پاکستان اور ہم سفر ممالک - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • پاکستان اور ہم سفر ممالک

    کسی بھی ملک کی بانی جماعت اس ملک کی اجتماعی ترقی کی ضامن ہوتی ہے.

    By محمد حارث خان یوسفزئی Published on Aug 06, 2019 Views 3931
    پاکستان اور ہم سفر ممالک
    تحریر محمد حارث خان یوسفزئی

    آزادی ایک ایسی نعمت ہے جو اگر کسی قوم کو حقیقتاً میسر آ جائے تو وہ قوم ترقی کے منازل طے کرتی ہوئی اوج ثریا کو پہنچ جاتی ہے. لیکن جو قوم آزادی کے معنی سے ہی ناآشنا ہو، غلامی اور آزادی میں فرق کو ہی نہ سمجھتی ہو، وہ خس و خاشاک کی مانند ہوتی ہے کہ جہاں ہوا کا رخ ہوا، اڑ گئی.
    آغاز میں مسلم لیگ نے برعظیم پاک و ہند کے اندر رہتے ہوئے مسلم اکثریتی ریاست کے حوالے سے جدوجہد کی لیکن جیسے ہی ہوا کا رخ بدلا یا بدلا گیا، لیگ نے دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ایک علیحدہ مملکت بنانے کا اعلان کر دیا، جو برطانیہ سے آزادی لے کے پاکستان کی صورت میں ہمارے پاس ہے اور یقیناً اب ہمارا وطن بھی یہی ہے. آج ہم یہاں پاکستان کے ساتھ ساتھ تذکرہ کریں گے ان ممالک کا جو ہمارے بعد آزاد ہوئے. یا یوں سمجھ لیجیے کہ جن ممالک کا سفر ہمارے ساتھ یا بعد میں شروع ہوا اور اپنے ملک کو آزادی دلانے والی قیادت کے بل بوتے پر کتنا آگے نکل گئے ہیں.
    فٹبال ورلڈ کپ میں مشہور ہونے والا ملک کروشیا 1991 میں آزاد ہوا اور اس سے پہلے 3,4 ممالک کے زیر انتظام رہا ہے. آزادی سے پہلے کروشیا نے مختلف جنگوں میں  اتنی جانوں کا نقصان اٹھایا ہے کہ آج اس ملک کا اہم مسئلہ آبادی میں کمی ہے، آزاد ہونے کے بعد بیشتر مسائل جن میں کرپشن، غیر فعال عدلیہ، زمینوں کی تقسیم کے معاملات، گری ہوئی معیشت وغیرہ وغیرہ شامل تھے، ایک بڑا چیلنج تھا. معیشت کو مختلف کیمیکل فیکٹری، آئی ٹی سیکٹر، ٹمبر فیکٹریز اور فارماسیوٹیکل لگا کر کھڑا کیا گیا، یقیناً فیکٹریاں کم تھیں لیکن سمت درست تھی. سیر و سیاحت کو دوبارہ عروج دیا گیا 1 ہزار سے زائد جزیرے بھی کروشیا کے پاس ہیں. نظام میں موثر تبدیلی لا کر قومی بنیاد پر عوام کو ایک کروشیا ایک تعلیم کے ساتھ منسلک کر کے ترقی کے سفر کا آغاز کیا. جس کا نتیجہ آج وہاں 99 فیصد شرح خواندگی ہے، 400 ملین یورو سائنسی تحقیق و ترقی میں خرچ کئے گئے. صحت کے معاملے میں دنیا میں 36واں نمبر ہے. انسانی ترقیاتی اشاریہ میں 45واں نمبر ہے. اور اگر (ppp ) مساوی قوت خرید (per capita ) کی بات کریں تو 25800 ڈالر کے ساتھ 56واں نمبر ہے. یورپی یونین میں شامل یہ ملک تیز رفتاری سے ترقی کا سفر کر رہا ہے.
