علمی و سائنسی ارتقا میں مسلم دورِ حکومت کا کردار - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • علمی و سائنسی ارتقا میں مسلم دورِ حکومت کا کردار

    انسان کو تمام مخلوقات سے اشرف و افضل اس کی علمی، عقلی اور شعوری صلاحیت نے بنایا۔انسان کا پتھر کے دور سے۔۔۔۔

    By Rana Rafaqat Ali Published on May 06, 2025 Views 96

    علمی و سائنسی ارتقا میں مسلم دورِ حکومت کا کردار

    تحریر: رانا رفاقت علی۔بہاولپور 


    انسان کو تمام مخلوقات سے اشرف و افضل اس کی علمی، عقلی اور شعوری صلاحیت نے بنایا۔انسان کا پتھر کے دور سے آج کے ترقی یافتہ دور تک کا ارتقائی سفر عقل و دانش،سائنسی انقلابات اور تخلیقی علم کی وَجہ سے ممکن ہوا،جس میں مختلف ادوار کے اہل علم و فلاسفرز نے اپنا کردار ادا کیا۔قدیم علم و ادب مصر اور میسوپوٹامیہ (عراق) کی تہذیب سے ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے یونان تک پہنچا،جس میں سقراط،افلاطون اور ارسطونے سائنس،منطق اور سماجی نظریات پر فلسفیانہ بحث کی۔

    علم و ادب کی ترقی کا اگلا دور مسلم دورِحکومت کے عہد عباسی (750-1258)کو سمجھا جاتا ہے،جس میں آٹھویں صدی عیسوی کے آخر میں خلیفہ مامون الرشید کی سرپرستی میں بیت الحکمت جیسے علمی و تحقیقی ادارے کی بنیاد سے اس عہد تک کی مختلف زبانوں کے علوم کے عربی میں تراجم کا کام شروع ہوا۔ایک نسطوری عیسائی حنین بن اسحاق (809-873) اور ابو یوسف ابن اسحاق الکندی (805-873) نے ان علوم کے تراجم کے ساتھ ساتھ ان کی سائنسی تشریح بھی کی۔ابونصرالفارابی (870-950 ) مسلم فلسفی، ماہر موسیقی اور سائنس دان تھے۔انھوں نے یونانی فلسفے کی کتب پر شروح لکھیں۔انھیں 'معلم ثانی' (ارسطو ثانی) کہا جاتا ہے۔

    مسلمان سائنس دانوں نے علوم کی بنیاد تحقیق اور تجربات کی بنیاد پر رکھی اور دنیا کو علم کے نئے زاویوں سے روشناس کروایا،جس کی تفصیل جی ایچ ویلز اپنی کتاب A Short history of world میں بیان کرتے ہیں کہ" یونانیوں نے فلسفے اور منطق کو ترقی دی، مگر عملی سائنس میں وہ پیچھے رہ گئے۔مسلمانوں نے سائنس، طب اور فلکیات کو عملی شکل دی،جس کے بغیر جدید سائنسی ترقی ممکن نہ تھی"۔قرونِ وُسطیٰ کے اس دورِحکومت میں بے شمار مسلمان سائنس دانوں نے علوم و فنون کے فروغ میں کردار ادا کیا۔

    علم ریاضی ، فلکیات اور جغرافیہ

    محمد بن موسی الخوارزمی (790-850) نے علم ریاضی اور علم فلکیات میں نمایاں خدمات سر انجام دیں۔الخوارزمی کو فادرآف الجبرا اور الگورتھم کے اصولوں کا بانی کہا جاتا ہے۔یونیورسٹی آف سرے کے پروفیسر جم خلیلی کا دعویٰ ہے کہ الگورتھم کے بغیر کمپیوٹر نہ ہوتے اور الکلی کے بغیر کیمسٹری نہ ہوتی۔

    ابوریحان البیرونی (973-1040 ) نے زمین کے قطر (6339.6کلو میٹر)کی پیمائش کی۔نصیرالدین الطوسی (1201-1274) پہلے ریاضی دان تھے، جنھوں نے ٹریگنومیٹری کو الگ مضمون کے طور پر متعارف کرایا۔انھیں فادر آف ٹرگنومیٹری کہا جاتا ہے۔جابر بن سنان البتانی (958-1039 ) نے تحقیق کی کہ ایک سال 365 دن کا ہوتا ہے۔البتانی نے بطلیموس کی تحقیق کے نقائص واضح کیے اور ان کی تحقیق کو ایک محقق نیکولس کوپرنیکس نے بطور حوالہ پیش کیا۔ابوعبداللہ محمد بن الادریسی (1100-1165 ) دنیا کے پہلے جدید نقشے کے خالق تھے،جن کی کتاب 'کتاب الروجر' تین صدیوں تک یورپ اور مسلم دنیا میں علم جغرافیہ کا سب سے بڑا ذریعہ بنی۔

