یومِ استقلالِ افغانستان اور مولانا عبیداللہ سندھیؒ - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • یومِ استقلالِ افغانستان اور مولانا عبیداللہ سندھیؒ

    استقلال افغانستان میں مولانا عبیداللہ سندھی کا کردار

    By سید عطاءاللہ شاہ احرار Published on Aug 20, 2021 Views 3590

    یومِ استقلالِ افغانستان اور مولانا عبیداللہ سندھیؒ

    تحریر: سیّد عطاء اللہ شاہ احرارؔ۔مردان


    افغانستان ،ہندوستان کی آزا دی سے تقریباً 28سال پہلے (19/اگست 1919ء) وجود میں آیا ہے۔ رواں ماہ کی 19 تاریخ کو افغانستان کی آزادی کی 103 ویں سالگرہ منائی جائے گی۔یاد رہے کہ دوسری اینگلو افغان جنگ 1878ء میں انگریز استعمار سے لڑی گئی تھی، جس کا خاتمہ معاہدہ گندمک پر ہوا۔ اسی کے نتیجے میں افغانستان بہت حد تک انگریزوں کے قبضے میں آگیا۔ تیسری اینگلو افغان وار، غازی امان اللہ خان کے دور میں لڑی گئی، جس کے نتیجے میں افغانستان ایک آزاد مملکت کا وجود حاصل کرگیا اور افغانستان کے داخلہ، خارجہ اور دفاعی امور انگریزوں کے ہاتھوں سے نکل گئے۔اس جنگ کی فتح میں مولانا عبیداللہ سندھی ؒ اور ان کے شاگردوں ،جن میں سےظفر حسن ایبک اور مولاناعبداللہ لغاری قابل ذکر ہیں، کا خاصا کلیدی کردار رہا۔مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے اپنے استاد شیخ الہند مولانا محمودحسن ؒ کے حکم پر کابل ہجرت کی ،جس کا تفصیلی ذکرمولانا سندھی صاحب کے سفر نامے ’’کابل میں سات سال ‘‘ تاریخی یادداشت کے طور پر مذکور ہے۔مولاناعبید اللہ سندھیؒ رقم طراز ہیں کہ:

    "مجھے حضرت شیخ الہند نے حکم کیا کہ آپ کابل جائیں ۔میری طبیعت یہ بات ماننے کو تیار نہ تھی، لیکن میں نے حکم کی تعمیل کی اور کابل روانہ ہوا۔ کابل جاکر پر مجھ پر یہ عقدہ وا ہوا کہ حضرت شیخ الہندؒ جس جماعت کا نمائندہ تھے، اس جماعت کی پچاس سالہ محنت میرے سامنے غیرمنظم شکل میں تیار کھڑی تھی اور اس کو منظم کرنے کےلیے مجھ جیسے ایک خادم کی ضرورت تھی۔ اب اپنے انتخاب پر مجھے فخر محسوس ہورہاتھا ۔‘‘

    یاد رہے کہ مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے کابل میں حکو مت موقتۂ ہند کا قیام عمل میں لایاتھا ،جس کی تفصیل مولانا سندھیؒ صاحب کی ذاتی ڈائری’’ کابل میں سات سال‘‘ میں موجود ہے۔ امیر امان اللہ خان کو جب اقتدار ملا تو انھوں نے صلح و جنگ اور دیگر ریاستی امور کے حوالے سے مشاورت میں مولانا سندھیؒ کو شریک کیا اور جنگ کے بعض بہت اہم امور ان کے حوالے کردیے۔ مولاناسندھیؒ صاحب لکھتے ہیں :

    امیر امان اللہ خان کی حکومت میں ہم نے اپنا رنگ دیکھ لیا ۔وہ اپنے وزرا کی طرح ہم پر اعتماد کرتے تھے اور ہم ان کی گھریلو مجلسوں میں شریک ہوتے تھے اور جس طرح ایک بندہ اپنے بڑوں کی عزت کرتا ہے، اسی طرح غازی امان اللہ خان ہماری عزت کرتے تھے۔حضرت شیخ الہند کی وفات پر امیر امان اللہ خان نے دعا کرتے وقت کہا کہ "مولانا شیخ الہند یک کار را شروع کروند من اورا پورا میکنیم "

