افریقی نوآبادیات : مغربی اقوام کا انسانیت سوز کردار
افریقہ اپنے قدرتی وسائل اور قدیم تہذیبوں کی دھرتی تھی۔ جس پر مغربی اقوام نے ظلم و ستم اور استحصال پر مبنی نوآبادیات قائم کیں۔

افریقی نوآبادیات : مغربی اقوام کا انسانیت سوز کردار
تحریر: رانا رفاقت علی۔بہاولپور
مغربی تسلط سے پہلے افریقی اقوام کی حالت:
افریقا ایک ایسا براعظم ہے جو قدرتی وسائل، ثقافتی تنوع اور قدیم تہذیبوں سے مالا مال رہا ہے۔ یہاں کے باشندے صدیوں سے اپنی روایات، زبانوں اور معاشرتی نظام کے تحت ایک باوقار اور خودمختار زندگی بسر کرتے تھے۔ گیارہویں صدی عیسوی میں سنکارے یونیورسٹی (ٹمبکٹو یونیورسٹی) قرونِ وُسطیٰ کے اہم ترین علمی مراکز میں شامل تھی، جہاں الجبرا، جیومیٹری، فلکیات اور اسلامی علوم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ یہ ادارہ نہ صرف مقامی طلبا کو تعلیم فراہم کرتا تھا، بلکہ عرب، یورپی اور ایشیائی ممالک کے طلبابھی یہاں تعلیم حاصل کرتے تھے۔
تیرہویں اور چودہویں صدی عیسوی میں مالی ایمپائر، بالخصوص مانسا موسا کی حکومت میں ایک ایسی خوش حالی اور دولت کا مالک تھا جو پوری دنیا میں مشہور تھا۔ جب مانسا موسا نے 1324 میں حج کا سفر کیا تو اس نے اپنی دولت کا اتنا مظاہرہ کیا کہ مصر اور عرب کی معیشت متاثر ہوئی۔ اس کے قافلے میں ہزاروں افراد شامل تھے اور وہ اپنے ساتھ بے شمار سونا لے کر گیا تھا۔ افریقا میں اسلامی تہذیب کا اَثر بھی گہرا تھا۔ یہاں کی مقامی ثقافت اور اسلامی اقدار کا امتزاج ایک منفرد تہذیبی ورثہ بنا۔ علم، تجارت اور فنون کا فروغ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ افریقا کبھی بھی "تاریک براعظم" نہیں تھا، بلکہ یہ انسانی تہذیب کے روشن ترین مراکز میں سے ایک تھا۔
مگر اس خوش حال اور خودمختار خطے پر مغربی استعماری طاقتوں کی یلغار نے ایک ایسا تاریک دور شروع کیا، جس نے نسل در نسل انسانیت کو کچل کر رکھ دیا۔ یہ استعماری دور نہ صرف افریقا کی معاشی اور سیاسی آزادی کا خاتمہ تھا، بلکہ اس نے یہاں کی تہذیبی اور ثقافتی شناخت کو بھی مسخ کر دیا۔
برلن کانفرنس اور براعظم افریقا کی تقسیم:
1884-1885 میں جب دس سے زائد مغربی اقوام نے برلن کانفرنس میں براعظم افریقا کو ایک میز پر بیٹھ کر، نقشے پر لکیریں کھینچ کر آپس میں تقسیم کر لیا، تو یہ انسانی تاریخ کا ایک بدنما داغ ثابت ہوا۔ "افریقا کی تقسیم" کے نام سے مشہور اس اجلاس میں کوئی بھی افریقی نمائندہ موجود نہیں تھا۔ یورپی طاقتوں نے اپنی کالونیاں بنانے کے لیے صرف اپنے مفادات کو مدنظر رکھا، جب کہ مقامی قبائل، زبانیں اور ثقافتی حدود کو مکمل طور پر نظرانداز کیا۔ 1914ء تک تقریباً 90 فی صد افریقا ان مغربی اقوام کے رحم و کرم پر تھا، جس نے اس براعظم کی تقدیر کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا۔ زیرنظر مضمون میں صرف بیلجیم کے کنگ لیوپولڈ دوم کا افریقی کانگو پر تسلط، برطانیہ کا کینیا پر تسلط اور جرمنی کا نمیبیا پر تسط کا مختصر ذکر کرتے ہیں۔
