ماحولیاتی تبدیلی کے اسباب اور بچاؤ کی حکمت عملی - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • ماحولیاتی تبدیلی کے اسباب اور بچاؤ کی حکمت عملی

    موسمیاتی تبدیلی سے مراد آب و ہوا کے قدرتی نظام میں بگاڑ کا پیدا ہونا ہے، جس کی بڑی وَجہ انسانی طورطریقوں، ۔۔۔۔

    By haroon rasheed Published on May 06, 2025 Views 130

    ماحولیاتی تبدیلی کے اسباب اور بچاؤ کی حکمت عملی

    تحریر: ہارون رشید۔ راولپنڈی 


    موسمیاتی تبدیلی سے مراد آب و ہوا کے قدرتی نظام میں بگاڑ کا پیدا ہونا ہے، جس کی بڑی وَجہ انسانی طورطریقوں، معمولات، استعمالات اور ایسی خواہشات کا پیدا ہونا ہے، جن کی وَجہ سے قدرتی وسائل، مثلاً پانی، خوراک، لکڑی اور زمین کا بے تحاشا اور بلاضرورت استعمال اور ان کا ضیاع شامل ہے۔پچھلے کچھ سالوں سے موسمیاتی تبدیلیوں پر بڑے زور شور سے بات ہورہی ہے ۔ ماہرین سے لے کر حکومتی عہدے داران اور عام آدمی تک ہر کوئی اس کے حوالے سے اپنی رائے دے رہا ہے۔موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے باقاعدہ طور پر قانون سازی کا عمل 1993ء میں امریکا میں شروع ہوا، اور اس کے سدباب کے لیے عالمی سطح پر کانفرنسز، سیمینارز اور واکس کا بھی اہتمام کیا جاتا رہا ہے، لیکن کوئی بھی اس پر بات نہیں کررہا کہ ان موسمیاتی تبدیلیوں کی حقیقی وجوہات کیا ہیں اور اصل مجرم کو ن ہے؟

    موسمیاتی تبدیلیوں کی بڑی وجوہات میں پیداواری عمل کو بڑھانے اور تیز کرنے کے لیے نت نئی مشینری اور کارخانے لگانے کا عمل یعنی انڈسٹریلائزیشن ، بجلی کی پیداوار اور نقل و حمل کے ذرائع میں ایندھن یعنی گیس و تیل کا بے تحاشا استعمال جس کے نتیجے میں فضا میں گیسز کا اخراج اور درجہ حرارت میں اضافہ ہونا، جنگلات کا بے دریغ کٹاؤ اور نئےجنگلات اُگانے کے حوالے سے ناقص منصوبہ بندی اور ماحولیاتی تحفظ کی پالیسیوں پر عمل درآمد کا فقدان شامل ہیں۔

    اگر ہم موسمیاتی تبدیلیوں کی وجوہات پر غور کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہ اچانک کسی اِنفرادی یا جزوی عمل کے نتیجے میں واقع نہیں ہوئی، بلکہ یہ پچھلی چار صدیوں سے جاری صنعتی ترقی کی لازمی اوراضافی پیداوار(بائی پراڈکٹ) ہے۔گزشتہ چند صدیوں میں یورپ اور امریکا میں بے پناہ صنعتی ترقی ہوئی ہے، جس کے نتیجے میں گرین ہاؤس گیسز کا اخراج اور عالمی درجہ حرارت میں غیرمعمولی ضافہ ہوا۔ چوں کہ ایک سرمایہ دارانہ معیشت کا مقصد اور مکمل توجہ اس کے منافع اور بڑھوتری پر ہوتی ہے، اس لیے وہ ایک طویل مدتی ماحولیاتی پائیداری کے بجائے قلیل مدتی اقتصادی فوائد کو ترجیح دیتی ہے ۔ چناں چہ ایسا معاشی نظام، جس کے اندربے رحم مقابلے بازی کے ذریعے زیادہ سے زیادہ منافع کمانا اور اس کے لیے اپنی اشیا کے پیداواری اور بیچنے کے عمل کو مسلسل تیز کرتے جانا مقصود ہو ، اس میں کمپنیاں اپنی پیداوار کو بڑھانے کے لیے توانائی اور بجلی کا بہت زیادہ استعمال کرتی ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ توانائی پیدا کرنے کے لیے فوسل فیولز کا استعمال بھی لازمی ہے ۔اس عمل کے نتیجے میں فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر مضرِصحت گیسز کا بڑھ جانا یقینی ہے، جس سے درجہ حرارت میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور موسمیاتی تبدیلیاں قدرتی آفات کی شکل میں رو نما ہوتی ہیں۔ 