    ترجمہ: مولانا شیخ الہند نے ایک کام شروع کیا تھا اور اس کی تکمیل میں کروں گا۔

    ظفر حسن ایبک صاحب مولانا سندھی ؒصاحب کے شاگرد تھے اور افغانستان کے اس سات سالہ قیام میں حضرت سندھی ؒ کے ساتھ تھے۔ وہ اپنی کتاب ’’خاطرات ‘‘میں لکھتے ہیں کہ:

    "سپہ سالار سردارنادر خان کے ساتھ میں بھی جنگی محاذ پہ گیا تھا ۔ جنگ ختم ہونے پر اپنے فوجیوں کے اعزاز میں غازی امان اللہ خان نے ایک فنگشن کا انعقاد کیا تھا۔ سردار سپہ سالار نے غازی امان اللہ خان سے ظفر حسن ایبک کا کچھ یوں تعارف کیاکہ اس نوجوان کی عمر کم ہے، لیکن بہادری میں اس نے بڑے بڑے افسروں کو مات دی ہے۔ یہ ایک ہندوستانی مہاجر مسلمان ہے، لیکن اس نے اپنی بہادری کی وجہ سے بڑے افغان افسروں کوحیرت میں ڈال دیا ہے۔‘‘

    امیر امان اللہ خان کے دور میں انگریز سرکار گاندھی جی کی قیادت میں ہنگاموں اور افغان حکومت کے بالشویک روس کے ساتھ تعلقات سے سخت پریشان تھی۔انگریز کو اپنی فوج کے نقل وحرکت کاپتہ نہیں چل رہا تھا اور نہ ہی وہ جاسوسوں کی وساطت سے افغانستان کے حالات معلوم کرسکتا تھا۔ اسی وجہ سے افغانستان انگریز کی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ دوسری طرف سرحدی چوکیوں پہ ملیشا اور افغانوں کا ملنا بھی انگریز سامراج کےلیے درد ِسر بن گیا۔ اسی دوران مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے غازی امان اللہ خان کے ساتھ حکومت مؤقتہ ہند کی حیثیت سے معاہدہ کیا تھا۔ مولانا عبیداللہ سندھی کابل پریس میں گئے اور یہ اعلان چھپوایا:

    “Brave Indians! Courageous countrymen! You have read the account of provisional government of India. It is Mahndra Partap as its president, Mr. Barakatullah as its prime minister and Ubaidullah as its administrative minister.

    Fight against English wherever you find them cut the telegraph lines, and the railways bridges and help in all respects the liberating armies. None shall be molested but shall resist your properties and your home is safe.”

    ’’ بہادر ہندوستانیو! بہادر ہم وطنو! ہندوستان کی عارضی حکومت کا معاملہ تو آپ کو معلوم ہوا ہوگا۔مہندرا پرتاپ بہ طور صدر، مسٹر برکت اللہ اس کے وزیراعظم اور عبیداللہ اس کے انتظامی وزیر ہیں۔انگریزوں کے خلاف لڑیں، جہاں بھی وہ ملیں، ٹیلی گراف لائنوں او ریلوے پلوں کو کاٹیں اور ہر طرح سے آزاد افواج کی مدد کریں۔(حکومت موقتہ کی طرف سے) کسی کے ساتھ چھیڑ خوانی نہیں کی جائے گی، آپ کی جائیدادوں اور گھروں کی حفاظت کی جائے گی۔‘‘

    مذکورہ ہندوستانیوں کے علاوہ آزاد سرحدی قبائل میں سےوزیر اور محسودبھی افغانوں کے شانہ بشانہ کھڑے تھے۔وزیر اور محسود قبائل نے وانا اور باقی قلعو ں پر حملے کیے نیز ٹیلیفون کی تاریں کاٹ کر اس کے کھمبے گرا دیے،جس سے انگریزوں میں اَور بھی خوف پیدا ہوگیا۔ اسی جنگ میں مولانا عبیداللہ سندھیؒ کے نوجوان دوست، خوشی محمد سپہ سالار سردارصالح محمد خان کے سیاسی مشیر تھے۔ ظفر حسن ایبک لکھتے ہیں کہ اسی دوران امیر امان اللہ خان نے مولانا عبیداللہ سندھیؒ کو چمرکنڈ سے سرکاری سرپرستی میں مشوروں کےلیے کابل بلایا۔

    جنگ استقلال کے ختم ہونے کا ذکر ظفر حسن ایبک انہی الفاظ میں کرتے ہیں۔

    "۔۔۔راولپنڈی میں جو عارضی صلح 8 اگست1919ء میں ہوچکی تھی اس میں انگریز سامراج افغانستان کی آزادی کے قائل ہوگئے"

