سلطان علاؤالدین خلجی کی ہندوستان میں سیاسی اور معاشی حوالے سے اقدامات
سلطان علاؤالدین خلجی کی ہندوستان کی ترقی کیلیے سیاسی اور معاشی حوالے سے اقدامات ۔۔۔۔۔۔
سلطان علاؤالدین خلجی کی ہندوستان میں سیاسی اور معاشی حوالے سے اقدامات
تحریر۔ یاسر علی سروبی،مردان
سلطان علاؤالدین ہندوستان میں خلجی خاندان کا دوسرا فرماں روا تھا۔
علاؤالدین نے1295 ء تا 1317ء کل 23 سال حکومت کی۔اس کے نظام حکومت میں شورائیت کا بڑا عمل دخل تھا اور کئی معاملہ فہم امیر، علماء اور صوفیاء کرام سے ملکی نظم و نسق کے حوالے سے راہنمائی اور مشورہ لیتا تھا۔
علاؤالدین خلجی جب تخت نشین ہوا تو ملک میں سیاسی حوالے سے بدامنی، ہنگامہ خیزی، معاشی حوالے سے عدم استحکام پیدا چکا تھا۔ یہ صورت حال اس لیے پیدا ہوئی کیونکہ خاندان غلاماں کے زوال کے بعد خلجیوں نے ملک کا نظم و نسق سنبھالا تو پہلے فرماں روا سلطان جلال الدین خلجی نے صرف سات سال حکومت کی جس میں مرکزی طاقت زیادہ مستحکم نہ ہوسکی۔ علاؤالدین اس وقت اودھ کا گورنر تھا تحت نشین ہونے کے بعد اس نے تمام امیروں سے مشورہ کیا کہ ملک میں اس صورتحال کے بنیادی اسباب کیا ہیں۔ امراء نے جواب دیا کہ ملک میں سیاسی اور معاشی عدمِ استحکام کا سبب عام طور چار چیزیں ہوا کرتی ہیں۔
اول۔ بادشاہ کا رعایا سے بالکل بے خبر رہنا آوراس کی بھلائی یا برائی کی پرواہ نہ کرنا۔
دوم۔ ملک میں شراب نوشی اور نشہ آور چیزوں کا عام رواج ہونا کیونکہ اس سے انسان کی نفسانی خواہشات میں شدت پیدا ہوتی ہے اور اس کی بد طینیتی کا مادہ ابھرنے لگتاہے۔ اسی کیفیت میں وہ صرف اپنی خواہشات کی تسکین کے لیے ملک دشمن حرکات کرکے اپنےہم خیال لوگوں سے مل کر ہنگاموں اور شورش کی آگ بھڑکاتا ہے۔
سوم۔ امراء اور اراکین سلطنت کا آپس میں گہرے مراسم رکھنا کیونکہ ذاتی مفاد کےلیے وہ ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔
چہارم۔مال دولتِ کی فراوانی اور عدم استحکام۔
جب علاؤالدین خلجی نے یہ اسباب اراکین سلطنت سے معلوم کیے، تو مشورہ سے ان خرابیوں کو دور کرنے کا ارادہ کیا اور اسی حوالے سے مندرجہ ذیل سیاسی اور معاشی اقدامات کیے
1 خفیہ خبر رسانی کا انتظام
رعایا سے باخبر رہنے کےلیے چاروں طرف معتبر جاسوس مقرر کیے ، ملک کے کونے کونے سے سلطان کو ہر اچھے اور برے حالات کی خبریں ملنے لگیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں ہر طرف امن و امان کا دور دورہ ہوگیا، تمام راستے پر امن ہوگئے ملک سے ڈاکوؤں اور چوروں کا صفایا ہو گیامسافر، تجارت پیشہ اور سوداگر چین وسکون سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکے۔ ہر کسی کی جان اور مال محفوظ ہوگئی۔
2 شراب نوشی پر پابندی
علاؤالدین نے اس سلسلے میں پہلا اقدام یہ کیا کہ محفل شراب نوشی کاانعقاد ختم کیا۔ عیش و عشرت کے تمام محفلیں برباد کر دی گئیں۔ شراب پینے کےلیےجو سونے،چاندی کے برتن استعمال کیے جاتےتھے، ان کو گلا کر سکے ڈھال کر شاہی خزانے میں جمع کردیے گئے۔ شراب کے تمام اڈے ختم کیے گئے اوراس کےلیے سخت سزا مقرر کی گئی جس سے عیش پسندی میں کمی آگئی اور عوام اجتماعی کاموں میں مشغول ہو گئے۔
3 امراء کے باہمی تعلقات پر پابندی
شاہی حکم کے ذریعے امراء اور درباریوں کو آپس میں بادشاہ کے حکم کے بغیر، رشتے ناتے کرنے پر پابندی لگادی گئی۔ایک دوسرے کی دعوتیں کرنے کا دستور ختم کردیا گیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اراکین سلطنت ایک دوسرے کےلیے بیگانے ہوگئےاور رعایا کی خدمت، اجتماعی کاموں کی تکمیل اور مفاد عامہ کےلیے سوچنے لگے۔
