہ اپنے ملک کے تمام مسائل کو بیرونی سازشوں کا ہی نتیجہ قرار دے سکتے ہیں اور ایسے میں اندرونی سسٹم کی بوسیدگی کا ادراک قائم کرنے سے محروم رہ سکتے ہیں۔
اسی طرح آج زوال اور مغلوبیت کے دور میں ارطغرل ڈرامے سے ایک نئے انداز میں تشدد پسندانہ ذہن تیار ہونے کا خدشہ بھی موجود ہے۔خلافت عثمانیہ کے آغاز سے پہلے اگر جہاد نے قتال کی شکل اختیار کی تو وہ ایک اور دور تھا اور انہوں نے اس سے بحق انسانیت بہترین نتائج لیے اور یہ کام سلجوق سلطنت کے ماتحت ہوا۔ پاکستانی ناظرین کو یہ بات بھی ملحوظ خاطر رکھنے کی ضرورت ہے۔
ایک اور ممکنہ نتیجہ پاکستانی نوجوانوں کے ذہنوں میں اس ڈرامے کو دیکھ کر دوبارہ خلافت کے رومانوی تصور کا پیدا ہونا ہے۔ اس حوالے سے ہمیں واضح ہونا چاہیے کہ اس خطے کے رہنما شیخ الہند مولانا محمود حسن ؒ اور ان کے شاگرد مولانا عبیداللہ سندھی نے اپنی عظیم جدو جہد اور گرانقدر قربانیوں کے نچوڑ کے طور پر ہمیں دو سیاسی اصول دیے: ایک عدم تشدد اور دوسرا قومی جمہوری جدو جہد کا اصول۔ مؤخر الذکر اصول کے تحت ہر قوم کے لیے اپنے جغرافیے کے اندر تبدیلی برپا کرکے ایک جمہوری سسٹم کو قائم کرنا ناگزیر ہے۔ مولانا سندھی کے بقول اس قومی جمہوریت کو قائم و مستحکم کیے بغیر کسی بھی ملک کا کوئی بین الاقوامی کردار نہیں ہوگا۔ اسی طرح کوئی ملک یا قومی جمہوریہ کسی دوسرے ملک کے مسائل کا حل نہیں پیش کر سکتی۔ لہذا اگر ترکی نے اس تاریخی کہانی کو افسانوی انداز میں اپنے نوجوانوں کے لیے پیش کیا ہے تو اس کا مقصد اپنے ترک نوجوانوں میں مغربی یلغار کے مقابلے میں اپنے ماضی پر قومی تفاخر قائم کر کے اس کے آگے بند باندھنا ہے۔ اس کو ترکی کے قومی جمہوری تناظر میں سمجھنا ضروری ہے۔ اسی لیے ترک ورژن میں ہر کھیل کے آغاز میں یہ لکھا ہوا سکرین پر نمودار ہوتا ہے کہ "اس کھیل کی انسپیریشن ہماری تاریخ سے لی گئی."
اب دنیا میں قومی جمہوری دور مزید مستحکم ہو چکا ہے ایسے میں مذہب کی بنیاد پر خلافت سے دوبارہ رومانوی وابستگی پیدا کرنا کسی طور سودمند ثابت نہیں ہو سکتا۔ پاکستانی ناظرین کو یہ اہم بات بھی سمجھنی ہوگی۔
مزید یہ کہ جب کسی قوم کے ساتھ کوئی شعور ، نظریہ اور تبدیلی کا پروگرام نہیں ہوتا تو وہ کسی ایسے ہیرو کی تلاش میں رہتے ہیں جو ایک جن کی طرح وارد ہوکر ان کو بام عروج پر پہنچا دیں۔حالانکہ یہ خیالی دنیا کا ایک فلسفہ ہے۔حقیقت کی دنیا تو یہ کہتی ہے کہ جب تک شعوری بنیادوں پر قیادت سازی کے مرحلے سے گزر کر ایک نظریے پر منظم جماعت نہیں بنائی جاتی اور قومی انقلاب برپا کرنے اور بین الاقوامی انقلاب برپا کرنے کا ایک مکمل پروگرام نہیں ہوتا تو نہ تو سسٹم کی تبدیلی ممکن ہوتی ہے اور نہ ہی دین کے سسٹم، عدل، امن و معاشی خوشحالی و مساوات کا غلبہ ہو پاتا ہے۔ لہذا یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ انفرادیت کی بنیاد پر تبدیلی کا نظریہ باطل ہے اور قومیں اپنی قسمت کو اجتماعی جدوجہد سے ہی بدلتیں ہیں۔
ایک اور اندیشہ اس بات کا بھی ہے کہ ارطغرل غازی کی کرامات دیکھنے کے بعد پاکستانی کہیں طیب اردگان میں ارطغرل غازی کا عکس نہ تلاش کرنا شروع کر دیں اور یہ کہ کسی طرح وہ بھی تلوار اٹھائے اپنے جد امجد کی اس افسانوی سیریز کی طرح امت مسلمہ کے مسائل حل کر دیں۔ ہمیں واضح ہونا چاہیے کہ خواہشات سے نتیجہ نہیں آتا، عمل سے آتا ہے؛ حقائق کے ادراک اور اس کے مطابق حکمت عملی سے آتا ہے اور جب ضرورت اس تناظر میں شعوری عملی جدو جہد کی ہو اس وقت رومانویت کا شکار ہو جانا اپنے حقیقی مقاصد سے بھٹکنے کے مترادف ہوتا ہے۔
اگر ہمیں زوال کی وجوہات کی خبر نہ ہوئی، عروج تک جانےکا نقشہ ذہن میں تیار نہ ہوا ، اگر جدوجہد کی نیت نہ کی اور شعور کی بیداری کو یقینی نہ بنایا، تو ہمیں ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ صرف ایک مسیحا کی آرزو کرتے ہوئے ایک افسانوی کھیل کو دیکھنا کبھی سودمند ثابت نہ ہوگا۔