    1991 میں ہی آزاد ہونے والا ایک اور ملک جس پر سکندر اعظم نے حکومت کی، اموی، عباسی، غزنوی، صفوی حکومتوں کا حصہ رہا، اور آخر میں سوویت یونین کا حصہ بنا،  اس کی تاریخی اہمیت بھی حد درجہ ہے، اور مسلمان ملکوں میں پہلی پارلیمانی ریاست ہونے کا شرف بھی اس کوحاصل ہے. ہم بات کر رہے ہیں آزربائیجان کی. آزادی کے بعد انتہائی مختصر آبادی، گری ہوئی معیشت، ناسازگار حالات، کمزور دفاع اور پڑوسی ملک سے جنگ جیسے چیلنج درپیش تھے. ان کے حل کے لیے آزربائیجان نے 4 سال تمام  ممکنات کا جائزہ لیا اور ایک نیا آئین ترتیب دیا جو آج تک قائم ہے، وہاں یک ایوانی قومی اسمبلی ہے تاکہ قانون بنانے والے ہی اس کو پاس بھی کریں. آزربائیجان نے مختلف ممالک سے جن کی تعداد 158 ہو چکی ہے، سفارتی تعلقات کو تقویت بخشی اور مختلف تنظیموں میں شمولیت اختیار کی. آذربائیجان نیٹو کے پروگرام "امن معاہدے " کا بھی سرگرم رکن ہے. اور کیمیائی ہتھیاروں پر پابندی کی تنظیم کا بانی رکن بھی ہے.افواج کے تمام شعبے یہاں موجود ہیں. کچھ سال پہلے تک اس کے دفاعی اخراجات 871 ملین ڈالر یعنی 870 کروڑ 10 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئے ہیں. آزادی کے بعد آذربائیجان نے یورپی بینک برائے تعمیر و ترقی، اسلامی ترقیاتی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی رکنیت حاصل کی. تعلیم کا عالم یہ ہے کہ شرح خواندگی 99.5 فیصد ہے. مساوی قوت خرید (per capita) کی فہرست میں 17850 ڈالر کے ساتھ 71واں نمبر ہے.
    قیامت تک قائم رہنی والی ریاست کا دعویدار ملک جب 1971 میں ٹوٹ گیا تو اس عمل سے جو ملک وجود میں آیا وہ بنگلہ دیش تھا. ہماری شدت پسند تنظیموں نے وہاں منفی کردار ادا کیا، ان کے ساتھ وہ سلوک کیا جو کسی جانور کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا، انہوں نے آزادی لی اور اپنے پیروں پر کھڑا ہونا سیکھا اور ہمارا ایک محاورہ "ٹکہ کے اوقات" اب محض محاورہ رہ گیا ہے کیونکہ وہی ٹکہ روپے کی نسبت بھاری ہے. 2016 کی دنیا میں دوسری تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشت، برصغیر کا دوسرا بڑا فنانشل سیکٹر، 36 ارب ڈالر کی ایکسپورٹ کرنے والے بنگالی ٹیکسٹائل، گارمنٹس، لیدر، فارما، کیمیکل، جوٹ پراڈکٹس جیسی انڈسٹریز لگا کر 60 % عوام کو غربت سے نکال چکے ہیں، اور آج صرف 12% عوام سطح غربت سے نیچے ہے، لیکن مستقبل قریب میں اس پر بھی قابو پا لیا جائے گا. بے روزگاری کی شرح 4% ہے. بنگلہ دیش نے اپنے ہاں شدت پسند طبقے کے نمائندوں کو پھانسی لگا کر یہ بھی باور کرایا کہ دہشت گرد مائنڈ سیٹ کی ان کے ہاں کوئی گنجائش نہیں. ملک کو ترقی کی طرف گامزن کرنے کے لیے ایسے نڈر فیصلے لینا پڑتے ہیں.
