انسانی معاشروں کے عروج و زوال تجزیہ
انسان مدنی الطبع (Man is Social by Nature) ہےاور نارمل زندگی گزارنے کے لیے اسے معاشرے، سماج اور تمدن کی تشکیل کی ضرورت ہوتی ہے۔

انسانی معاشروں کے عروج و زوال تجزیہ
تحریر: فہدمحمدعدیل۔ گوجرانوالہ
انسان مدنی الطبع (Man is Social by Nature) ہےاور نارمل زندگی گزارنے کے لیے اسے معاشرے، سماج اور تمدن کی تشکیل کی ضرورت ہوتی ہے۔ انسانی تمدن کی اسی تاریخ میں کئی ایسی مثالیں موجود ہیں، جن میں انسانوں نے مجموعی طور پر ترقی کی منازل طے کیں۔ معاشرے کے اکثریتی طبقات نے معاشی خوش حالی، شفافیت، اخلاقی دیانت داری، خدمت خلق، قانونی حکمرانی، امن عامہ کے قیام اور شعوری اعتبار سے ذہنی بلندی و تعلیم و تعلم میں ترقی جیسے اخلاق نمایاں کیے۔ ایسے معاشرے تاریخ میں عروج پر فائز، ترقی یافتہ یا ترقی پذیر کہلاتے ہیں۔
تاریخ میں ایک دوسری بڑی مشترک مثال ہر فکر اور غلبے کے دور کی بھی ملتی ہے۔ مثال کے طور پر، اسلام کے فکر کے غلبے کا ایک ایسا ہی دور آیا، جس نے معاشرے کی اَزسر نو شیرازہ بندی کی۔ عہدنبوت ﷺ اور خلافت راشدہؓ کا دور ایک مثالی معاشرے کی عملی تصویر پیش کرتا ہے۔
اسلام کے فلسفۂ توحید اور وحدتِ انسانیت نے معاشروں کی ترتیب و تدوین کو بدل کر رکھ دیا۔ اخلاقی اور شعوری حوالے سے بلند ہمتی، رواداری، عزم و استقامت، استقلال و جرأت کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ اگر معاشی حالات کا جائزہ لیا جائے تو خوش حالی، طمانینت، اعلیٰ روزگار، منصفانہ کاروباری مواقع، بلکہ یہاں تک کہ معاشرے میں زکوٰۃ لینے والا کوئی نہ رہا۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ معاشرہ اس قدر خوش حال ہوچکا تھا کہ کوئی مسکین باقی نہ رہا (خوش حال سوسائٹی کی تعریف یہ ہے کہ باشندگانِ ملک کی تمام جائز ضروریات بطریقِ احسن پوری ہورہی ہوں) سب سے بڑھ کر ایک ایسا معاشی نظام موجود تھا، جس میں محنت — خواہ جسمانی ہو یا ذہنی — کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ حکمرانی کے اعتبار سے امن و امان کا قیام، عدل و انصاف پر مبنی سیاسی نظام، مساوات، قانون کی حکمرانی اور حکمرانوں کے احتساب کی روشن روایات جابجا نظر آتی ہیں۔ معاشرتی طور پر انسانوں میں بلاتفریق ذات، پات، مذہب و ملت رواداری، جذبۂ ایثار اور قیادت کی اعلیٰ خصوصیات جیسے اوصاف کا پیدا ہونا، اسلام کے آفاقی افکار و نظریات ہی کی بدولت ممکن ہوا۔
اس کے برعکس، اسلام کے انقلاب (تبدیلی) سے پہلے اور بعد میں بہت سی ایسی اقوام اور معاشروں کی مثالیں موجود ہیں، جن کے شعور تاریخ کے اجتماعی تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اجتماعی رویے اخلاقی و شعوری لحاظ سے مفاد پرستی، انحطاط و گراوٹ، فکری انتشار، معاشرتی مقصد کا فقدان، غیرمعیاری تعلیم و تعلم، فرقہ واریت، ذات پات و عصبیت کے فرسودہ نظریات، اندھی تقلید، بے روح رسوم و رواج، عدم برداشت، جھوٹ، فریب، دھوکا دہی، مذہبی انتہاپسندی، جنونیت، تکبر اور ریاکاری پر مبنی ہوتے ہیں۔
معاشی حوالے سے عدمِ مساوات، غربت، بے روزگاری، دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم، امارت و غربت میں شدید تفریق، طبقاتی سرمایہ داری، سرمایہ پرستی، محنت و سرمایہ میں توازن کا فقدان، احتکار و اکتناز اور اکثریتی طبقات کا بنیادی حقوق سے محروم ہونا نمایاں مسائل ہیں۔ سیاسی میدان میں عدم استحکام، قانون کے "آہنی شکنجے" کا اطلاق صرف غریبوں پر، دہشت گردی، خوف، قتل و غارتگری اور عمومی بدامنی جیسے مفاد پرستانہ رویے اُن معاشروں کی علامت ہیں، جنھیں ماہرین تاریخ و عمرانیات "زوال پذیر"، "انحطاط یافتہ" یا "فرسودہ معاشرے" قرار دیتے ہیں۔