    علم طب و سرجری

    علی الحسین بن عبداللہ جسے دنیا ابن سینا (980-1037 ) کے نام سے جانتی ہے۔طب کے حوالے سے ایک کتاب'القانون فی الطب' صدیوں تک یورپ کے میڈیکل کالجز کے نصاب کا حصہ رہی۔انھوں نے 400 سے زائد کتابیں لکھیں اور انھیں' فادر آف ماڈرن میڈیسن' کہاجاتا ہے۔ابوالقاسم خلف بن عباس جسے دنیا الزہراوی (936-1013 ) کے نام سے جانتی ہے۔انھوں نے طب کے میدان سرجری میں کام کیااور انھوں نے 200 سے زائد سرجیکل آلات بنائے۔انھیں' فارد آف سرجری' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ابو بکر محمد بن زکریا الرازی (865-925)کی کتاب الحاوی کئی صدیوں تک یورپین درسگاہوں میں علم طب کے لیے مشعلِ راہ رہی۔علاؤ الدین ابوالحسن علی جنھیں دنیا ابن النفیس کے نام سے جانتی ہے۔انھوں نے گیلن کے قدیم یونانی نظریے کی تصیح کرتے ہوئے پلمونری سرکولیشن( خون کی پھیپھڑوں میں گردش کے حوالے سے ) سب سے پہلے تیرہویں صدی میں وضاحت پیش کی جو بعد میں جدید کارڈیالوجی کی بنیاد بنا۔

    علم طبعیات

    ابو علی الحسن جسے دنیا ابن الہیثم (965-1040 ) کے نام سے جانتی ہے۔

    انھوں نےقدیم یونانی فلاسفر ٹولمی کے نظریہ بصارت کو رَد کیا۔کتاب المناظر میں روشنی کی ریفلیکشن اور ریفریکشن کے اصولوں کی وضاحت کی۔پن ہول کیمرہ کا تصور دیا اور آپٹکس کے میدان میں انقلاب برپا کر دیا۔

    مکینیکل انجنئرنگ اور ربوٹکس

    بارہویں صدی میں اسماعیل بن الرزاز الجزری (1154-1206 ) نے اپنی کتاب 'الجامع بین العلم والعمل النافع فی صناعت الحیل' میں 50 سے زائد مختلف مکینکل آلات اور مشینوں کے ڈائیاگرام اور کام کرنے کے اصول بیان کیے۔الجزری کو مکینیکل انجینیرنگ اور روبوٹکس کا بانی کہا جاتا ہے۔دنیا میں پہلی بار مکینیکل اور ہائیڈرولک سسٹم کے تحت مساجد اور ہسپتالوں میں پانی کی سپلائی کا نظام متعارف کروایا۔الجزری نے مکینیکل انجنیرنگ، ہائیڈرولکس، نیو میٹکس اور گیرنگ سسٹمز کے تحت کئی آٹومیٹک مشینیں بنائیں، جن میں کیسل کلاک، ہاتھی کلاک، آٹومیٹڈ موسقی بجانے والی مشین،آٹومیٹد ہینڈ واش مشین (جس میں پانی اور صابن کی فراہمی خود بہ خود کی جاتی) مشہور ہیں،جن کا تفصیل سے تذکرہ ڈونلڈ ہل نےاپنی کتاب میں کیا ہے۔

    مسلم دورِحکومت کی کئی صدیوں پہ محیط علمی و سائنسی تحقیق کو اس مختصر تحریر میں سمیٹنا ممکن نہیں۔اس علمی و سائنسی تحقیق نے مسلم دورِحکومت میں سماجی ، معاشی اور معاشرتی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا۔اس دور میں صحت کی اچھی سہولتیں عام تھیں۔ایک ایسا جامع نظام تعلیم موجود تھا، جس کے ذریعے طلبا ایک ہی جگہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد فلسفی،طبیب،سائنس دان اور دینی علوم کے ماہر ہوتے تھے۔جیسا کہ (بہ ظاہر) ایک مذہبی و روحانی شخصیت امام جعفر صادق (712-815)کے دو شاگرد امام مالکؒ اور امام ابو حنیفہؒ اپنے دور کے فقہ (قانون) کے ماہر اور ایک شاگرد جابر بن حیان کیمیا دان بنے اور فادر آف کیمسٹری کہلائے۔