    1965 میں ایشین ٹائیگر یعنی سنگاپور کو آزادی ملی، اور اس کے بعد سنگاپور نے آج تک پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، بیک وقت سنگاپور عالمی طور پر ایک تجارتی، تعلیمی، فنانس، سیاحتی اور ٹرانسپورٹ کا مرکز ہے. عالمی تقابلی فہرست میں دنیا میں تیسرا نمبر، ٹیکنالوجی کے حوالے سے دنیا کا سب سے سمارٹ اور رہائش کے حوالے سے دنیا کا محفوظ ترین ملک ہے. تیسری بڑی فارن ایکسچینج، تیسرا بڑا فنانشل سینٹر، دوسرا مصروف ترین کنٹینر پورٹ، دنیا کا بہترین ائیر پورٹ اور سب سے بہترین ائیر لائن ، مساوی قوت خرید میں 98000 ڈالر فی کس کے ساتھ تیسرا نمبر، انسانی ترقیاتی اشاریہ میں پانچواں نمبر ، 188 ممالک میں بغیر ویزہ داخلہ اور بھی بہت سی فہرستوں میں سنگاپور پہلے دس میں ہی ملے گا. بہترین صحت کے اعتبار سے ایشیا میں پہلے اور دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے، کرپشن میں بھی انتہائی کم درجے پر کھڑے اس ملک میں 53 سال سے ہر الیکشن ایک ہی پارٹی کامیاب ہوتی آ رہی ہے. شرح خواندگی 96 فیصد اور شرح بے روزگاری 2 فیصد ہے. اس ملک کی ترقی کے پیچھے ایک لوک پال بل کا تذکرہ کیا جاتا ہے، دوستو! میں بتاتا چلوں کہ ایسا کوئی بل سنگاپور میں پاس ہی نہیں ہوا. وہ ایک جھوٹا میسج ہے. سنگاپور جو آج ہے اپنی پالیسیوں کی وجہ سے ہے.
     آسٹریا ہٹلر کی جائے پیدائش ہے . آسٹریا 1955 میں ایک آزاد ریاست کے طور پر سامنے آیا، جنگ عظیم اول و دوم دونوں میں اس ملک کا کردار رہا ہے، اور جنگیں ہمیشہ معاشی طور پر ملک کو پیچھے دھکیل دیتی ہیں، انہی معاشی کمزوریوں کے ساتھ یہ ملک آزاد ہوا. ہٹلر کا یہودیوں کے قتل عام والا پروپیگنڈا بھی اسی ملک سے مناسبت رکھتا ہے. بیسویں صدی میں آسٹریا پر امریکہ،برطانیہ، فرانس، جرمنی اور روس سب کی مداخلت رہی ہے. جنگوں کے پیش نظر ان کے ہاں پالیسی ہے کہ ہر 18 سال کے نوجوان مرد و عورت کو 6 ماہ ملٹری سروس لازمی کرنی ہے. آسٹریا نے اپنی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے نیشنلائزیشن کی بنیاد پر انڈسٹریز کا جال بچھایا جس میں مزدور طبقے کو خاص قوت دی گئی اور لیبر پولیٹکس اپنا گہرا اثر رکھتی ہے، جبھی آپ دیکھیں کہ آسٹریا میں 1 لاکھ میں سے صرف 94 افراد جیل میں ہیں، جن میں سے اکثریت غیر ملکیوں کی ہے اور جیل کی کل آبادی 8000 ہے. انڈسٹریز کے بعد سیاحت یہاں کا دوسرا بڑا آمدن کا ذریعہ ہے. سالانہ 2 کروڑ سیاح آسٹریا کا رخ کرتے ہیں. آسٹریا کا نظام تعلیم خاص قسم کی اہمیت کا حامل ہے، ذہنی و سماجی بنیادوں پر بنے نظام تعلیم کے ٹیکنیکل نکات ایک پورے الگ آرٹیکل کے محتاج ہیں. یہ تمام چیزیں آسٹریا کو انسانی ترقیاتی اشاریہ میں 24ویں نمبر پر رکھتی ہیں.
