” دیارِ غیر سے دیارِ جاں اچھا “
اس مضمون میں شاہ ولی اللہ ؒ کے نظریہ” فک کل نظام“ کی روشنی میں حب الوطنی اور اجتماعی کوششوں سے برین ڈرین اور دیگر قومی مسائل کا حل پوشیدہ ہے ۔
”دیارِ غیر سے دیارِ جان اچھا“
تحریر : سفیان خان (بنوں)
پریشان کن بات یہ ہے کہ آج
ہماری معیشت لوگوں کو خودکشی، حرام خوری اور چوری ڈکیتی جیسے جرائم پر مجبور کررہی
ہے۔ ہم بین الاقوامی ساہوکار استحصالی قوتوں کےچنگل میں بری طرح پھنس چکے ہیں۔ وطن
کاپڑھالکھا طبقہ ملک چھوڑ کر بروقت باہر نکلنا ہی راہِ نجات سمجھ رہا ہے،آپ کسی
بھی مقصد کے لیے پاکستان سے باہر جانا چاہتے ہیں تو جائیے، اپنی فیملی کے ساتھ
مستقل ہجرت کرنا چاہتے ہیں اور کوئی ملک آپ کو بلاوا بھی بھیج رہا ہے تو
جائیے،مگرجو نوجوان کہیں نہیں جانا چاہتے یا جانے کی قدرت نہیں رکھتے، اُن کا فضول
میں احساس کمتری میں مبتلا رہنا اور ماحول کا انھیں ہمہ وقت اس پہلو سے گلٹی فیل
کرواتے رہنا، کہاں کی عقل مندی ہے؟
بیرونِ ملک کی زندگی کیا ہے؟ تیسری دنیا کے کتنے فی صد لوگ ہیں، جنھیں دُوسری یا پہلی دنیا کا کوئی ملک سکونت دیتا ہے؟ پھر وہاں جانے کے بعد کتنے ہیں جو ہمیشہ کے لیے وہیں رہنا دل سے پسند کرتے ہیں؟ اور کتنے ہیں جو وہاں رہنے کے باوجود وہاں سے زیادہ پیچھے کی خبروں اور حالات میں دلچسپی لے کر ایک نہ ختم ہونے والا روگ پال لیتے ہیں اور پھر دو دنیاؤں میں معلق زندگی کس طرح گزرتی ہے؟یہ سب ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا جو اس تجربہ میں ہیں یا کرکے آئے ہیں۔ کیا ”دیس نکالا“ جھیلنا اتنا ہی آسان اور پرلطف ہوتا ہے جتنا آپ اپنے ملک میں بیٹھ کر سوچ رہے ہوتے ہیں؟ میری خواہش ہے کہ کبھی وقت ملے تو ایک کتاب اس” دیس نکالے“ پر لکھ ڈالوں۔
ہم لوگ ہر چیز میں ماڈریٹ
رویہ اپنانے کے بجائے حدود سے تجاوز کرنا، ایکسٹریم پر جانا اور سوچنا پسند کرتے
ہیں۔ ہمارے تنزل کی بہت سی وجوہات میں سے ایک اہم وَجہ یہ ہے۔ آج کل باقاعدہ ٹرینڈ
چل رہے ہیں کہ... زندہ بھاگ، فوراً بھاگ، جلدی بھاگ وغیرہ وغیرہ۔ آپ جہاں مرضی
بھاگ لیں، پروردگار نے آپ کے وجود پر مہر لگا کر بھیجی ہے کہ آپ ساؤتھ ایسٹ ایشین
ہیں، آپ اس شناخت سے بھاگ نہیں سکتے۔آپ بیرون ملک جائیں، بلکہ ہوسکے تو بہتر سکلز
سیکھ کر جائیں، تاکہ آپ نسبتاً آسان طریقے سے اپنے اور اپنے پیاروں کے لیے روزی
روٹی کما سکیں۔ وہاں آپ کا تجربہ بڑھے گا، آپ جدید سکلز سیکھیں گے، پیسہ کما کر
اپنے پیاروں کو بھیجیں گے، سکلز سیکھ کر اپنے لوگوں میں بانٹیں گے اور مزید لوگوں
کو قابل بنائیں گے یہ سب آپ کے اور آپ کے ملک کے مفاد میں ہے۔
دنیا کے کئی ایسے ممالک ہیں،
جنھیں ہو بہو ایسے ہی مسائل کا سامنا تھا، لیکن ان کی حب الوطنی نے ان کو وطن سے
نفرت کرنے اور وطن سے فرار کر جانے کے بجائے اپنے مسائل کو ختم کرنے پر مجبور
کردیا۔ ہمسایہ ملک چائنا نے ہم سے دو سال بعد آزادی حاصل کی، لیکن وہاں کے نظام