4 دولت کی تحدید
دولتِ کی فراوانی کو حتم کرنے کےلیے ضرورت سے زیادہ وہ مال دولت سے عیاشی پیدا ہوتی ہے جو خواص کے قبضے میں تھی شاہی تحویل میں لے لی گئی۔ اس کا نتیجہ معاشی استحکام کی صورت میں نکلا۔
5 مساوات کا دور دورہ
مندرجہ بالا اقدامات کے بعد علاؤالدین نے سلطنت میں ایسے معاشی قوانین جاری کیے جن کی رو سے ملک میں مساوات کا دور دورہ ہوا۔جس سے کمزروں اور طاقتوروں میں کوئی فرق باقی نہ رہا۔ملک کے امیروں کو عام لوگوں کے مقابلے جو امتیازات حاصل تھے، ختم کردینے گیے ۔زمین کی پیمائش کرکے پیداوار کا ضرورت سے زیادہ خزانے میں جمع کیا گیا۔
6 ضروریات زندگی کی ارزانی
اس کےلیے چند قواعد ایسے مرتب کیے جس سے ضروریات روز مرہ کی قیمتوں میں خاطرخواہ کمی ہوگئی، جس کی وجہ سے سپاہی کم تنحواہ پر بھی لشکر میں شامل ہوکر کام کرنے لگے اور عسکری قوت بھی مضبوط ہوگئی۔ دیگر اقدامات جن سے معاشی صورتحال بہتر ہوئی، مندرجہ ذیل تھے:-
قاعدہ نمبر1۔یہ قاعدہ غلے سے متعلق تھا۔ غلے کا نرخ حکومت کی طرف سے مقرر کیا گیاجو انتہائی کم تھا اور ملک میں یکساں طور پر مروج ہوتا۔ تاجروں کو اس میں کمی بیشی کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ یہی نرخ سلطان کی پوری تیئیس سالہ دور میں اپنی جگہ برقرار رہا یہ ان کا عجیب و غریب کارنامہ ہے کہ غلے کی قیمت 23 سال برقراررہی۔ اس کےلیے سلطان نے کچھ اہم ضابطے بنائے جن کی تفصیل یہ ہے
1۔ بازار میں نرخوں پر کڑی نظر رکھنے کےلیے آفسیرمقرر کیے۔
2 ۔سرکاری زمین پر جو محصول تھا اس کے تبادلے پر غلہ لیا جاتا اور محتلف علاقوں میں جمع کیاجاتا تاکہ اگر بازارمیں غلے کی کمی ہو جائے تو جمع شدہ غلہ منڈی میں لاکر شاہی نرخ کے مطابق بیچا جائے۔
3 ۔سارے ملک کی غلہ فروشوں کو جمع کرکے دریا جمنا کے کنارے آبادکیا گیا تاکہ ملک میں غلے کی پیداوار ایک ہی جگہ جمع کی جاسکے اور شاہی نرخ کے مطابق بیچی جاسکے۔
4 ۔ذخیر اندوزی پر سخت سزادی جاتی تھی اور جرمانہ سمیت غلہ بحکم سرکار ضبط کرکے شاہی خزانے میں جمع کیا جاتا ، نیز لوگوں کو حکم دیا گیا کہ ضرورت سے زیادہ جتنا بھی غلہ ہو اس کو کھیت کے اندر ہی فروخت کردیا جائے۔ عاملوں کو حکم دیا گیا کہ کھیت میں ہی قیمت ادا کرکے مال حاصل کریں اور ضرورت سے زیادہ نہ لے جانے دے۔ اس طرح ذخیرہ اندوزی کا سد باب ہو گیا۔
اس حوالے سے کوتاہی پر نظماء اور اہل کار کو سزا دی جاتی تھی۔ نیز قحط کے دونوں میں آدھا سیر زائد غلہ بھی اپنے گھر لے جانےکی اجازت نہ تھی۔ خلاف ورزی پر سزائیں مقرر کرکے اس کے تحقیقات کےلیے شاہی اہل کار مقرر کیے۔
قاعدہ نمبر 2. یہ کپڑوں کے متعلق تھا ۔کپڑوں کے ادنی سے لےکر اعلٰی قسم تک ان کی مناسب قیمتں مقرر کیے اس کےلیے مندرجہ ذیل ضابطے بنائے ۔
1 ۔ ایک بہت بڑی سرائے تعمیر کروائی گئی جسے "سرائے عدل" کا نام دیا گیا جسمں چاروں طرف سے کپڑے لا کر ایک ہی جگہ فروخت کیے جانےلگے۔ کسی اور بازار میں یا گھر پر اس کی تجارت ممنوع کی گئی۔
2.تمام سوداگران پارچہ کے نام رجسٹر میں لکھ دیے گئے اور ہدایت دی گئی کہ اسی سرائے میں اپنا مال سرکاری نرخ پر فروخت کرسکے۔
3. اگر کسی کو قیمتی کپڑا خریدنا ہو تو ایسے بازار کنٹرول کرنے والے سے اجازت لینا ہوگی تاکہ کہیں کوئی تاجر سرائےعدل سے قیمتی کپڑا خرید کر کسی اور بازار میں مہنگے داموں نہ بیچے۔
4. سوداگروں کی خصوصی امداد کی گئی تاکہ پارچہ کی صنعت ترقی کرے .