    ہماری سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی دوستی چین کے ساتھ ہے جو دنیا میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک ہے، ہم سے 2 سال بعد 1949 میں آزاد ہوا. بارود کا موجد یہ ملک آزادی کے بعد جنگی ماحول سے تقریباً دور رہا. کاغذ کا موجد یہ ملک دنیا کو معاہدوں کی بنیاد پر اپنا ہم سفر بناتا آیا. قطب نما کا موجد یہ ملک دنیا کے ہر کونے میں اپنے امن و دوستی مشن کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے. چھاپہ خانہ  (پرنٹنگ پریس) کا موجد یہ ملک اب دنیا میں جدید سے جدید، بھاری سے بھاری، چھوٹی سے چھوٹی مشینری بھی خود بناتا ہے. چین جب آزاد ہوا تو وہاں کی کافی آبادی نشے کی لت پڑی ہوئی تھی، یہ کہنا درست نہیں کہ اکثریت نشے کی عادی تھی یا سارے ہی نشے کے عادی تھے، یہ پروپیگنڈا ہے، ہاں ایک کم نہ سمجھے جانے والی آبادی ضرور نشے کا شکار تھی، اس کے علاوہ لوٹ مار، اخلاقی گراوٹ، دھوکہ وغیرہ عام تھا. چین ماضی کی ایک کامیاب اور قدیم قوم ہے لیکن برطانیہ کے قبضہ بذریعہ ہانگ کانگ کے یہ سب نتائج تھے. چین میں تقریباً 93% ایک ہی نسل کے افراد ہیں. یہ ایک ایسا مثبت پہلو ہے جس کو چینی انقلابی پارٹی نے پورا پورا ملکی مفاد میں استعمال کیا. یہ ملک باقی ممالک کی طرح فوراً انڈسٹریز یا کمپنیز کی طرف نہیں گیا. 1976 تک چین نے پہلے قومی بنیادوں پر سرمایہ داری کے تمام اصولوں کو ختم کرنے کے لیے مختلف پالیسیز ترتیب دیں، تعلیم، جاگیرداریت، انڈسٹری سیکٹر کے لیے نئے قوانین انسانی مادی ضروریات کو پیش نظر رکھ کے بنائے گئے. سوویت یونین کی طرح پلان اکانومی پر توجہ رہی، سیاسی طور پر ون پارٹی پالیٹکس کو لے کر چلا، وہی انقلابی پارٹی جس نے چین کو آزادی دلائی وہی اس کی ضامن بنی. 1978 کے بعد چین میں صنعتی ترقی کی رفتار اتنی تیز ہوتی چلی گئی کہ 2011 میں تمام جی سیون ممالک کی مشترکہ رفتار سے برابر ہوگئی. یہ سب ممکن ہوا قومی پالیسیز کی بنیاد پر جن پر کوئی بیرونی مداخلت نہیں تھی. کرپشن کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی اور اس کی سزا صرف اور صرف موت  تجویز کی گئی. دنیا کا جدید تقاضوں کے ساتھ چینی پالیسیوں میں بروقت تبدیلیاں لائی گئیں اور زمانے سے دس قدم آگے چلے. سیاسی خدوخال اتنا مضبوط ہے کہ ملکی صدر بننے سے پہلے زیرو لیول سے اپر لیول تک کا سفر اور اس سفر میں دی گئی کارکردگی کا معائنہ کیا جاتا ہے، انفرادی و اجتماعی زندگی کا جائزہ لیا جاتا ہے، پارٹی کے تمام سیاسی و تربیتی شعبوں سے گزارا جاتا ہے. تب جا کر وزراء کی ایک ٹیم یا صدر کی خدمات لی جاتی ہیں. 
