ایسٹر آئی لینڈ کی کہانی اور پاکستان کی موجودہ صورت حال — ایک سبق آموز تقابل
ایسٹر آئی لینڈ کی کہانی اور پاکستان کی موجودہ صورت حال — ایک سبق آموز تقابل
ایسٹر آئی لینڈ کی کہانی اور
پاکستان کی موجودہ صورت حال — ایک سبق آموز تقابل
تحریر: محمد اصغر خان
سورانی۔ بنوں
پچھلے دِنوں ایک دل چسپ لیکن
دردناک کہانی پڑھنے کا موقع ملا۔ یہ کہانی جنوبی امریکا کے قریب واقع ایک چھوٹے سے
جزیرے "ایسٹر آئی لینڈ" کی تھی، جس نے مجھے ناصرف حیران کیا، بلکہ ماضی
کے ایک خوش حال علاقے کی تباہی کی داستان پڑھ کے دلی دکھ اور افسوس بھی ہوا۔ لیکن جب
میں نے وطنِ عزیز کے موجودہ حالات کا جائزہ لیا، تو ''ایسٹر آئی لینڈ'' کی کہانی
اور ہمارے مستقبل کے بارے میں فکرمندی بڑھتی گئی۔ کہانی کچھ یوں تھی:
"ایسٹر
آئی لینڈ، جہاں 800CE میں
پہلی بار انسانوں نے قدم رکھا، ایک جنت نظیر مقام تھا۔ یہاں سب کچھ وافر مقدار میں
موجود تھا: تازہ پانی، مچھلیاں، پھل، جنگلات، اور زرخیز زمین۔ یہاں ایک خاص قسم کا
پتھر Rano Rarokan کے
پہاڑوں میں پایا جاتا تھا، جس سے یہ لوگ شان دار مجسمے بناتے تھے۔ اس جزیرے کے لوگ
ابتدائی طور پر ایک خوش حال زندگی گزار رہے تھے اور ہر طرف خوشیوں کی بہار تھی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنے علاقوں کو مضبوط کرنے کے لیے بڑے بڑے مجسمے
بنائے اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں ہر علاقہ اپنے مجسمے کو زیادہ
بڑے اور شان دار بنانے کی دوڑ میں شامل ہوگیا۔ ان مجسموں کی تعمیر کے لیے درختوں
کو کاٹا جانے لگا، اور ان کے تنوں کو استعمال کرکے ان وزنی مجسموں کو ایک کونے سے
دوسرے کونے تک منتقل کیا جاتا تھا۔ اس دوڑ میں جزیرے کے تمام درخت کاٹ دیے گئے، نہ
کشتی بنانے کے لیے لکڑی بچی اور نہ ہی مٹی کے کٹاؤ اور بارشوں سے بچاؤ کے لیے کوئی
حفاظتی ذریعہ باقی رہا۔ درختوں کے خاتمے سے ناصرف جنگلی حیات ختم ہوگئی، بلکہ مٹی
کی زرخیزی بھی ختم ہوگئی، جس کی وَجہ سے خوراک کی شدید کمی واقع ہوئی اور قحط کی
نوبت آگئی۔ وہ جزیرہ جو کبھی خوش حال زندگی کی علامت تھا، اَب بھوک، لڑائی جھگڑوں
اور بقا کی جنگ میں مبتلا ہوچکا تھا۔ جب یورپی ملاحوں نے 1722ء میں اس جزیرے کا
دورہ کیا تو وہاں صرف دو ہزار لوگوں کی انتہائی بدحال آبادی رہ گئی تھی۔"
اس کہانی کو پڑھنے کے بعد جب
میں نے اپنے وطنِ عزیز پاکستان کی حالت کا جائزہ لیا، تو "ایسٹر آئی
لینڈ" کی طرح ہم بھی اپنے قدرتی وسائل اور ماحولیات کے ساتھ وہی سلوک کررہے
ہیں۔ پاکستان بھی قدرتی وسائل، جنگلات، معدنیات اور پانی کے وسائل کے لحاظ سے ایک
مالامال ملک ہے۔ یہاں کے شمالی علاقے — سوات، ناران، کاغان، مری، ہنزہ، وغیرہ —
اپنی بے مثال فطری خوب صورتی، سرسبز جنگلات اور قدرتی جھیلوں کی وَجہ سے دنیابھر
کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ لیکن ہم نے بھی "ایسٹر آئی لینڈ" کے
لوگوں کی طرح اپنے قدرتی وسائل کی حفاظت کے بجائے انھیں بے دریغ استعمال کرنا شروع
کردیا ہے اور وہ بھی ذاتی مفادات کے لیے۔
جنگلات کی بے دریغ کٹائی:
پاکستان میں جنگلات کا رقبہ
روز بروز کم ہورہا ہے۔ 1947ء میں کل رقبے کا تقریباً 33 فی صد جنگلات پر مشتمل