اسی طرح گھوڑوں اور باقی جانوروں جیسے گائے، بھینس، اونٹ، بکری وغیرہ کی خریداری کےلیے قاعدے اور ضابطے بنائے گئے اور اس کے لیے باقاعدہ آڈٹ اور جانچ پڑتال کا نظام متعارف کرایا گیا۔ اسی کی بدولت ملکی معیشت مضبوط ہو گئ جس سے " تنگے" (اس وقت کے) روپیہ کی قیمت بڑھ گئی۔ تنگے کا وزن ایک تولہ تھا یہ سکہ سونے اور چاندی دونوں سے بنایا جاتا تھا۔ چاندی کے تنگے کو " تنگہ نقرہ" کہا جاتا تھا۔ایک تنگہ نقرہ کی قیمت 50 جیتل (سکہ)تھی۔ جیتل کا وزن بھی پونےدو تولے تھا ۔ایک تنگہ نقرہ 126،500 پاکستانی روپے کے برابر تھی اس کے علاوہ سونے کے تنگے بھی تھے۔ سلطان علاؤالدین خلجی حضرت المشائخ حضرت محبوب الٰہی رحمتہ اللہ کے فیضان سے مستفید بھی تھا۔ علاؤ الدین خلجی کے دور میں عدل و انصاف کا بول بالا تھا۔ رعایا بہت خوش تھی یہ وجہ تھی کی ان کے عہد میں بہت زیادہ فتوحات ہوئیں ۔ان کے عہد میں بہت سے علماء و فضلاء، شعرا، مؤرخین اور ماہرین طب پیدا ہوئے اس لیے یہ سیاسی و معاشی اقدامات آگے چل کر ہندوستان کی مزید ترقی و خوشحالی کا باعث بنے۔نتیجتا ہندوستان سونے کی چڑیا بن گیا۔
لیکن بعد میں انگریز خون خوار درندوں نے اس کو ایک قحط زدہ ملک بنادیا اور اس کو بہت بے دردی سے لوٹا۔ ہندوستان جس کو یورپ میں سونے کی" چڑیا" کہا جاتا تھا. اس کی ترقی کی بنیادی وجہ مسلمان بادشاہوں کی عدل پر مبنی سیاسی اور معاشی اقدامات تھے۔ بقول کارل مارکس٫٫ جب مسلمان ہندوستان میں آئے تو ہندوستانیت کے رنگ میں رنگ گئے ،،اس خطے کو اپنا خطہ تسلیم کیا اور اس کی ترقی کےلیےدن رات ایک کردیے لیکن جب انگریز آئے تو انہوں نے کبھی بھی اس خطے کو اپنا نہیں مانا اور نہ ہی تسلیم کیا۔ بلکہ یہاں کی وسائل پر دونوں ہاتھ صاف کرکے یہاں کی دولت انگلستان بھیج دی۔ اس لیے تاریخ نے ظالم انگریز کی خولناک سفاکیوں، لوٹ کھسوٹ اور مسلمانوں کی فراخ دلی اور انسانیت دوست اقدامات کو اپنے سینے میں محفوظ کیا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارا نوجوان تاریخ کا اجتماعی نقطہ نظر سے مطالعہ کرکے ان ہندوستانی سلاطین و بادشاہوں کی عدل پر مبنی سسٹم کا مطالعہ کرکے اس انسانیت گیر اصولوں پر آج کے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ معاشرتی تشکیل کرکے اس خطے میں انگریزوں کے چھوڑے ہوئی استحصال پر مبنی غلامانہ نظام سے قوم کو آزادی دلائے ۔