اور آزاد معیشت نے صرف چالیس سالوں میں 80 کروڑ لوگوں کو غربت کی چکی سے باہر نکال
دیا۔ ہمسایہ ملک بھارت کی مثال آپ کے سامنے ہے، اُنھوں نے بھی ایسے ہی ترقی کی۔
انڈیا میں 15 سال کے عرصہ میں تقریباً 415 ملین لوگ غربت سے باہر نکل آئے ہیں، جو
ایک تاریخی تبدیلی ہے۔ کوئی کمپنی، کوئی مافیا ہمیشہ نہیں رہتا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی
کی سلطنت اتنی بڑی تھی کہ اس میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا، مگر بالآخر اُسے جانا
پڑا۔ عوام اپنا خطہ نہیں چھوڑا کرتے، ہمیشہ غاصبوں کو ہی چھوڑنا پڑتا ہے۔ اچھا برا
وقت آتا جاتا رہتا ہے، دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے۔ اپنے قومی مسائل کا تعین کرکے ان
کی جڑ تک پہنچنا چاہیے اور اس کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔ درج بالا مثالوں سے بہ
خوبی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے تمام مسائل امریکا کی غلامی اور سرمایہ داری
نظام کے تسلط سے جڑے ہوئے ہیں۔ غلامانہ استحصالی نظام سے نکلنے کا واحد راستہ
باشعور اجتماعیت کا قیام ہے۔ ہر دور کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ سماجی تبدیلی فرد
واحد کا کام نہیں ہے۔انسانی تاریخ میں ہر ہمہ گیراورجامع تبدیلی کے پیچھے ایک
باشعور جماعت کھڑی ہوتی ہے۔
کنفیوژن یہ ہے کہ پاکستان میں درجنوں سیاسی و
مذہبی جماعتیں ہیں اور ہر ایک تبدیلی کی دعوے دار ہے تو ہم نے جماعتِ حقہ کی پہچان
کیسے کرنی ہے؟
اس حوالے سے حضرت امام شاہ
ولی اللہ دہلویؒ کا نظریہ “فک کل نظام“ (نظام ظلم کو بدلنا) لائقِ مطالعہ ہے۔ شاہ
صاحب کی نظر میں ظالمانہ نظام کو توڑنے اور عادلانہ نظام کو قائم کرنے کے لیے ایک
ایسی جماعت کا قیام لازمی ہے کہ جس میں شامل افراد بغیر کسی ذاتی مفاد اور لالچ کے
صالح اور انسان دوست نظریات پر تربیت یافتہ ہوں، ان کی شعوری سطح بلند ہو، ان میں
سامراج کی مکاریوں اور چالبازیوں کو کاؤنٹر کرنے کی صلاحیت ہو۔ انھیں اقوامِ عالم
کے حالات کا علم ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ محبت اور فکری ہم آہنگی کے ایک ایسے
مضبوط رشتے میں جڑے ہوئے ہوں کہ جس کے آگے دشمن کے تمام ہتھکنڈے اور پروپیگنڈے ہیچ
نظر آئیں۔ ایسی تربیت یافتہ جماعت کی متحدہ قوت سے ہی ظالمانہ نظام کا مقابلہ کیا
جاسکتا ہے۔ اس لیے موجودہ دور میں درست لائحہ عمل یہی ہے کہ وطن کی مٹی کو کوسنے
یا راہِ فرار اختیار کرنے کے بجائے اپنے لیے ولی اللہی فکر پر مبنی جامع حکمت عملی
اپنانے اور مضبوط بنیادوں پر جماعت سازی کے کام کو اولیت دینےکی ضرورت ہے۔ ظالمانہ
نظام کو توڑنے کا یہ راستہ کٹھن ضرور ہے، مگر اس کے علاوہ کوئی اور راستہ مشکل ہے۔
ہم نے اس یقین سے کام کرنا ہے کہ مشکلات کے اُس پار ترقی، خوش حالی، امن، عدل اور
سلامتی ہمیں مکرر پکار رہی ہیں، ہم نے بس ان مشکلات کو پار کرکے ان خوشیوں کو گلے
لگانا ہے۔