    چین آج کس مقام پر کھڑا ہے، یہ سب مجھ سے بہتر جانتے ہیں. انسان دشمن ممالک کے خلاف مختلف تنظیموں کو کھڑا کر چکا ہے، ایشیاء کو متحد کرنے کی حکمت عملی پر گامزن ہے. چین کو اخلاقیات کے شعبے میں کمی نظر آئی ہے تو وہ کنفیوشس کی پرانی تعلیمات کو نئے انداز سے اپنانا سیکھ رہے ہیں. کمیونزم پر عمل پیرا ہونے کے باوجود الہامی تعلیمات کی طرف آنا پڑ رہا ہے تو وہ رجعت پسند بن کر اپنا نقصان کرنے کی بجائے ایک قدم آگے بڑھ کر مذہب سے اخلاقیات کا درس لینا چاہتے ہیں.چین کی یہ پالیسی، جس میں وہ عصر حاضر کے تقاضوں کو سمجھ کر چلنا چاہتے ہیں، ہی انہیں دنیا میں سر بلند رکھے ہوئے ہے. 
    ہمارا پڑوسی ملک یوں تو ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوا تھا لیکن ہم نے کچھ سال بعد اپنی آزادی ایک دن پہلے طے کر لی، اس طرح ہمارے 1 دن بعد آزاد ہونے والے بھارت کا تذکرہ بھی یہاں بنتا ہے، 1 ارب 32 کروڑ کی آبادی والا ملک دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہے. غربت بہت زیادہ ہونے کے باوجود ہر سال اس کی شرح میں کمی واقع ہو رہی ہے. ترقی کی رفتار نمایاں ہے لیکن پھر بھی باقی ملکوں سے پیچھے رہنے کی وجہ سرمایہ دارانہ نظام ہے.  آزادی کے بعد جاگیرداریت کا خاتمہ تو بھارت نے کر دیا لیکن سرمایہ دارانہ نظام کو بطور تجربہ اپنایا اور اس تجربہ کی تباہ کاریوں سے آج تک نکلنے کی کوشش کر رہا ہے. اس کے باوجود تعلیمی معیار بہت اچھا ہے، مریخ پر کمند ڈال چکے ہیں، انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ایک منفرد پہچان ہے. انفرادی صلاحیت اس درجہ کی ہے کہ دنیا کی زیادہ تر بڑی کمپنیز کے سی ای او بھارتی ہیں.   علیحدگی پسند تحریکوں کے باوجود مضبوط داخلہ پالیسی نے آج تک کوئی حصہ علیحدہ ہونے نہیں دیا اور نہ کبھی مارشل لاء کا راستہ کھلنے دیا. اور بھی کئی باتیں ہیں لیکن اس وجہ سے نہیں کروں گا کہ ہماری عوام پوری تحریر پر سے دھیان ہٹا کر بھارتی حصے کو ہضم نہیں کر پائے گی. اس لیے توجہ کے لیے مختصر تجزیہ رکھ دیا ہے.
    ان ممالک کے علاوہ بھوٹان، سری نکا، ملائشیا، آرمینیا جیسے ملک بھی ہیں جو ترقی کا سفر قومی مفاد میں جاری رکھے ہوئے ہیں.
    ان تمام ملکوں کا ذکر ضروری تھا جو ہمارے بعد آزاد ہوئے اور اپنی پالیسیوں کی بدولت بہت بڑا سنگ میل عبور کر گئے. ان میں سوشلسٹ، کیپٹلسٹ دونوں نظام کے حامل ممالک شامل ہیں. میں یہ نہیں کہتا کہ ان سے سیکھنا ہے، ہمارے پاس تو ان سے اعلیٰ نظام جو پوری دنیا کو لگ بھگ 1100 سال تک شان و شوکت سے رکھتا آیا ہے، موجود ہے. ہمیں ضرورت ہے ان کو اپنانے کی، ان پر بلا خوف و خطر عمل کرنے کی، جدید دنیا سے جدید معلومات ضرور لینی ہے لیکن اصول اپنے نظام کے رکھنے ہیں جس میں تمام انسانیت کا بلا رنگ نسل مذہب فائدہ ہے. اب سوچنا یہ ہے کہ پھر ہم کیوں اتنا پیچھے رہ گئے جب کہ ان تمام سے پہلے آزادی حاصل کی تھی. میں اپنی رائے رکھتا ہوں اور اپنا ملک ہے تو تفصیل ذرا لمبی ہوگی لیکن آپ سب بھی  سوچئے گا.