بیلجیم کے کنگ لیو پولڈ (دوم) کا افریقی کانگو پر تسلط:
کنگ لیوپولڈ(دوم) 1865 سے 1909ء تک بیلجیم کا حکمران تھا۔ 1885ء کے برلن ایگریمنٹ میں کنگ لیوپولڈ (دوم)بیلجیم سے 80 گنا بڑے سائز کے رقبہ(2.3 مربع کلومیٹر پر محیط) کانگو کو اپنی ذاتی ملکیت بنا لیا اور اسے کانگو فری اسٹیٹ کا نام دیا۔برلن کانفرنس میں اس نے وعدہ کیا تھا کہ افریقا کے اس علاقہ کے لوگوں کو تہذیب یافتہ بنایا جائے گا۔ لیکن مقامی آبادی کو غلام بنا کر جبری مشقت لینا شروع کی۔
ان غلاموں کو ربڑ کی پیداوار کا کوٹہ پورا کرنے کے لیے دن رات محنت کرنا پڑتی اور اگر کوٹہ پورا نہ ہوتا تو انھیں سخت سزائیں دی جاتیں۔مردوں کو ربڑ لانے پر مجبور کرنے کے لیے ان کی عورتوں کو قید کر لیا جاتا اور انھیں بھوکا رکھا جاتا۔ حتی کہ بچوں اور عورتوں کے ہاتھ کاٹ دیے جاتے۔مقامی آبادی کے ایک بڑے حصے کو قتل کیا گیا۔ فوجیوں کو ہر گولی کا حساب دینا ہوتا تھا، جس کے لیے وہ زندہ انسانوں کے ہاتھ کاٹ کر ثبوت جمع کرتے۔
1897ءمیں کنگ لیوپولڈ نے افریقی لوگوں کی تضحیک کے لیے بیلجیم میں ایک انسانی چڑیا گھر بنایا، جس میں کانگو سے تعلق رکھنے والے267 انسان بہ طور جانور نمائش کے لیے پیش کیے جاتے،جس کا مقصد یورپی عوام کو باور کروانا کہ افریقی لوگ جانور، وحشی اور جاہل ہیں۔
ان تمام مظالم کا دنیا کو اس وقت علم ہوا، جب ایک امریکی صحافی جارج واشنگٹن ولیمز نے 1890ء میں کانگو کا سفر کیا اور لیوپولڈ کے مظالم کےخلاف لکھا۔ اسی طرح ایک برطانوی صحافی Edmund Dene Morel نے 1906ء میں Red Rubber کے نام سے ایک کتاب لکھی، جس میں کٹے ہوے ہاتھ اور دوسرے مظالم کے ثبوت پیش کیے۔اس دور میں کنگ لیوپولڈ کی ذاتی دولت 500 ملین فرانک تک پہنچ گئی۔ Adam Hochschild نے اپنی کتاب King Leopold’s Ghost میں اس پر تفصیل سے لکھا ہے، لیکن دو دہایوں کے اس ظلم و ستم سے 10 ملین سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے۔
1908ءمیں کنگ لیو پولڈ کے ظلم و ستم کی وَجہ سے کانگو کو اس کی ذاتی ملکیت سے لے کر بیلجیم حکومت کے حوالے کر دیا گیا۔ لیکن استحصال کا عمل جاری رہا۔
برطانیہ کا کینیا پر تسلط:
1885ءمیں برطانیہ نے کینیا کو کالونی بنایا۔ کینیا میں چائے اور کافی کی کاشت کے لیے کینیا کی ذرخیز زمین پر قبضہ کیا اور اسے White Highlands کا نام دیا جہاں صرف گورے آباد ہو سکتے تھے۔ مقامی آبادی پر بہت زیادہ ٹیکسز لگائے، جسے پورا کرنے کے لیے انھیں بہت زیادہ مشقت کرنا پڑتی۔ 1913ءمیں برطانوی آباد کاروں کو نو سو ننانوے (999) سالوں کے لیے لیز پر زمین دی گئی۔ اَب حالت یہ تھی کہ تین ہزار برطانوی آباد کاروں کے پاس ایک ملین مقامی آبادی سے زائد زمین تھی۔
