معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں عقیدہ توحید کا کردار - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں عقیدہ توحید کا کردار

    عقیدہ وہ ہے جو عمل پے اکسائے اور بہترین عمل وہ ہے جو انسانیت کے فائدہ کے لیے ہو۔انسان دوست نظام ہی انسان دوستی کا بہترین اظہار ہے۔

    By Salman Nawaz Published on Jun 02, 2025 Views 271

    معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں عقیدہ توحید کا کردار

    سلمان نواز۔ بہاولپور


    عقیدہ کا مفہوم

    عقائد عقیدہ کی جمع ہے۔ عقیدہ عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی کسی چیز کو باندھنا، گرہ لگانا، پختہ کرنا وغیرہ ہیں۔ایسے پختہ افکار و نظریات جن پر انسان دل کی گہرائیوں سے یقین رکھے، وہ عقائد کہلاتے ہیں۔ اسی طرح انسان  ذہنی و قلبی لحاظ سے جس نظریہ اور فکر کے ساتھ گہری وابستگی اختیار کر لے، اور اس کو دل کی گہرائیوں سے مان کر اس پر قائم ہوجائے، اس کا عقیدہ کہلاتا ہے۔ 

    عقیدہ توحید پر استقامت 

    رسول اللہ ﷺ کا ایک حدیث مبارکہ میں ارشاد ہے : کہو میں اللہ پر ایمان لایا پھر اس پر قائم ہو جاؤ۔ 

     سورہ احقاف میں ہے :"بے شک جن لوگوں نے کہا ، ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر قائم رہے۔ پس ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے"۔ 

    انسانی زندگی میں عقیدہ کی ضرورت و اہمیت

    عقیدہ ایک خیال، ایک نظریہ اور ایک سوچ کا نام ہے۔ ہر فرد اور اجتماع کے اپنے نظریات و خیالات اور اپنی سوچ ہوتی ہے ،جس کی بنیاد پر وہ اپنے اعمال و حرکات کو ترتیب دیتے ہیں۔ اسی طرح انسانی زندگی میں بھی عقائد کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ یہ وہ چشمہ ہے، جس سے انسانی اعمال و افعال کے سوتے پھوٹتے ہیں اور انسان اپنے لیے جِدوجُہد کا راستہ متعین کرتا ہے، کیوں کہ انسانی حرکات و اعمال اس کے ارادے کے تابع ہوتے ہیں۔ اسی طرح انسانی شخصیت کی تعمیر میں ذہنی اصلاح کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور انسانی ذہن پر حکمرانی عقائد ہی کی ہوتی ہے۔ انسانی اعمال کے اچھے یا برے ہونے کا دارومدار اس کے عقائد پر ہوتا ہے ۔ گویا عقائد بیج (seeds) ہیں اور انسانی اعمال اس سے پھوٹنے والے پودے اور درخت ہیں۔ درست عقائد کی مثال خوشبو کی ہے جو ہر طرف پھیلے گی اور فاسد عقائد کی مثال بدبو کی ہے جو ہر طرف گند کرے گی۔ انسا ن کی جن نظریات و افکار پر تربیت ہوگی اس کی سیرت وکردار بھی ویسا ہی ہوگا۔ 

    مولانا عبید اللہ سندھیؒ فرماتے ہیں: "زندگی کا خلاصہ یہ ہے کہ آدمی ایک عقیدہ رکھے اور اس کو عملی شکل دینے کے لیے مسلسل جدوجہد کرتا رہے"۔ 

    اگر عقیدہ محض عقیدہ رہتا ہے اور معاشرے میں اس کا کوئی اَثر پیدا نہیں ہوتا تو یہ عقیدہ ناپختہ ہے، اس سے حقیقی نتائج حاصل نہیں ہو سکتے۔انسان اپنے جذبات کے تابع ہوتا ہے اور وہ انھیں پورا کرنے کے درپے رہتا ہے۔ عقائد جس قدر مضبوط ہوں گے، جذبات اسی قدر مغلوب ہوتے چلے جائیں گے۔ اگر انسان کی خواہشات پر قابو نہ پایا جائے تو اس کا اگلا درجہ یہ ہے کہ خواہشات کی پیروی بذاتِ خود عقیدہ بن جاتی ہے۔ پھر انسان ان خواہشات کو اپنا خدا مان کر پوجنے لگتا ہے۔ 

    سورۃ الفرقان میں ہے :"کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو اپنا الہٰ (حاکم) بنا لیا"۔ 

    سماج کی تشکیل میں عقیدہ کی اہمیت :

    عقیدہ (ایمان ) انسان کی زندگی کا بنیادی عنصر ہے۔ وہ کسی بھی مذہب، قوم یا نظریے سے تعلق رکھتا ہو، کسی نہ کسی عقیدہ پر اس کا ایمان ضرور ہوتا ہے۔ عقیدہ انسان کو یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کیوں پیدا کیا؟  اس کا، اس دنیا میں آنے کا مقصدکیا ہے؟ عقیدہ سورج کی روشنی کی طرح ہے،جس طرح سورج کی روشنی اندھیرے کو کھا جاتی ہے۔ اسی طرح اعلیٰ نصب العین (عقیدہ) نہ صرف انسان کی زندگی کو بہتر کرتا ہے، بلکہ پورے معاشرے کو بھی امن، عدل وانصاف اور محبت و اُخوت کا گہوارہ بناتا ہے۔ جتنا اعلیٰ نصب العین ہوگا اسی پر معاشرے کی تشکیل ہوگی۔ اس اعلیٰ نصب العین پر تعلیم وتربیت کا نظام بنایا جائے گا اور معاشرے کی تشکیل ہوگی۔ پس صحیح عقیدہ وہ ہے جو عمل پر لگائے اور بہترین عمل وہ ہے جو انسانیت کے فائدہ کے لیے ہو۔