تھا، جو اَب گھٹ کر محض 4.8 فی صد رہ گیا ہے۔ درختوں کی بے دریغ کٹائی کی وَجہ سے
ناصرف جنگلات ختم ہورہے ہیں، بلکہ زمین کی زرخیزی میں بھی تیزی سے کمی واقع ہورہی
ہے۔ کئی مقامات پر درختوں کی جگہ بنجر زمین نے لے لی ہے، جس کی وَجہ سے ناصرف
حیوانات و نباتات کا مسکن ختم ہوا ہے، بلکہ مقامی لوگوں کی آمدنی کے ذرائع بھی
معدوم ہوچکے ہیں۔ جنگلات کی بے دریغ کٹائی سے ناصرف ان علاقوں کی قدرتی خوب صورتی
کو نقصان پہنچا ہے، بلکہ یہ عمل لینڈ سلائیڈنگ اور سیلاب جیسی قدرتی آفات کا بھی باعث
بن رہا ہے۔ جنگلات کی کٹائی سے موسم میں شدت اور تغیرات رونما ہو رہے ہیں، جو
ناصرف مقامی آبادی کے لیے مسائل پیدا کر رہے ہیں، بلکہ یہاں آنے والے سیاحوں کی
تعداد میں بھی کمی کا سبب بن رہے ہیں۔اگر ہم نے اسی طرح درختوں کی کٹائی جاری رکھی
تو پاکستان کا بھی حال ویسا ہی ہوگا جیسا کہ ایسٹر آئی لینڈ کا ہوا۔
پانی کی کمی اور وسائل کا
ضیاع:
پاکستان کے پاس دنیا کا سب
سے بڑا نہری نظام موجود ہے، لیکن ہم اپنے آبی وسائل کو مناسب طریقے سے محفوظ کرنے
اور انھیں مؤثر انداز میں استعمال کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ آبی ذخائر کے تحفظ اور
تقسیم میں عدم توازن کی وَجہ سے زرعی پیداوار متاثر ہورہی ہے اور ملک میں پانی کا
شدید بحران جنم لے چکا ہے۔ چند دن پہلے پانی کے مسائل پر سینیٹ کی آبی وسائل کمیٹی
کے اجلاس میں حکام نے اعتراف کیا ہے کہ صوبہ بلوچستان میں 2021ء کے بعد پانی پر
کوئی سروے نہیں ہوا۔ یہ حال صرف بلوچستان کا نہیں، بلکہ ہر ایک صوبے کا ہے۔ بارش
اور گلیشئرز کے پانی کو محفوظ کرنے اور قابل استعمال بنانے کا ان کے پاس کوئی پلان
ہی نہیں ہے۔ اور دن بہ دن زیر زمین پانی کو ٹیوب ویلوں کے ذریعے نکال رہے ہیں۔ صرف
بلوچستان میں 46 ہزار رجسٹرڈ ٹیوب ویلز ہیں جب کہ غیررجسٹرڈ اس سے کئی گنا زیادہ
ہے۔ اور بغیر کسی احتیاط کے غیرضروری جگہوں مثلاً سروس سٹیشن وغیرہ پر ضائع کررہے
ہیں۔ یہ بحران آنے والے سالوں میں مزید شدت اختیار کرسکتا ہے۔
حسین وادیوں کی تباہی:
پاکستان کے شمالی علاقہ جات،
جو کبھی اپنی قدرتی حسن اور دل کش مناظر کے باعث دنیابھر کے سیاحوں کی توجہ کا
مرکز ہوا کرتے تھے، آج یہ علاقے غیر ذمہ دارانہ سیاحت، بے ہنگم اور بے ترتیب
تعمیرات اور حکومتی عدم توجہی کی وَجہ سے سنگین مسائل کا شکار ہیں۔ ان علاقوں کی
خوب صورتی جو ان کی پہچان تھی، دن بدن معدوم ہوتی جارہی ہے۔ بے ہنگم تعمیرات، جیسے
ہوٹلوں اور ریسٹ ہاؤسز کی تعمیر، سیاحتی مقامات کے حسن کو بگاڑ رہی ہے۔ قدرتی
ماحول کو برقرار رکھنے کے بجائے ان منصوبوں نے ان وادیوں کی زمین کو بوجھل کر دیا
ہے۔ اس کے علاوہ بنیادی منصوبہ بندی کے فقدان کی وَجہ سے فضلہ کے انبار، پلاسٹک کی
بوتلیں اور دیگر ناقابلِ تحلیل مواد وادیوں کی ندیوں اور جھیلوں میں جمع ہونے لگے
ہیں، جس سے ناصرف ماحول آلودہ ہو رہا ہے، بلکہ جنگلی حیات اور آبی حیات کو بھی
شدید خطرات لاحق ہیں۔
ان
مسائل کی شدت میں حکومتی بے اعتنائی بھی نمایاں کردار ادا کر رہی ہے۔ حکومتی سطح
پر سیاحت کی بہتر منصوبہ بندی، ماحول دوست قوانین کا نفاذ اور غیرقانونی تعمیرات