    اس کے ساتھ ساتھ انڈسٹریلائزیشن اور کمرشلائزیشن کے عمل میں درختوں کی کٹائی اور جنگلات کا بڑی بے دردی سے صفایا کیا گیا۔ گزشتہ چند دہائیوں میں پاکستان کے جنگلات کا رقبہ 5.5 فی صد سے کم ہو کر 2.5 فی صد رہ گیا ہے، جب کہ عالمی سطح پر دنیا اپنے ایک تہائی جنگلات کھو چکی ہے، جن کا رقبہ دو ارب ہیکٹر یعنی ریاست ہائے متحدہ امریکا کے رقبے سے دوگنا بنتا ہے۔ اَب ظاہر ہے اتنی بڑی تعداد میں درختوں کی کٹا ئی اِنفرادی یا نجی ضروریات پوری کرنے کے لیے تو ہوتی نہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا میں ہر سال نئی آبادیاں بسانے ، کارخانے لگانے، مارکیٹس بنانے اور دیگر کمرشل مقاصد کے لیےچارسے سات ارب درخت کاٹے جاتےہیں۔اتنے زیادہ جنگلات کے کاٹنے کے نتیجے میں درجہ حرارت ، زمینی کٹاؤ ، لینڈ سلائیڈنگ اور سیلابوں میں غیرمعمولی اضافہ یقینی امر ہے۔ 

    سرمایہ داریت کی سوچ پر مبنی اس صنعتی انقلاب نے جہاں نت نئی دریافتوں اور ایجادات کے نتیجے میں انسانی زندگیوں میں سہولت پیدا کی ہے، وہیں اس نے ماحولیاتی تبدیلیوں اور آلودگی پیدا کرنے کے ذریعے معاشروں پر تباہ کن اَثرات بھی مرتب کیے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک اور بڑی بڑی کارپوریشنز نے توانائی کھپانےوالی صنعتیں، ٹیکنالوجی ٹرانسفر کے نام پر غریب ملکوں میں منتقل کر دی ہیں ،تاکہ مضر گیسوں کا اخراج وہاں منتقل ہوسکے اور ان صنعتوں کا پیدا شدہ فضلہ بھی ان ترقی پذیر ممالک کی مٹی میں ہی دفنایا جاسکے۔جب کہ ان ملکوں کے ماحول کو آلودہ کرنے کے بعدوہاں تیار شدہ مصنوعات ترقی یافتہ ممالک میں استعمال ہو سکیں۔

    ترقی یافتہ ممالک اور کثیرالقومی کارپوریشنوں کا یہ ایک گھناؤنا راز ہےکہ وہ اپنا فضلہ اور آلودگی ترقی پذیر ممالک میں ڈمپ کرتے ہیں۔ الیکٹرانک فضلہ یا ای ویسٹ بھی اکثر ان ترقی پذیر ممالک میں بھیجا جاتا ہے، جس میں سیسہ، مرکری اور کیڈیم جیسے زہریلےمواد شامل ہوسکتے ہیں اور مٹی، پانی اور ہوا پر اس فضلہ کے اَثرات تباہ کن ہو سکتے ہیں۔  شیورون، ایگزون موبل اور شیل جیسی کمپنیوں کو، پانی کے ذرائع کو آلودہ کرنے، زہریلے دھوئیں کو ہوا میں چھوڑنے اور نائیجیریا اور ایکواڈور جیسے ممالک میں مٹی کو آلودہ کرنے جیسے الزامات کا سامنا ہے۔ جب کہ ایپل، سام سنگ اور مائیکروسافٹ جیسی ملٹی نیشنل کارپوریشنوں پر اِلزام لگایا گیا ہے کہ وہ اپنے ای ویسٹ کو صحیح طریقے سے ٹھکانے لگانے میں ناکام ہوکر ماحولیاتی آلودگی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ 

