سنت ابراہیمی: قربانی سے نمائش تک کا سفر
پاکستان میں آج کل جو قربانی کی روایت ہمیں دِکھائی دیتی ہے، وہ اپنی اصل روح سے بہت حد تک محروم ہوچکی ہے۔۔۔۔

سنت ابراہیمی: قربانی سے نمائش تک کا سفر
زاہد انصاری۔ گوجرہ
پاکستان میں آج کل جو قربانی کی روایت ہمیں دِکھائی دیتی ہے، وہ اپنی اصل روح سے بہت حد تک محروم ہوچکی ہے۔ قربانی؛ جو دراصل ایثار، اخلاص اور خدا کی رضا کے حصول کا ذریعہ تھی، اَب ایک نمائش، مسابقت اور مالی برتری کے اِظہار کا ذریعہ بن چکی ہے۔ اس تبدیلی کے پس منظر میں معاشی ناانصافی، بڑھتی ہوئی مہنگائی، سرمایہ دارانہ اقدار اور نوآبادیاتی نظام کی باقیات کا گہرا عمل دخل ہے۔ سب سے زیادہ متاثر سفید پوش طبقہ ہوا ہے، جو نہ مکمل طور پر نادار ہے اور نہ ہی اتنا صاحبِ حیثیت کہ وہ مہنگی قربانی کا بوجھ آسانی سے برداشت کر سکے۔ یہ طبقہ دوہرے دَباؤ کا شکار ہے: ایک طرف مذہبی و معاشرتی ذمہ داری کا احساس اور دوسری طرف معاشی مجبوری و سماجی دَباؤ۔ چناں چہ قربانی اَب عبادت سے زیادہ ایک "رسم" بن چکی ہے، جو بوجھل دل کے ساتھ ادا کی جاتی ہے یا مکمل نظرانداز کر دی جاتی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام نے اس عبادت کو بھی اپنی منڈی کی معیشت کا حصہ بنا دیا ہے۔ مویشی منڈیاں اَب صرف عبادت کی تیاری کا مقام نہیں رہیں، بلکہ وہ ایک ایسی مارکیٹ بن چکی ہیں جہاں دکھاوا، قیمتوں کی دوڑ اور مالی تفاخر غالب نظر آتا ہے۔ جانوروں کے وزن، نسل، سینگ، رنگ اور چمک پر بحث ہوتی ہے، گویا انسان نیکی نہیں، بلکہ دولت کا مظاہرہ کر رہا ہو۔ میڈیا، اشتہارات اور سوشل میڈیا پر قربانی کے جانوروں کی ویڈیوز اور تصاویر نشر کی جاتی ہیں، جیسے یہ کوئی فیشن شو ہو۔ اس سارے عمل میں روحانیت، عاجزی اور اخلاص کہیں کھو جاتے ہیں۔ ایسے میں وہ خاندان جو محدود آمدنی کے باعث مہنگے جانور نہیں خرید سکتے، وہ نہ صرف معاشی دَباؤ کا شکار ہوتے ہیں، بلکہ معاشرتی احساسِ کمتری میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں۔
یہ تمام عوامل اس نوآبادیاتی ذہنیت کی پیداوار ہیں، جسے آزادی کے بعد ختم کرنے کے بجائے اس کی نئی شکلوں کو اپنایا گیا۔ نوآبادیاتی نظام میں انسان کی قدر اس کی روحانی و اخلاقی خوبیوں سے نہیں، بلکہ اس کی معاشی پیداوار اور صارفیت سے جڑی ہوتی ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں یہ ذہنیت اتنی گہرائی تک سرایت کر چکی ہے کہ اَب مذہبی تہوار بھی مارکیٹ اور طبقاتی تفاوت کا مظہر بن چکے ہیں۔ قربانی کا موقع سرمایہ دار طبقے کے لیے اپنی دولت کے اِظہار کا ذریعہ ہے، جب کہ غریب اور سفید پوش طبقہ شرمندگی، مایوسی اور بیگانگی کا شکار ہوکر رہ جاتا ہے۔ اصل مقصد یعنی غربا کو گوشت پہنچانا، اخوت و ایثار کو فروغ دینا اور تقویٰ کے جذبے کو زندہ کرنا، پسِ پشت چلا جاتا ہے۔
اس صورتِ حال میں سب سے بڑی ذمہ داری ملک کے باشعور نوجوانوں پر عائد ہوتی ہے۔ نوجوان وہ طبقہ ہے جو اگر فکری، شعوری اور اخلاقی بنیادوں پر بیدار ہوجائے، تو کسی بھی نظام کو چیلنج کرنے اور بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ آج کے دور میں محض رسمی عبادات یا سطحی نعرے کافی نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک فکری تحریک جنم لے جو اس پورے سرمایہ دارانہ نظام کی جڑوں کو چیلنج کرے، اس کی اخلاقی شکستگی کو بے نقاب کرے اور ایک ایسا متبادل نظام پیش کرے جو انسان دوستی، عدل، مساوات اور حقیقی روحانیت پر مبنی ہو۔ قربانی کو پھر سے اس کی اصل روح میں زندہ کرنے کے لیے لازم ہے کہ اس کے معاشی اور سماجی پس منظر کو سمجھا جائے، اور اس کے استحصال کو روکا جائے۔
نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ فیس بک اور انسٹاگرام پر جانوروں کی ویڈیوز ڈالنے سے زیادہ ضروری کاموں میں اپنا وقت صرف کریں، جیسے کہ شعور بیدار کرنا، غربت کے خلاف آواز بلند کرنا، طبقاتی نابرابری کو بے نقاب کرنا اور اس نظام کے خلاف مزاحمت پیدا کرنا جو انسان کو محض صارف اور نمائش کا آلہ بناتا ہے۔ یہ تحریک فقط مذہبی حوالوں تک محدود نہ ہو، بلکہ فکری، سماجی اور سیاسی سطح پر بھی ہو۔ قربانی کی اصل روح صرف جانور ذبح کرنے میں نہیں، بلکہ اس ظلم، جبر اور استحصالی نظام کو ذبح کرنے میں ہے جو انسان کو اس کی عزت، خودداری اور عبادت کی اصل سے محروم کر دیتا ہے۔