کے خلاف مؤثر کارروائی کی ضرورت ہے۔ ان اقدامات کے بغیر، شمالی علاقہ جات کی بحالی
ممکن نہیں۔ اگر اس صورت حال کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو وہ دن دور نہیں جب یہ
حسین وادیاں اپنی خوبصورتی اور دل کشی کھو کر محض ایک بدحال منظر نامہ بن جائیں
گی۔
قدرتی وسائل کی کمی اور
معدنیات کا ضیاع:
پاکستان قدرتی وسائل سے مالا
مال ملک ہے، جہاں کوئلہ، گیس، تیل اور مختلف قسم کی معدنیات کے وسیع ذخائر موجود
ہیں۔ یہ وسائل ملکی معیشت کی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، لیکن ان کے غیر
مؤثر استعمال، بدانتظامی اور غیرمنظم مائیننگ کی وَجہ سے ملک ابھی تک ان سے مکمل
فائدہ اٹھانے میں ناکام رہا ہے۔ ان قدرتی ذخائر کا غیر معیاری انتظام توانائی کے
بحران، بجلی کی لوڈشیڈنگ اور گیس کی قلت جیسے سنگین مسائل کو جنم دے رہا ہے، جو
ناصرف عوام کی زندگیوں کو متاثر کر رہے ہیں، بلکہ ملکی صنعتی ترقی میں بھی رکاوٹ
کا باعث ہیں۔
ملک میں کوئلے کے وسیع ذخائر
موجود ہیں، جنھیں اگر مناسب حکمت عملی اور جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ استعمال کیا
جائے تو ناصرف بجلی کی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے، بلکہ توانائی کے بحران
پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔ تھرپارکر کا کوئلہ، جو کہ توانائی کی پیداوار کے لیے
انتہائی موزوں سمجھا جاتا ہے، ابھی تک اپنی پوری صلاحیت کے مطابق استعمال میں نہیں
لایا جا سکا۔ یہی حال قدرتی گیس اور تیل کے ذخائر کا بھی ہے۔ ملک کے مختلف علاقوں،
جیسے بلوچستان اور سندھ، میں گیس اور تیل کے اہم ذخائر موجود ہیں، لیکن ان کی
نکاسی اور تقسیم کے ناقص انتظامات کی وَجہ سے عوام کو توانائی کی فراہمی میں
مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
"ایسٹر آئی لینڈ" کی کہانی ایک سبق ہے کہ جب معاشرے اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے بجائے اپنی شان و شوکت، طاقت، اور نمود و نمائش کی دوڑ میں لگ جاتے ہیں، تو ان کی بقا خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ پاکستانی حکمران اور اس کے کرتا دھرتا کو اپنی عیاشیوں اور بے مقصد سرگرمیوں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ ملک سنگین بحرانوں میں ہے، جب کہ یہ لوگ غیرضروری چیزوں پر آپس میں لڑ رہے ہیں۔ جنگلات کی کٹائی کو روکنا ہوگا، آبی ذخائر کو محفوظ کرنا ہوگا۔ اور قدرتی خوب صورتی کو برقرار رکھنے کے لیے فوری اور سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے۔ قدرتی وسائل کو منظم طریقہ کار اور اجتماعی مقاصد کےلیے استعمال کرنا چاہیے۔
اگر ہم نے ابھی بھی
"ایسٹر آئی لینڈ" کی کہانی سے سبق نہ سیکھا تو ہم بھی اپنے ہی ہاتھوں
اپنی تباہی کی داستان رقم کر رہے ہوں گے۔ وسائل کا ذمہ دارانہ استعمال اور
ماحولیات کی حفاظت ہی ہمارے روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔ اس وقت ہمارے پاس موقع ہے کہ
ہم اپنی آنے والی نسلوں کو ایک خوش حال، سرسبز اور وسائل سے مالامال پاکستان دے
سکیں۔ کیا ہم اس چیلنج کو قبول کریں گے؟ یا پھر ایک اور "ایسٹر آئی
لینڈ" کی کہانی بن کر رہ جائیں گے؟