    2018ءمیں، باسل ایکشن نیٹ ورک کی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ ان کمپنیوں کا الیکٹرانک فضلہ غیرقانونی طور پر ترقی پذیر ممالک کو برآمد کیا جا رہا ہے، جسے اکثر لینڈ فلز (زمین میں کھودے گڑھوں) میں پھینک دیا جاتا ہے یا جلا دیا جاتا ہے، جس سے زہریلا دھواں ہوا میں خارج ہوتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی پر سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کے ناقابل تردید ثبوت کے باوجود، بہت سی حکومتیں اور کارپوریشنز ماحولیات کے بچاؤ پر منافع کو ترجیح دیتی ہیں۔ پیرس معاہدے، جس پر 2015 ءمیں 196 ممالک نے دستخط کیے تھے، کا مقصد گلوبل وارمنگ پر قابو پانا ہے۔ تاہم یورپ، امریکا اور چین سمیت دنیا کے بہت سے بڑے اخراج کرنے والے ممالک، پیرس معاہدے کے تحت کیے گئےاپنے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

    بدقسمتی سے پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک کی درجہ بندی میں پانچویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کے حوالے سے موسمیاتی تبدیلی کے نمایاں اَثرات میں انسانی صحت کو خطرات، غذائی اجناس کی پیداوار میں کمی، وَبائی امراض کے پھیلاؤ میں اضافہ ، خشک سالی، گلیشئرز کے پگھلاؤ اور سطح سمندر میں اضافہ ، موسموں کے دورانیے میں تغیر اور شدت، سیلاب اور گرمی و سردی کی لہروں میں اضافہ شامل ہیں۔لیکن اس سب کے باوجود ابھی تک پاکستان میں تعلیمی و تحقیقی میدان میں اس موضوع پر ہونے والا کام تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے، جب کہ ترقی یافتہ ممالک اور بڑی بڑی سرمایہ دار کمپنیوں  جو کسی ملک کی حکومت کو گِرانے اور بنانے کی طاقت رکھتی ہیں، کی طرف سے بھی کو ئی سنجیدہ اقدامات نظر نہیں آرہے۔

    آج چین جیسی اُبھرتی ہوئی معیشتوں نے دنیا کو احساس دِلایا ہے کہ صرف ماحولیاتی تبدیلیوں کے نعرے لگانا ہی کافی نہیں، بلکہ اس کے سدباب کے لیے سنجیدگی کے ساتھ کوشش کرنا بھی ضروری ہے، جیسا کہ چین نے خود بھی اس حوالے سے متعدد اقدامات کیے ہیں، جن میں قابل تجدید توانائی کے ذرائع یعنی شمسی توانائی، پن بجلی اور الیکٹرک مصنوعات (گاڑیوں، موٹر سائیکلوں وغیرہ)میں بھاری سرمایہ کاری، 2030ء تک ستّر ارب درخت لگانے کا ہدف اور2060ءتک کاربن اور دیگر گیسز کے اخراج کو مکمل طور پر کنٹرول کرناشامل ہیں۔ 

    اسی طرح اگر ہم ماحولیاتی آلودگی کے سدباب اور روک تھام کی بات کریں تو یہ اِنفرادی کو ششوں یا محض سیمینارز ، کانفرنسز اور میڈیا پر بیٹھ کر چند نعرے لگانے سے ممکن نہیں۔ اس کے لیے اجتماعی اور شعوری جدو جہد کی ضرورت ہے کہ اس مسئلے کی اصل وجوہات پر غورو فکر کر تے ہوئے ہم اس حقیقت کو سمجھیں کہ اگر ایک انسانی مسئلہ جیسے کہ ماحولیاتی آلودگی وغیرہ اس سرمایہ دارانہ نظام کے ذریعے ہمارے معاشرے میں پیدا ہوا ہے تواس کا مقابلہ بھی ایک صالح ، عادلانہ اور انسان دوست ریاستی نظام کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے۔

    Share via Whatsapp