1952ءمیں مقامی کیکویو آبادی نے اس ظلم کے خلاف ایک تحریک شروع کی، جسے ماو ماو تحریک کا نام دیا گیا اور آبادکاروں کی زمین پر حملے کیے۔ برطانیہ نےہنگامی حالت نافذ کی، ہزاروں افراد کو گرفتار کر لیا۔ مقامی آبادی پر حملے کیے،جس میں 11 ہزار ماو ماو جنگجو اور 90 ہزار سے زائد لوگ بھوک، تشدد اور بیماریوں سے ہلاک ہوئے۔
ہاورڈ یونیورسٹی کی Professor Caroline Elkins نے اس برطانوی ظلم و ستم پر تحقیق کی اور 2005ء میں اپنی کتابThe Britian’s Gulag; The Brutal End of Empire in Kenya میں تفصیل سے بیان کیا کہ یہ ایک منظم نسل کشی تھی، جسے برطانیہ نے کم کر کے پیش کیا ۔
2009ءمیں کینیا کے چند متاثرین نے برطانیہ کی طرف سے کینیا میں کیے گئے ظلم و تشدد کے خلاف لندن ہائی کورٹ میں کیس دائر کیا۔آکسفورڈ یونیورسٹی کے محقق David Anderson اور وکلا کی ٹیم نے Hanslope Park میں موجود برطانوی دفترخارجہ کے خفیہ آرکائیو میں ان فائلز تک رسائی حاصل کی، جن میں کینیا میں کیے گئے قتل، تشدد اور ظلم و ستم کے ثبوت موجود تھے۔
اسی کیس میں Professor Caroline Elkins بہ طور Expert Witness پیش ہوئیں،جس کے بعد برطانوی حکومت نے 2013ء میں کینیا کے متاثرین سے Out of court settlementکی اورمتاثرین کو 20 ملین پاونڈ ہرجانہ ادا کیا اور برطانیہ کے وزیرخارجہ ولیم ہیگ نے پارلیمنٹ میں کینیا پہ کیے گئے ظلم و ستم کو ریاستی سطح پر تسلیم کرنے کے باوجود صرف Regret کا لفظ استعمال کیا۔
جنوب مغربی افریقا (نمیبیا) پر جرمنی کا تسلط:
جرمنی نے 1884ء میں سیاسی اور اقتصادی طاقت کو بڑھانےاور زرعی اور تجارتی وسائل کے حصول کے لیے جنوب مغربی افریقا (موجودہ نمیبیا) کے علاقہ کو اپنی کالونی بنایا۔ افریقا کے اس حصہ میں دو افریقی قبائل ہیریرو اور ناما آباد تھے۔ جب جرمنی نے مقامی لوگوں کی زمینوں اور جانوروں پر قبضہ کرنا شروع کیا تو ان قبائل نے بغاوت کی اور جرمن لوگوں پر حملہ کر دیا۔
1906ءمیں جرمن کمانڈر Lothar Von Trothaنےمقامی آبادی کو ختم کرنے کا حکم دیا۔ جس کے بعد ایک بڑی تعداد قتل کر دی گی۔ کچھ کو صحرا میں مرنے کے لیے چھوڑ دیاگیا یا پھر حراستی کیمپوں میں قید کر دیا گیا۔ مجموعی طور پر 80 فی صد ھیریرو آبادی اور 50 فی صد ناما آبادی صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔چند مقامی لوگوں کی باقیات اور کھوپڑیاں طبی تجربات کے لیے جرمنی بھیجی گئیں،جس کا ایک مقصد سائنسی طور پر افریقی لوگوں کو کمتر ثابت کرنا تھا۔جسےRacial Biology یاScientific Racism کہا جاتا ہے۔ 2011ءاور 2018ء میں نمبییا گورنمنٹ کے مطالبے پر کھوپڑیاں واپس کی گئیں۔