    یورپ کی نشاہ ثانیہ

    مسلم دورِحکومت میں یہ علمی اور سائنسی کام اس وقت ہو رہا تھا، جب یورپ اپنے 'تاریک دور' سے گزر رہا تھا اور تاریخ عرب کے مصنف فلپ کے مطابق 'جب مسلمان قرطبہ، بغداد اور دمشق میں فلکیات، ریاضی پر کتابیں لکھ رہے تھے، اس وقت یورپ کے بادشاہ جیسے شارلیمان لکھنے پڑھنے سے بھی ناآشنا تھے۔اس دور میں یورپ میں چرچ کے ماتحت ابتدائی درجے کی تعلیم جاری تھی۔آج ریسرچ اور تحقیق کا مرکز سمجھی جانے والی آکسفورڈ یونیورسٹی کی بنیاد گیارہویں صدی کے آخر  1096ء میں رکھی گئی اور ایک طویل عرصے تک اس جامعہ میں صرف مذہبی کلیسائی فرقہ وارانہ تعلیم دی جاتی تھی۔اور سائنسی علوم کو مذہبی تعلیمات کے خلاف سمجھا جاتا تھا۔

    بارہویں اور تیرہویں صدی عیسوی میں مسلم دورِحکومت میں فلسفہ، طب ،ریاضی اور سائنس دانوں کے مختلف شعبوں میں علمی و سائنسی کام اور ان کی کتابوں کے عربی سے لاطینی زبان میں تراجم اندلس میں ہوئے۔یہ تراجم یورپ کی جامعات تک پہنچے۔جارج سارٹن اپنی کتاب انٹروڈکشن ٹو دی ہسٹری آف سائنس میں بیان کرتے ہیں کہ 'ابن سینا، الرازی، الخوارزمی، البیرونی اور ابن رشد جیسے مسلمان دانش وروں کے علمی کام صدیوں تک یورپی تعلیمی نصاب بہ شمول آکسفورڈ اور پیرس یونیورسٹی کا بنیادی حصہ رہے'۔

    روجر بیکن (1219-1292 ) آکسفورڈ کے ان اولین سکالر ز میں سے تھے، جنھوں نے چرچ کے سخت رویے کے باوجود سائنسی اور تجرباتی علوم کی اہمیت پر بات کی۔آکسفورڈ یونیورسٹی کے پہلے سائنسی مفکر سمجھے جانے والے روجر بیکن نے ابن الہیثم کے تجرباتی کام سے راہ نمائی لی۔"روجر بیکن اور قرونِ وُسطیٰ کے تمام ماہرین بصریات خاص طور پر وایٹلو کی تحریریں ابن الہیثم کی تصنیف'کتاب المناظر' پر ہی مبنی ہیں۔کتاب المناظر نے لیونارڈو-ڈی-ونچ اور کیپلر کو بھی خوب متاثر کیا " (لیگیسی آف اسلام، میکس میئرہوف)۔

    قرونِ وُسطیٰ کے مسلم عہد حکومت کی اس علمی و سائنسی ترقی نے مغرب کے گھٹاٹوپ اندھیروں کو علم کے اجالوں سے بدل دیا۔روبرٹ بریفالٹ(1811-1882) اپنی کتاب دی میکنگ آف ہومینیٹی میں لکھتے ہیں کہ 'یورپی جامعات میں اسلامی سائنسی ورثے کو اپنانا یورپ کی نشاہ ثانیہ کی بنیاد بنا۔آکسفورڈ میں خاص طور پر ابن سینا،الرازی، البیرونی اور الادر یسی کے کاموں کو نصاب میں شامل کیا گیا' جو مغرب کی علمی بیداری کی بنیاد بنے۔

    جس فکر و فلسفہ نے انسانیت کی بنیاد پہ بلاتفریق مذہب،نسل،رنگ اقوامِ عالم کی راہ نمائی کی اور انھیں صدیوں تک امن،عدل اور معاشی خوش حالی کا نظام دیا وہ قرآنی تعلیمات کی شکل میں آج بھی موجود ہیں۔آج زیادہ تر مسلم معاشروں نے ان تعلیمات کی اصل روح اور حکمت کو پس پشت ڈال کر صرف کچھ رسوم تک محدود کر لیا اور عصری تقاضوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔

    آج ہمارے معاشرے میں نوآبادیاتی دور کا طبقاتی نظام تعلیم ہمارے نوجوان کو جذباتی، انفرادیت پسند اور عدم برداشت کے رجحانات کا حامل بنا رہا ہےاور اس کا ذہن اجتماعی اور قومی سوچ سے عاری ہورہا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارا نوجوان اجتماعی اور شعوری بنیادوں پر تاریخ کا مطالعہ کرےاور یورپ سے مرعوب ہوئے بغیر اپنے فکر و فلسفہ پر اجتماعیت قائم کرے۔نیز دین اسلام کے سماجی تشکیل کے جامع اور ہمہ گیر اصولوں کی بنیاد پر اپنا نظام تشکیل دے،تاکہ انسانیت اخلاقی و مادی ترقیات سے ہمکنار ہو۔

    Share via Whatsapp