اس سارے منظرنامے میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ معاشروں میں وہ مثبت رویے جو انھیں بامِ عروج تک لے جاتے ہیں، یا وہ منفی اجتماعی رویے جو ان کی تقدیر کو زوال میں بدل دیتے ہیں — کیا یہ کسی خاص اصول، ضابطے یا قاعدے کے پابند ہوتے ہیں یا ہر عروج کے بعد زوال اور ہر زوال کے بعد عروج خودکار طریقے سے آتا ہے؟
ہمارے معاشرے میں یہ رائے عام ہے کہ ہر عروج کو زوال ضرور آتا ہے، لیکن تاریخی تناظر، ماہرینِ عمرانیات و تاریخ اور قرآنِ حکیم (جو رشد و ہدایت کا سرچشمہ ہے) ایسی کوئی مثال پیش نہیں کرتے، بلکہ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ معاشرتی عروج و زوال مخصوص قوانین کے پابند ہوتے ہیں۔ اگر اقوام کے باشندے ان قوانین پر اجتماعی طور پر عمل کریں تو وہ عروج و ترقی سے ہم کنار ہوتے ہیں اور جب تک ان اصولوں پر عمل پیرا رہتے ہیں، ترقی کو استحکام حاصل رہتا ہے۔ اس کے برعکس، ان اصولوں سے انحراف اور پہلو تہی معاشروں کو قعرِ مذلت میں گرا دیتی ہے۔
ان اصولوں، قاعدوں، ضابطوں اور افکار و نظریات کو سمجھنا اور ان پر غور و فکر کرنا معاشرے کے باشعور طبقات کی ذمہ داری اور ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ہم اس کی مثال قرآنِ حکیم کے فرمودات میں تلاش کریں تو سورۃ النجم، آیت نمبر 39 میں ارشاد ہے:
"اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں ہے، مگر وہی کچھ جس کی اس نے کوشش کی ہوگی"۔
اسی طرح سورہ الرعد، آیت نمبر 11 میں فرمایا گیا:
"اللہ تعالیٰ کسی قوم کی (اچھی) حالت کو اس وقت تک نہیں بدلتا، جب تک وہ اپنے اوصاف خود نہ بدل لیں"۔
اور سورہ محمد، آیت نمبر 38 میں فرمایا:
"اور اگر تم منہ پھیرو گے تو وہ تمھاری جگہ اور لوگوں کو لے آئے گا، اور وہ تمھاری طرح کے نہیں ہوں گے"۔
متذکرہ بالا آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فطری اصول اور قوانین مقرر فرمائے ہیں اور جو قوم اجتماعی طور پر ان اصولوں پر عمل کرتی ہے، وہ کامیاب ہوتی ہے، جب کہ جو ان سے انحراف کرتی ہے، وہ ناکام ٹھہرتی ہے۔ سورۃ الفاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے "منعَم علیہ" (یعنی وہ لوگ جن پر انعام کیا گیا) اور "مغضوب علیہ" (یعنی وہ لوگ جن پر غضب نازل ہوا) کے فرق کو نمایاں کیا ہے۔ اسی طرح سورۃ العصر میں عروج کی طرف گامزن معاشروں کی خصوصیات بیان کی گئی ہیں۔ اس سورہ مبارکہ میں ایمان باللہ، عملِ صالح، تواصی بالحق اور تواصی بالصبر جیسے 4 آفاقی اصولوں کا تعارف کروایا گیا ہے۔
1۔ ترقی یافتہ معاشروں کی قیادت اور عوام مل کر اپنی منزل کا تعین کرتے ہیں، جسے قرآن نے "ایمان" سے تعبیر کیا ہے۔
2۔ اس منزل کے حصول کے لیے معاشرے جو اجتماعی جدوجہد اور کاوش کرتے ہیں، اسے قرآن نے "عملِ صالح" کا عنوان دیا ہے۔
3۔ اس جدوجہد میں نظم و ضبط (تنظیم) قائم رکھنے اور سچائی پر قائم رہنے کی روح کو مفسرین نے "تواصی بالحق" سے تعبیر کیا ہے۔
4۔ جب کہ عدل و انصاف کے قیام اور ظلم و جبر کے خاتمے کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات پر حکمت عملی اپنانے کو "تواصی بالصبر" کہا گیا ہے۔
مندرجہ بالا گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ معاشرے عروج کی منازل قوانین اور اصولوں کی پابندی سے حاصل کرتے ہیں، اور انھی قوانین سے انحراف انسانوں کے اجتماع کو ذِلت اور نکبت میں دھکیل دیتا ہے۔ یہی اللہ تبارک و تعالیٰ کی سنت (غیرمبدل قوانین قدرت) ہے، اور اسے سمجھنا آج کے نوجوان کی ایک اہم ذمہ داری ہے۔