    پاکستان کو آزادی کے فوراً بعد جن مسائل کا سامنا تھا ان میں سے ایک مہاجرین کی آبادکاری، ان کی معیشت یعنی ان کے لیے وسائل زندگی کا مناسب بندوبست کرنا تھا جو تقریباً بالکل بھی نہیں تھا، یعنی تقسیم سے پہلے اس بارے میں نہ کوئی پارٹی کانفرنس ہوئی اور نہ ہی کوئی لائحہ عمل سامنے آیا. پھر دوسرا بڑا مسئلہ آئین کا تھا الاماشا اللہ وہ بھی تیار نہیں تھا، جناح صاحب تو تقسیم کے لیے انگریز اور کانگریس کے ساتھ تگ و دو میں تھے، لیکن پیچھے پوری پارٹی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہی، کوئی قومی پالیسی ترتیب نہیں دی، شاید اسی لیے جناح صاحب نے کہا تھا کہ میری جیب کے سارے سکے کھوٹے ہیں، خیر پھر بھی کھوٹے سکوں کو چھنکایا گیا اور ایک برطانوی قانون کے تحت ملک حاصل کر لیا گیا اور 9 سال بعد پہلا آئین بنایا گیا. آغاز میں جناح صاحب نے تاجدار برطانیہ کی وفاداری کا حلف اٹھایا اور پہلے گورنر جنرل پاکستان بنے اور جب کابینہ طے کی تو اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں وزیر قانون ایک ہندو جوگندر ناتھ منڈل کو بنا دیا اور وزیر خارجہ ایک قادیانی، 3 گورنر اور  فوج کی قیادت انگریز کے ہاتھ میں، جاگیرداریت و سرمایہ داریت کی موجودگی میں اسلام کے اصولوں پر کیسے چلنا تھا یہ بتانے سے پہلے ہی جناح صاحب اگلے جہان منتقل ہو گئے. ہوا یوں کہ جولائی 1948 میں سٹیٹ بینک (سودی بنیادوں پر)  کی بنیاد رکھنے کے کچھ عرصہ بعد بیمار پڑ گئے اور زیارت منتقل ہو گئے 2 مہینے بعد زیادہ طبیعت بگڑی تو کراچی بھیجنا چاہا تو انہی کھوٹے سکوں نے رولز رائس میں سفر کرنے والے کے لیے ایسی ایمبولینس بھیجی جو انتہائی خراب حالت میں تھی، اور پاکستان کو ایک سال میں ہی اس کے بانی سے محروم کر دیا گیا. یہ سب سے بڑا مسئلہ مانا جاتا ہے جب کہ میری نظر میں یہ مسئلہ تھا ہی نہیں. تیسرا مسئلہ اپنی پارٹی مسلم لیگ تھی جو غیر تربیت یافتہ ہونے کی وجہ سے ملک کو نہیں سنبھال سکی.