    اگر چہ افغانستان حکومت نے مولانا عبیداللہ سندھیؒ کی ہر تجویز پر عمل نہیں کیا، لیکن پھر بھی مولانا عبیداللہ سندھیؒ کے اخلاص، غور و تدبر اور قربانیوں سے افغانستان آزاد ہوگیا۔ مولانا سندھی ؒ کے انہی کارہائے نمایاں کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا حسین احمد مدنی ؒ نقش حیات میں لکھتے ہیں :

    ’’ انھوں (حضرت سندھیؒ) نے آئندہ آنے والے امیر امان اللہ خان کواس قدر متأثر کیا کہ وہ اقتدار پا جانے کے بعد بالکل ان کے ہم خیال پائے گئےاور استقلال کامل دولت افغانیہ کا اعلان کر بیٹھے۔(نوٹ) چوں کہ انگریزوں نےامیر عبدالرحمن خان مرحوم کو روس سے بلا کرتخت کابل پر بٹھایا تھا۔اس لیے وہ دولت افغانیہ کو اپنی ماتحت ریاست شمار کرتے تھے۔فارن پالیسی میں وہ ہرطرح انگریز کی دست نگر رہتی تھی اور مثل حیدرآباد وغیرہ برطانیہ کی محتاج تھی۔کسی خارجی ملک میں کوئی کام نہیں کرسکتی تھی۔اور نہ براہ راست ان سے کوئی تعلق قائم کرسکتی تھی، اس لیے ہر ترقی میں رکاوٹ ہوتی تھی۔اس اعلانِ اسقلال پر انگریز حکومت چراغ پا ہو گئی اور بالآخر افغان انگریز جنگ ظہورپذیر ہوئی۔انھوں نے تدابیر جنگ میں پورا حصہ لیا اور ہرمحاذ میں جنوداللہ جماعت کے مخلص اور جانباز نمائندہ سرداروں کے ساتھ رہے، جن کی مساعی کی حکومت افغانیہ نے نہایت قدر کی۔فقط مشرقی محاذ پر کوئی نمائندہ نہ ہونے کی وجہ سے پسپائی کی نوبت آئی تاہم فتحیابی دولت افغانیہ کی رہی اور برطانیہ کو استقلال افغانستان تسلیم کرنا پڑا،اسی پر ہیمفرے سفیرِ برطانیہ کابل کہتا ہےکہ یہ فتح دولت افغانیہ کی نہیں، بلکہ عبیداللہ کی ہے۔"

    بات یہ ہے کہ حضرت سندھی ؒمحض کوئی روایتی عالم نہیں تھے، بلکہ وہ دور جدید میں دینی فکر کے بے مثال شارح کی حیثیت رکھنے کے ساتھ ساتھ مردمیدان بھی تھے۔گزشتہ سطور میں صرف چند واقعات افغانستان کے پس منظر میں بہ طور مثال کے بیان کئے گئے ہیں، ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ آپ کی پوری زندگی دین اسلام کے غلبہ اور سامراجی نظاموں کے خلاف مسلسل جدوجہد سے عبارت ہے۔ آج کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ہاں اس عظیم ہستی کی خدمات کا تذکرہ بہت کم موجود ہے۔

    آج افغانستان کی نسلِ نو جدوجہدِ آزادئ افغانستان میں مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے کردار سے ناواقف ہے۔یہی حال پاکستان اور ہندوستان کا بھی ہے۔ حال آں کہ مولانا عبیداللہ سندھی ؒافغانستان، ہندوستان اور پاکستان کے مشترکہ ہیرو ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم برعظیم پا ک و ہند و افغانستان کے نوجوانوں کو سامراجی غلبے کے نتیجے میں ان کے ذہنوں پر طاری مرعوبیت اور پستی سے نکالنے کے لیے امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی ؒ اور ولی اللہی قافلے کے دیگر بزرگوں کے فکروعمل سے متعارف کروائیں۔ تاکہ آج اس خطے پر سے سامراجی تسلط کو توڑ کر دین اسلام کی عادلانہ اور انسانیت نواز تعلیمات کی اساس پر تشکیل معاشرہ کی جدوجہد کاراستہ اختیار کیا جاسکے۔

    Share via Whatsapp