انسانی زندگی میں تجربہ کی اہمیت
تیسری دنیا جس میں بالعموم مسلمان اقوام کی کثرت ہے کا سائینس اور ٹیکنالوجی میں ترقی نا کرنا یورپی اقوام کے مسلط کردہ نو آبادیاتی نظاموں کا شاخسانہ ہے

تحریر: محمد خورشید۔ بہاولپور
ہمارے مسلم سائنس دانوں کا یہ سلوگن تھا(تجربہ کرو، تاکہ تم چیزوں کو جان سکو)جو اَب گم گشتہ ہے، جب کہ اس حوالے سے دو انتہائی رویے اور ہمارا سلوگن۔
1۔ مسلمان سائنس کے دشمن ہیں، یہ جب تک ٹیکنالوجی میں ترقی نہیں کرتے اسی طرح ذلیل ہوں گے اور یہ کبھی ٹیکنالوجی کی طرف آہی نہیں سکتے۔( یورپ سے متاثرہ ذہن کا نقطہ نظر)
2۔ سائنس تو ہے ہی کفر، ہمیں صرف مذہبی تعلیم حاصل کرنی چاہیے اور آخرت کی فکر کریں۔(رجعت پسند مذہبی ذہنیت کا نقطہ نظر)
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہر دور کے جدید علوم، سائنس و ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرنا،تاکہ انسانیت کی بھلائی ہو سکے اور انھیں ظالم سے محفوظ و مامون کیا جاسکے۔ اَزحد ضروری ہے۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاسی آزادی کے نتیجے میں معاشی استحکام آتا ہے اور معاشی استحکام ہی اقوام کو ترقی و ارتقا کے نت نئے راستے سجھاتا ہے۔ اسی لیے مقولہ ہے کہ "جس گھر میں خوش حالی ہو، اس کے کم ذہن بھی عقل مند ہوتے ہیں"۔
ہوا یہ کہ عرب جنگجو اور اُمی تھے، ان میں قرآن آیا اور نبی اکرم ﷺنے انھیں قرآن سمجھایا تو 23 سالوں میں اہل دانش کی ایک جماعت تیار ہوگئی، جس نے اولاً عربوں کو اور ثانیاً عجمی اقوام کو انھی کے ظالم حکمرانوں سے آزادی دِلوا کر انھیں انسانیت سے ہمکنار کیا(کیوں کہ انسان کی ایک ہی پہچان ہے اور وہ ہے فکری، سیاسی و معاشی آزادی) جب یہ اقوام معاشی و سیاسی طور پر آزاد ہوئیں تو انھیں کم و بیش ایک صدی لگی کہ وہ فکری طور پر آزاد ہوسکیں۔اسی لیے نظامِ اسلام کے قیام کے ابتدائی 100 سالوں میں دینی فکر کی کسٹوڈین جماعت کی پوری توجہ قرآنی افکار پر رہی اور جن اقوام سے ان کا پالا پڑتا گیا، ان کے افکار کی چھان پھٹک کر کے انسانی فلاح کے نقطہ نظر سے رَد و قبول پر تمام صلاحیتیں مرکوز رہیں۔ اتنا ہی نہیں، بلکہ علوم وافکار کی چھان پھٹک کے بھی باقاعدہ اصول وکلیات پر مبنی نئے علوم دریافت کیے جو فلسفہ و افکار کی دنیا میں آج بھی اتنے ہی مستعمل ہیں، جتنے کہ دریافت کے زمانے میں تھے۔
جب انسانیت عامہ نے فکری آزادی کی منزل حاصل کر لی، تب مسلمان معاشروں میں انسانی مادی ارتقا کے علوم پر کام ہونا شروع ہوا تو چند ہی سالوں میں فکری آزادی پر مبنی انسانی اجتماع نے وہ سائنس دان پیدا کیے کہ جن کے ترتیب دیے ہوئے سائنسی اصولوں اور ابتدائی دریافتوں پر آج کی جدید سائنس و ٹیکنالوجی کی فلک شگاف عمارتیں کھڑی ہیں۔انسانی ترقی ایک ریلے اور ریس کی طرح ہے، جب کہ افکار و خیالات،اخلاقیات و مادیات کی ترقی اس ریس میں دوڑنے والی قوم کے ہاتھ میں اس چھڑی (Baton) کی مانند ہے جو دوڑنے والا اپنے اگلے ساتھی کو تھما دیتا ہے۔اسلام کے ایک ہزار سالہ دور میں ایسا ہی ہوا۔ ریس کی یہ چھڑی جماعتِ صحابہؓ سے بنو امیہ ، بنو امیہ سے بنوعباس اور بنوعباس سے بنوعثمان اور ہندستانی حکمران خاندانوں میں آتی رہی اور یہ اپنے حصے کا سفر طے کرتے چلے گئے۔ ایک خاندان تھکتا تو دوسرا اس چھڑی (Baton) کو تھامتا اور اگلے سفر کا راہی بن جاتا۔سپین میں بنوامیہ کی 700 سالہ حکومت کے ذریعہ علم و دانش اور سائنس و ٹیکنالوجی کی یہ چھڑی یورپی اقوام کو منتقل ہونا شروع ہوئی تو وہاں بھی علمی تحریکات نے جنم لیا، لیکن بدقسمتی سے ان تحریکات کا ثمر یورپی عوام کے بجائے سرمایہ پرست گروہوں نے چن لیا کہ وہاں کے مذہبی راہ نماؤں نےآج کی تیسری دنیا کے مذہبی راہ نماؤں کی طرح عوام میں علم دشمنی کی ذہنیت مذہبی عقیدے کے طور پر راسخ کر رکھی تھی۔
یورپ کے سرمایہ دار طبقات نے اخلاقیات کو مذہب کا نام دے کر اپنے معاشروں سے بے دخل کیا اور سائنس کو خالص مادی نقطہ نظر سے اختیار کر لیا، اسی لیے انھوں نے اس وقت ان علوم سے انسانی فائدے کی دریافتیں کرنے کے بجائے انسانی قتل عام کے آلات دریافت کیے اور جو بہ ظاہر انسانی فائدے کے تھے بھی، تو ان پر ایک مخصوص طاقت ور طبقہ قابض ہوکر استحصال کی راہ پر چل نکلا، تاہم یورپ میں اس بنیاد پر کسی حد تک سیاسی استحکام پیدا ہو،ا لیکن اس میں طبقاتی جبر کا پہلو نمایاں تھا۔
یورپی حکمران طبقات نے سب سے پہلے سپین میں موجود اپنے محسن مسلمانوں کی نسل کشی کی، وہاں سے دولت لوٹی اور یوں اس کی بنیاد پر مشین ایجاد کر کے وہ دنیا، افریقا اور ایشیائی اقوام پر پل پڑے۔ کیوں کہ یہاں بالعموم اقوام اپنے تکوینی دور سے گزرتے ہوئے سیاسی کمزوری کا شکار تھیں اور نئے دور کی سیاسی شیرازہ بندی کی انقلابی تحریکیں ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں تھیں یورپین اقوام نے ان اقوام کو اپنی آبادیاں بنایا ان پرجو ظلم اور جبر ہوسکتا تھا کیا، اور یہاں کی دولت لوٹ کر اپنے ملکوں میں لے گئے۔ آج وہاں جو چمک دمک ہے وہ انھی افریشیائی اقوام کے خون اور دولت کی ہے، وہاں کی جتنی سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی ہے وہ ان افریشیائی اقوام کی دولت کے بغیر ممکن نہ تھی۔ لہٰذا یہ کہنا کہ عصر حاضر میں مسلمانوں نے سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں کچھ نہیں کیا،آدھا سچ ہے۔ مکمل سچ یہ ہے کہ یورپ نے ان کی دولت لوٹ کر نوآبادیاتی نظامِ تعلیم ، سیاسیات و معاشیات نافذ کر کے انھیں مفلوج کیا۔ یہ اقوام پیدائشی معذور و مفلوج نہیں۔اس لیے یورپ کے بیانیے کہ "گندمی یا کالی اقوام تو ہیں ہی مفلوج" سے مرعوب ہونے کے بجائے قوم کو سیاسی و معاشی آزادی دِلوا کر فکری آزادی دینا ہی وہ واحد راستہ ہے، جس پر چل کر ہم سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقیات کا اگلا سفر انسانیت عامہ کی فلاح کے لیے کر سکتے ہیں۔
حاصل مطالعہ
1۔ کوئی الٰہی مذہب سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقیات کے خلاف نہیں۔
2۔ سیاسی آزادی اور معاشی استحکام کی جد و جہد کی جائے،تاکہ قوم کو قومی نظام تعلیم کے ذریعہ فکری ژولیدگی سے نکال کر اعلیٰ اخلاقیات کی بنیاد پر سائنس و ٹیکنالوجی کی طرف لایا جا سکے۔
3۔ یورپ کے مخصوص سرمایہ پرست طبقات سے سائنس و ٹیکنالوجی کا قبضہ چھڑایا جائے، تاکہ سائنس کے انسانیت دوست کردار کو اُجاگر کیا جاسکے۔