نمیبیا 1990ء میں آزاد ہوا۔ مارچ 2025ء میں نمیبیا کی منتخب ہونے والی پہلی خاتون صدر نے جرمنی کی طرف سے ہیریرو اور ناما قبائل کی نسل کشی پر جرمنی سے مطالبہ کیا ہے کہ جرمنی اس نسل کشی کو تسلیم کرے، معافی مانگے اور اس کا تاوان ادا کرے۔اس سے پہلے بھی 2021ء میں جرمن حکومت نے نسل کشی کو تسلیم کرتے ہوے معاوضہ دینے کا اعلان کیا تھا۔
الغرض! افریقا میں مغربی کالونیلزم کی تاریخ، 8 مئی 1945ء میں فرانس کی کالونی الجیریا میں عوامی احتجاج پرفرانسیسی جنرل ڈوول کے حکم سے 25 ہزار سے زائد لوگوں کا قتل عام اور1961ء میں پرتگال کا افریقی کالونی انگولا پر فضائی حملوں میں 30 ہزار سے زائد مقامی آبادی کا قتل عام جیسے دل سوز واقعات سے بھری پڑی ہے۔ جس پر آج تک افریقی اقوام نوحہ کناں ہیں۔
بنیادی انسانی حقوق کی علم بر دار مغربی اقوام جب ان علاقوں پر اپنا بالواسطہ تسلط قائم نہ رکھ سکیں تو 'نیوکالونیلزم' کے تحت بین الاقوامی اداروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے غیرانسانی معاہدات کے ذریعے سے ان علاقوں کے وسائل پر قابض رہتی ہیں۔ ان مغربی اقوام کے نزدیک اظہارِ آزادی ،صحت، تعلیم ، جمہوریت، قانون کی بالا دستی اور امن و امان جیسے بنیادی انسانی حقوق صرف ایک خاص نسل اور رنگ کے لوگوں کے لیے ہیں اور اگر تیسری دنیا کی اقوام کے یہ حقوق پامال ہورہے ہوں، تب ان مغربی اقوام کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ۔
White Man’s Burden یا White Supermacy کے خودساختہ ،غیرفطرتی، نسل پرستانہ نظریے پر اپنی برتری کو جواز بنا کر ، ایشیائی اور افریقی ممالک پر حق حکمرانی، استحصال اور وسائل پر غاصبانہ قبضے کو جائز قرار دیتے ہیں،جس کی وَجہ سے قدرتی وسائل کی بہتات کے باوجود تیسری دنیا کا ایک بڑا حصہ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
برعظیم پاک و ہند کےحریت پسندوں نے تقریباً ایک صدی پہلے مغربی سامراجی اقوام کی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لیے علاقائی اتحاد (ریجنل بلاکس/ ایشیاٹک فیڈریشن) کا تصور پیش کیا،جس کی اہمیت آج روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ افریقی اقوام کو بھی اس بیرونی مغربی مداخلت سے بچنے کے لیے آزاد افریقی اقوام کو متحد کرکے اپنا علاقائی اتحاد قائم کرنے کی ضرورت ہے۔
آج ہمارے نوجوان کو ان مغربی اقوام کے بلند و بانگ دعوؤں اور خوش نما نعروں سے مرعوب ہونے کے بجائے ان کی نسل پرستانہ نظریے کی بنیاد پر ظلم و استحصال پر مبنی عملی نظام اور اس کے نتائج کو مدنظر رکھنا چاہیے ۔ انسانیت کی بنیاد پر اپنی اجتماعیت قائم کر کے آزاد قومی نظام کی راہ ہموار کریں اور جدید دور کی غلامی (نیو کانیل اِزم) سے چھٹکارہ حاصل کر کے انسانیت کو راحت پہنچائیں۔