    دنیا میں جس درجہ کا جہاں بھی انقلاب برپا ہوتا ہے وہاں کے عوام انقلابی پارٹی کی قدر کرتے ہیں اور اس کی کئی صدیوں تک پیروی کرتے ہیں، لیکن پاکستان میں جب الیکشن شروع ہوئے تو پاکستانی عوام انقلابی و پاکستان کی بانی جماعت کو فراموش کر چکی تھی، ایوب خان کی جیت پھر عوامی لیگ پھر پیپلز پارٹی. اگر یہ کہا جائے کہ فوج کا تسلط تھا تو بھی غلط ہے، کیونکہ جو عوام مسلم لیگ کے لیے لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کر چکی ہو، وہ فوج سے بھی ٹکرا سکتی تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام اول دور میں ہی مسلم لیگ کی اصلیت جان کے مسلم لیگ کو حکمرانی دینے کی فہرست سے منسوخ کر چکی تھی. پھر عوام کو نیا نعرہ پیپلز پارٹی نے دیا اور مزید بیوقوف بنایا، جب وہ فلاپ ہوگئے تو اسلامی لیبل لگا کر امریکہ میڈ جہاد کرایا گیا اور روس کو پارہ پارہ کیا،  افغانستان کو کئی صدیاں پیچھے دھکیل دیا، اور پھر عورت کی حکمرانی کے عنوان سے چونا لگایا گیا، پھر ضیاءالحق کی باقیات نے مل ملا کر نیا چورن بیچا، مختصر یہ کہ جب کبھی پرانا ورژن خراب ہونے لگے یہاں کا ظالمانہ سرمایہ دارانہ نظام ایک نئے دلچسپ پرکشش نعرے کے ساتھ نیا ورژن لانچ کر دیتا ہے.
    ہمارے ملک کے پاس قدرت کا دیا وہ سب کچھ ہے جو نہ کروشیا کے پاس ہے نہ سنگاپور کے پاس. ہماری آبادی ہمارا سب سے بڑا ہتھیار ہونا چاہئیے تھا، ہم اپنی جغرافیائی حیثیت کی وجہ سے پوری دنیا کے ساتھ سر اٹھا کے معاہدات کر سکتے تھے. ہم پورے بلوچستان کو انڈسٹریل زون بنا سکتے تھے، ہم قدرتی آبگاہوں پر لگ بھگ ہزار ڈیم بنا سکتے تھے، ہم زراعت کو پورے پنجاب میں اتنا پھیلا سکتے تھے کہ آدھے ایشیا کی پوری ضرورت کا سامان کر سکتے، ہم سندھ میں ڈیولیپمنٹ کے وہ شاہکار کھڑے کر سکتے تھے جو دنیا میں کہیں نہ ہوتے، سرحد سے لے کر گلگت اور چین بارڈر تک سیر و سیاحت کا وہ نظام قائم کر سکتے تھے کہ دنیا دنگ رہ جاتی، لیکن ہم نے جن کو اپنے اوپر مسلط کیا وہ دونوں ہاتھوں اور پوری قوت کے ساتھ اس ملک کو لوٹتے رہے، ایک سے زائد آئین بنائے گئے لیکن چند سطور کے علاوہ 1935 کا برٹش ایکٹ ہی چھاپ دیا گیا، جو اعلان ایسٹ انڈیا نے کیا تھا کہ خلق خدا کی ملک بادشاہ کا حکم کمپنی بہادر کا، وہی طرز آج تک وطن عزیز میں قائم ہے، پہلے گورنر جنرل سے لے کر آخری وزیر اعظم تک کسی نے اس سودی استحصالی آئین کو چھیڑا تک نہیں، لیکن کوئی ان کو ولی کہتا ہے، کوئی اسلامی جنرل تو کوئی کامریڈ کہتا ہے. اس ملک کی انڈسٹریز کی بات آئے تو یہ سننے کو بھی ملتا ہے کہ پاکستان میں سرمایہ دار نے اپنا حصہ اس لیے بھی ڈالا کہ یہاں ان کا کوئی تجارتی مقابلہ کرنے والی قوت نہیں تھی، من چاہے نرخوں من چاہے معیار پر کام کر سکتے تھے، آج تک انہی کی اولادیں مختلف کمپنیز کے عنوان سے ہمارے اوپر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہیں. یہاں زراعت کی بات کریں تو جاگیردار کی زمین کی کوئی حد مقرر نہیں، کئی کئی گھنٹے تو ٹرین چلتی ہے ان کی زمین پر، ایسی صورتحال میں قومی مفاد میں زراعت کو کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے؟ کیونکہ جاگیردار کو صرف اپنے منافع سے غرض ہے. 