    عقیدہ توحید

    توحید عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنیٰ ہے ایک ماننا، ایک جاننا۔ دینِ اسلام میں توحید سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس کی ذات، صفات اور اختیارات میں یکتا ماننا اور سچے دل سے اس کی عبادت کرنا۔ اگر ایک مسلمان عقیدہ توحید کی اصل روح کو پہچان لے اور اس پر تن، من، دھن لگا کر اعمال کرے تو یہ اعمال، مسلمان کو اجتماعی عمل پر لگاتے ہیں اور اس سے ہر طرح کے منفی تصورات ختم کرتے ہیں جو عملی زندگی میں رکاوٹ بنتے ہیں۔

    شرک کا خاتمہ

    انسانی معاشرے کی تباہی کی سب سے بڑی وَجہ شرک ہے،جس معاشرے میں شرک ہوگا وہ معاشرہ کبھی عدل کا نظام قائم نہیں کر سکتا۔ عدل کا نظام قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے کو شرک سے پاک کیا جائے۔ 

    قرآن مجید کی سورہ لقمان میں ہے : "إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ"۔ "بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے"۔ 

    شرک سے نقصان نہ صرف فرد کی دینی زندگی کو ہوتا ہے، بلکہ اس کی سماجی زندگی بھی متاثر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شرک کو اس لیے بڑا ظلم قرار دیا کہ شرک ایسے ذہنوں کو جنم دیتا ہے، جن کے ذریعے سے وہ انسانوں کا معاشی استحصال کرتے ہیں اور معاشرے میں لوٹ کھسوٹ کو پروان چڑھاتے ہیں۔ مقصد ان کا یہ ہوتا ہے کہ اتنی معاشی تنگی کر دی جائے کہ انسان اپنے اصل خدا کی معرفت نہ ہونے کے سبب اس کی طرف توجہ ہی نہ کر سکے، محرومیوں کو اپنی تقدیر سمجھ بیٹھے اور یہ سوچ بنا لے کہ اس کے ساتھ جو معاشی ظلم ہو رہا ہے، اس میں اللہ کی رضا ہے۔ حال آں کہ اس میں اللہ کی نہیں، بلکہ ان ظالموں کی رضا ہوتی ہے، جنھوں نے اپنے مفاد کی خاطر پوری قوم کو یرغمال بنایا ہوتا ہے اور ایک ایسا بت لوگوں کے سر پر بٹھایا جاتا ہے جو ان میں اپنے حقوق کے حصول کے لیے اجتماعیت پیدا نہیں ہونے دیتا ۔

    عقیدہ توحید کا معاشرے پر اَثر؛ عدل و مساوات کا قیام

    جس معاشرے کی تشکیل توحید کے تصور پر ہوگی، وہاں عدل کو بنیادی حیثیت حاصل ہوگی۔ وہاں فیصلے شخصی، طبقاتی یا گروہی مفادات کے لیے نہیں، بلکہ مخلوقِ خدا کی ہمدردی اور انسان دوستی کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔ اگر ہم اس پوری کائنات کا جائزہ لیں تو یہ پوری کائنات عدل پر چل رہی ہے۔ ہمیں کہیں بھی ٹکراؤ نظر نہیں آتا۔ اسی طرح معاشرے کو عدل پر قائم کرنا، تقسیم اور ٹکراؤ سے نجات دلانا، عقیدہ توحید کا لازمی تقاضا ہے۔ 

    اگر معاشرے کی تشکیل عدل پر کی جائے تو انسانی خواہشات کے بت خود بہ خود ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں۔ معاشرہ میں صرف اللہ کے قانون کی حکمرانی ہوتی ہے۔ فیصلے طبقات کو خوش کرنے کے لیے نہیں، بلکہ اللہ کی رضاکے لیے ہوتے ہیں۔ تقسیم انسانیت کا نظریہ شرک پر مبنی ہے،جس معاشرہ کی تشکیل عقیدہ توحید کی بنیاد پر ہوتی ہے وہاں سے تقسیم اور ظلم کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ معاشرے میں عدل وانصاف کا قیام ہوتا ہے۔ معاشرہ احترام انسانیت اور رواداری پر آگے بڑھتا ہے۔ خدا پرستی کا لازمی نتیجہ انسان دوستی ہے۔ سارے انسان اللہ کی مخلوق ہیں۔ خدا پرست انسان کو خدا کے سارے بندوں سے محبت ہوتی ہے۔ وہ خدا کی خوشنودی، اس کی مخلوق کی خدمت میں تلاش کرتا ہے اور ایسے نظام کی تشکیل کرتا ہے، جس کی بنیاد انسانی مساوات، عدل وانصاف، بھائی چارے اور اخوت پر ہو۔ نظامِ عدل ہی انسان دوستی کا بہترین اظہار ہے اور یہی عقیدہ توحید کا تقاضا ہے۔ 

    نوجوانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس فکر کو پہچانیں اور اجتماعی کاوش سے اپنے سماج کو جنت کا گہوارہ بنائیں۔

    Share via Whatsapp