سماجی تبدیلی کی پہلی اساس اجتماعی شعور - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • سماجی تبدیلی کی پہلی اساس اجتماعی شعور

    ایک لمحے کے لیے رُک کر سوچو، ہمیں زندگی میں سب سے زیادہ بے بسی کا احساس کب ہوا ؟ ہمیں اپنی بے بسی کا احساس اس لمحہ ہوا۔۔۔۔

    By Kalim Ullah Published on May 12, 2025 Views 146
    سماجی تبدیلی کی پہلی اساس اجتماعی شعور
    تحریر: کلیم اللہ۔ بنوں 

    آہ! کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے
    راہ تو،رہرو بھی تو،رہبر بھی تو،منزل بھی تو 

     کانپتا ہے دل تیرا اندیشه طوفان سے کیا
    ناخدا تو ، بحربھی ، کشتی بھی تو، ساحل بھی تو 

    ایک لمحے کے لیے رُک کر سوچو، ہمیں زندگی میں سب سے زیادہ بے بسی کا احساس کب ہوا ؟ ہمیں اپنی بے بسی کا احساس اس لمحہ ہوا  جب ہم نے محسوس کیا کہ ہماری آواز بے اَثر ہے، ہماری رائے کوئی معنی نہیں رکھتی اور ہم بس ایک ایسے نظام کا حصہ ہیں، جس میں ہمارا کوئی اختیار نہیں۔

    شاید یہ اس وقت ہوا جب ہم نے دیکھا کہ ایک نااہل سیاست دان، جو صرف کھوکھلے نعرے لگاتا ہوا اقتدار میں آ گیا اور ہم اس سے مرعوب ہوئے۔
    شاید یہ وہ لمحہ تھا جب ایک سرمائے کے پجاری جس نے ہمارے علاقے کے وسائل چوس لیے، مزید طاقت ور ہو گیا اور اس نے ہمارے احتجاج دادرسی کو بے داد رسی سے تبدیل کر دیا۔

    شاید یہ وہ دن تھا، جب ہم نے محسوس کیا کہ ہماری محنت، ہماری صلاحیت، سب بے معنی ہیں کیوں کہ یہاں قابلیت کی جگہ تعلقات اور سرمائے کی حکمرانی ہے۔

    یہی ہماری سب سے بڑی شکست ہے، لیکن یہ شکست ہماری اپنی پیدا کردہ نہیں، ہمارے دشمن کی پیدا کردہ ہے۔ ہمیں یہ سکھایا گیا ہے کہ ہم بے بس ہیں، ہمیں یہ یقین دِلا دیا گیا ہے کہ ہمارے پاس کوئی اختیار نہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سب ایک دھوکا ہے، ایک سراب۔ ہم بے بس نہیں ہیں، ہم کمزور نہیں ہیں۔ اصل طاقت ہمارے ہاتھ میں ہے، بس ہمیں اس کا شعور ابھی تک حاصل نہیں ہوا۔

    جارج اورویل نے اپنے ناول میں  1984ء میں ایک حیران کن حقیقت بیان کی تھی:
    "پرولز (غریب اور مظلوم طبقہ)، اگر وہ کسی طرح اپنی طاقت سے آگاہ ہو جائیں تو انھیں سازشوں کی کوئی ضرورت نہیں پڑے گی۔ انھیں صرف یہ کرنا ہوگا کہ وہ اُٹھ کھڑے ہوں اور خود کو اس طرح جھٹک لیں، جیسے گھوڑا مکھیوں کو جھٹکتا ہے۔ اگر وہ چاہیں تو کل صبح ہی پارٹی (یہاں سرمایہ داری نظام مراد ہے) کے پرخچے اڑا سکتے ہیں۔"

    ذرا غور کرو، کتنا سادہ مگر طاقت ور خیال ہے!
    اور نہ صرف خیال، بلکہ یقین۔ ہمیں کسی شور کی ضرورت نہیں، ہمیں کسی پرتشدد احتجاج کی ضرورت نہیں، ہمیں صرف اپنی اجتماعی طاقت کا شعور درکار ہے۔ بس ایک جھٹکا اور وہ تمام جھوٹے لیڈر، وہ تمام استحصالی نظام دھڑام سے نیچے گر جائیں گے۔

    لیکن سوال یہ ہے کہ یہ جھٹکا کب آئے گا ؟ کیسے آئے گا۔؟
    یہ تب آئے گا جب ہم اور ہم جیسے لاکھوں نوجوان اس حقیقت کو سمجھیں گے کہ ہم ان نام نہاد لیڈروں کے بغیر بھی زندہ رہ سکتے ہیں کہ ہمارا اپنا دماغ، ہماری سوچ، ہماری طاقت ہماری سب سے بڑی قوت ہے۔ یہ تب آئے گا جب ہم فرقہ واریت، لسانیت اور علاقیت جیسے بے معنی جھگڑوں سے نکل کر، زندہ باد مردہ باد کے نعروں کو دفن کر کے اپنے اصل دشمن کو پہچان لیں ۔

    کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ ہر بار جب ہم سوالات اُٹھاتے ہیں، ہمیں کسی نئی بحث میں اُلجھا دیا جاتا ہے۔
    ہمیں بتایا جاتا ہے کہ یہ مسئلہ صرف ہمارے ملک کا نہیں، بلکہ پوری دنیا کا ہےاور اس طرح اصل دشمن کو ہم سے روپوش کیا جاتاہے، کبھی ہمیں مذہب کے نام پر بہکایا جاتا ہے، کبھی قومیت کے نام پر، کبھی تہذیبوں کے جنگ میں اُلجھا دیا جاتا ہے، تاکہ ہم کبھی اصل سوال پر غورنہ کر سکیں:

    یہ وسائل چند ہاتھوں میں کیسے چلے گئے؟ یہ نظام چند خاندانوں کی میراث کیسے بن گیا ؟ یہی چند لوگ ہمیشہ ہمارے لیڈر کیوں بنتے ہیں؟

    ہمارے نام نہاد لیڈرز وہی چالاک لوگ ہیں جو ہمیں ہمیشہ تقسیم رکھتے ہیں۔ ہم انھیں اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں، مگر وہی ہمارے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر ہم متحد ہو جائیں، اگر ہم نے انھیں پہچان لیا، اگر ہم نے سوال کرنا شروع کر دیا، تو ان کا کھیل ختم ہو جائے گا۔

    مگر ایک لمحے کے لئے سوچو: اگر ہم جاگ گئے تو ؟ اگر ہم نے یہ فیصلہ کر لیا کہ ہم اب مزید تماشائی نہیں بنیں گے؟اگر ہم نے اپنے ہم وطنوں سے ہاتھ ملا لیا، اور ان جھوٹے لیڈروں کو مسترد کر دیا؟

    تو پھر سماجی تبدیلی کا آنا کوئی مشکل نہیں۔تاریخی حقائق ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ جب نوجوان طبقہ سماجی شعور سے آراستہ ہو، ایک دوسرے کے ساتھ مل کر جدوجہد کرتا ہے تو وہ ہر قسم کے ظلم و جبر کے نظام کامقابلہ کرسکتا ہے۔ مثلاً، ہماری آزادی کی تحریک اور دیگر تاریخی اجتماعات میں ہزاروں بے نام لوگوں نے اپنی یکجہتی سے ظالم نظاموں کو بدل ڈالا ہے۔ ہمیں اپنی تاریخ سے سبق سیکھ کر، اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے متفقہ اقدامات کرنے چاہییں۔

    اسی طرح ہماری دانش وارانہ بیداری اور سماجی تعاون ہی وہ قوت ہے، جو نہ صرف نظام کی خامیوں کو بے نقاب کرسکتا ہے، بلکہ نئے اور منصفانہ اصولوں پر مبنی معاشرے کا قیام بھی ممکن بنا سکتا ہے۔تعلیم، نظروفکر اور اجتماعی ذمہ داری ہمارے سماجی سفر کی بنیاد ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے آپ کو نہ صرف سیاسی، بلکہ معاشرتی اور ثقافتی محاذوں پر بھی مضبوط کریں، تاکہ ہر فرد کی آواز ایک متحد نعرہ بن کر گونجے۔

    انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے دور میں معلومات کی رسائی نے ہمیں ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کیا ہے، جہاں ہم اپنے خیالات اور نظریات کو بغیر کسی خوف کے بانٹ سکتے ہیں۔ یہ ڈیجیٹل انقلاب ہمیں عالمی سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ مربوط کرتا ہے اور نئے راستوں کی تلاش میں ہماری مدد کرتا ہے، تاکہ ہم اپنے معاشروں کو مزید منصفانہ اور آزاد بنا سکیں۔

    یہ مت سوچو کہ ہم اکیلے ہیں۔ کچھ نہیں کر سکتے،یہ مت سوچو کہ ہماری ایک آواز بے اَثر ہے 
    ہم وہ طاقت ہیں، جسے اگر شعور آ جائے تو یہ نظام چند لمحوں میں زمین بوس ہو جائے گا۔

    قرآن ہمیں یہی سبق دیتا ہے:
    "إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ"
    ترجمہ: بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے – سورۃ الرعد: 11
    تو اَب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔ہمیں غلامی کی زنجیریں پہن کر جینا ہے یا گھوڑے کی طرح ایک جھٹکے میں ان مکھیوں کو جھٹک دینا ہے۔

    جاگو، سوال کرو اور اپنی طاقت کو پہچانو—کیوں کہ ہم ہی وہ حوصلہ اور عزم ہیں جسے یہ دنیا روک نہیں سکتی۔ 
    ھذا بلاغ للناس ولینذروا بہ ولیعلموا انما ھو آلہ واحد ولیذکر الوا الباب۔(ابراہیم۔ایت 52) 
    یہ بات دنیائے انسانیت تک پہنچانے کی ہے، تاکہ لوگ اس سےچونک جائیں اور جان لیں کہ معبود وہی ایک ہےاور عقل والے سوچ لیں۔
    Share via Whatsapp