    ریجنل تعلقات میں ہم روس ، افغانستان، ایران اور بھارت کو خاطر میں ہی نہ لائے اور چین سے بھی نظام کی سائنس سیکھنے کی بجائے محض دوستی کی مالا جھپتے رہے. افغانستان کو آگ میں جھونک دیا، بھارت کے ساتھ جنگیں ہوئیں، ایران سے فرقہ واریت کی بنیاد پر دشمنی مول لی، روس کے توڑنے میں امریکی کردار دل و جان سے ادا کیا. تعلیم کی بات کریں تو حکمران طبقے نے اپنے تعلیمی ادارے کھول کر قومی اداروں کو وہ نقصان پہنچایا جس کے بھرنے میں کئی دہائیاں درکار ہیں. صحت میں بھی ایسا ہی رجحان رہا. ملک چلانے کے لیے اول قرض کی ضرورت نہیں تھی لیکن اگر لیے بھی تو ان کے واپس کرنے کا مناسب پلان بنایا جاتا تو اس عذاب سے نکلا جا سکتا تھا لیکن وہ ساری رقم کرپشن کی نذر ہو گئی، اور کرپشن کی روک تھام کرنے کے لیے ذرہ برابر کوشش نہ کی گئی کیونکہ اپنے اوپر انگلی پہلے اٹھنی تھی. جہاں سے اخلاقیات کا درس آنا چاہئے تھا وہاں سے خودکش بمبار کی مینوفیکچرنگ ہوئی. 
    میں پھر بتاتا چلوں کہ مذکورہ بالا ممالک کی طرز اپنانا حل نہیں ہے، کیونکہ ان کی معروضیت ہم سے الگ ہے، لیکن ہم نے یہ ضرور دیکھنا ہے کہ اگر وہ اپنے ماحول کو بدلنے میں کامیاب ہوئے ہیں تو ہم یہ کام ان سے بہتر طریق پر سرانجام دے سکتے تھے. لیکن ہمارا 70سالہ سارا حکمران طبقہ عوام کی امنگوں پر اترنے میں ناکام رہا ہے. 21 کروڑ اونس سونے کا معلوم ذخائر رکھنے والا ملک مساوی قوت خرید  (per capita) میں 137ویں نمبر پر ہیں، اربوں ٹن کوئلہ کے ذخائر والا ملک انسانی ترقیاتی اشاریہ میں 145ویں نمبر پر. اربوں بیرل تیل رکھنے والا ملک بے روزگاری میں خطرناک حد کو پہنچا ہوا، اربوں مکعب فٹ گیس رکھنے والے ملک میں 50 فیصد سے زائد آبادی روزانہ 2 سو روپے سے زیادہ آمدن نہیں بنا پاتی. یہ تمام وہ چیزیں ہیں جو نوجوان کو سوچنے پر مجبور کرتی ہیں کہ آخر 71 سال پہلے یہ انقلاب کن بنیادوں پر لایا گیا تھا.؟
    عصر حاضر کے نبض شناس اور مجھ ناچیز کے استاد محترم فرماتے ہیں "سماجی تبدیلی کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے کے باصلاحیت عناصر کے سامنے اس نظام کا خاکہ رکھا جائے جو موجودہ نظام کا بہترین حل ہو، بغیر متبادل حل کے موجودہ نظام پر محض تنقید ناکافی ہے."  آج دنیا تبدیلیوں کی زد میں ہے، اگر آج ہم نے ان تبدیلیوں کا تحلیل و تجزیہ کر کے درست سمت کا تعین نہیں کیا، تو یقیناً ہم ایک بار پھر 100 سال پیچھے چلے جائیں گے.
    Share via Whatsapp