ٹیپوسلطان اور کراچی کی بحری تجارتی ترقی
برعظیم پاک و ہند کی تاریخ میں ایک دور تھا جب سلطنت خداداد میسور اپنے عروج پر تھی۔ خوش حالی کا دور دورہ تھا ۔
ٹیپوسلطان اور کراچی کی بحری تجارتی ترقی
تحریر: وسیم اعجاز ۔ کراچی
دیگر شہروں کی طرح کراچی نے بھی تاریخ میں بہت مد و جزر دیکھے ہیں۔ ساحلی علاقہ ہونے کی وجہ سے ہر دور میں اسے بہت زیادہ اہمیت دی گئی۔ اس شہر پر گزرے حالات کا مطالعہ کرنے والے کو تاریخ بہت زیادہ اتار چڑھائو سے متعارف کرواتی ہے۔ تاریخ اس دور کے بارے میں بھی بتاتی ہے جب یہاں قبائلی نظام نے اسے ایک تمدن کی شکل دی ہوئی تھی۔ تجارتی قافلے ہندوستان سے تجارت کے لئے دیگر بندرگاہوں کی طرح کراچی کے ساحل کو بھی استعمال کرتے تھے۔
برعظیم پاک و ہند کی تاریخ میں ایک دور تھا جب سلطنت خداداد میسور اپنے عروج پر تھی۔ خوش حالی کا دور دورہ تھا ۔ ٹیپو سلطان ایسٹ انڈیا کمپنی کے ظلم کے خلاف جدوجہد کا ایک استعارہ تھے۔ جن کی تمام زندگی میں مزاحمتی جدوجہد کے ساتھ ساتھ اپنے زیر نگیں علاقوں میں معاشی استحکام کے لئے اقدامات بھی شامل تھے۔
ٹیپو سلطان نے بحری تجارت کی اہمیت کے پیش نظر ہندوستان کے دیگر ساحلی علاقوں کے ساتھ ساتھ کراچی اور مسقط میں 1785ء تک تجارتی کوٹھیاں قائم کی تھیں۔ جن کے ذریعے سے ہندوستان، بحرہ احمر اور خلیج فارس کے ملکوں کے مابین تجارت کی بڑی منڈی بن گیا تھا۔ کراچی بندرگاہ پر واقع تجارتی کوٹھی والئی قلات میر نصیر خان بلوچ کی نگرانی میں تھی۔ ٹیپو سلطان کی جانب سے کراچی میں کوٹھی قائم کرنے کا مقصد باہمی تجارت کو فروغ دینے کے علاوہ دونوں ملکوں ( میسور اور قلات) کے تعلقات کو مزید مستحکم بنانا تھا۔اس کے علاوہ ایک اور اہم مقصد ضرورت کے وقت ایک دوسرے کو حتی المقدور فوجی امداد پہنچانا بھی تھا۔ یہی وہ دور تھا جب کراچی کی بندر گاہ سےبحری تجارت نے باقاعدہ اور منظم شکل اختیار کی۔
کراچی میں اس تجارتی کوٹھی کے قیام کے بعد اس علاقے کی معاشی ترقی میں اضافہ ہوا۔ لوگوں کے طرز زندگی میں تبدیلیاں پیدا ہوئیں۔ 1774ء سے 1795ء تک کراچی خان آف قلات کے ماتحت رہا ۔ جب میر فتح علی تالپور سندھ میں برسر اقتدار آیا تو کراچی کو ریاست قلات سے لے کر تالپوروں کے زیر نگیں کردیا گیا۔ لیکن اس دوران بھی بحری تجارت کی سرگرمیاں بدستور جاری رہیں۔ ان تجارتی سرگرمیوں کا ایک اور خاص اثر ہوا، وہ یہ تھا کہ اہلیان کراچی او بالخصوص بلوچ قبائل کے دلوں میں سلطان ٹیپو کے ساتھ محبت و عقیدت پیدا ہوگئی تھی۔
سلطنت دہلی کے اضمحلال کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کی ہر ممکن کوشش تھی کہ ہر اس عنصر کو کچل دیا جائے جو ان کے راستے میں حائل ہو۔ انہی مذموم مقاصد کے پیش نظر انگریزوں نے غداروں کی مدد سے ریاست خداداد پر جنگ مسلط کئے رکھی ۔ میسور پر انگریزوں کے حملے کے وقت میر نصیر خان نے ٹیپو سلطان کو اپنی استطاعت کے مطابق فوجی کمک پہنچائی تھی۔ اس بات کا ثبوت بلوچوں کی وہ آبادیاں ہیں جو اب بھی جنوبی ہندوستان میں موجود ہیں۔
ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد اگست1799ء میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے تالپوروں سے ساز باز کر کے کراچی شہر کے باہر لیاری ندی کے ساتھ تجارتی کوٹھی قائم کی تو اس وقت ایک انگریز اہلکار مسٹر پونسٹن نے تجزیہ پیش کیا کہ چونکہ کراچی کے عوام ٹیپو سلطان سے اس حد تک عقیدت رکھتے ہیں کہ وہ انگریزوں سے بدلہ لینے کے لئے کسی بھی وقت اس کوٹھی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔اس لئے انہیں یہاں سے جلد ہی بوریا بستر گول کرنا پڑے گا۔ اس خدشے کے پیش نظر ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنی حفاظت کے لئے ہر ممکن اقدامات کئے۔ کراچی اور ٹھٹھہ میں بنائی گئی یہ کوٹھیاں حکومت سندھ کے خلاف سازشوں کا گڑھ بن گئیں۔
بعد کے سیاسی حالات میں اتنی تیزی سے تبدیلیاں پیدا ہوئیں کہ وطن عزیز کے باسیوں کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ اور عظمت کا یہ دور تاریخ کی کتابوں میں دفن ہوگیا جس کے صفحات بھی موجودہ نظام ظلم کی طرح بوسیدہ ہو چکے ہیں۔ وقت کی گرد سے اٹے ان صفحات میں چھپے گذشتہ عروج کی شہادت دیتے الفاظ چیخ چیخ کر پکارتے اور نوجونوں میں یہ کہہ کر ہمت اور حوصلے کی دعوت دیتے ہیں کہ،
" شیر کی ایک دن کی زندگی ، گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔"