فریضہ قربانی کے عملی تقاضے اور ہماری ذمہ داریاں
فریضہ قربانی کے عملی تقاضے اور ہماری ذمہ داریاں

فریضہ قربانی کے عملی تقاضے اور ہماری ذمہ داریاں
تحریر: منظور علی۔ کراچی
پاکستانی معاشرے میں جب ہم قربانی کا ذکر کرتے ہیں یا سوچتے ہیں تو بیش تر افراد اسے غریبوں کی مدد اور دینی جذبے سے بھی ادا کرتے ہیں،لیکن عام طورپرمحض ایک رسم کی طرح ادا کرتے ہیں۔ جانور خریدنا، ذبح کرنا، گوشت بانٹنا یہ سب اگر روحِ قربانی سے خالی ہو تو یہ خالی خولی رسوم بن جاتی ہیں۔
عیدالاضحیٰ کا عظیم تحفہ ہمیں صرف گوشت کھانے یا نئے کپڑے پہننے کے لیے نہیں دیا گیا، اور نہ ہی قربانی کے جانور صرف نمائش، دکھاوا اور دولت کی برتری کے لیے ہے، بلکہ یہ یاد دہانی ہے کہ ہماری زندگی کا اصل مشن کیا ہے؟
کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ہمارے معاشرے میں جذبۂ ابراہیمی کی نسبت موجود ہے یا نہیں؟
ہم بھی کسی اعلیٰ مقصد پرغور و فکر، اپنا مال، وقت اور قربان کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہیں؟
کیا ہم نے کبھی اپنی ذاتی آسائشوں کو اجتماعی مفاد کے لیے ترک کرنےپر غور کیا ہے؟
عیدالاضحیٰ ایک ایسا تہوار ہے جو ہمیں محض جشن یا رسم کی حد تک محدود نہیں رکھتا، بلکہ یہ درحقیقت غور وفکر کے لیے ایک عظیم موقع فراہم کرتا ہے ۔ یہ ایک فکر، ایک نظریہ اور ایک عظیم انقلابی مشن کی یادگار ہے۔ یہ دن ہمیں صرف جانور ذبح کرنے یا گوشت تقسیم کرنے کی تلقین نہیں کرتا، بلکہ انسان کو یہ پیغام دیتا ہے کہ اگر تمھیں اپنی زندگی کو حقیقتاً خدا کے قریب لانا ہے، تو اس عمل کے ذریعے، روحِ قربانی کو سمجھنا اور اپنانا ہوگا۔
قربانی: ایک عملی نصب العین
اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا ہے کہ قربانی کا ظاہری عمل اصل مطلوب نہیں، بلکہ اس سے تقویٰ اور نیت کا خلوص مطلوب ہے: لَن يَنَالَ ٱللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلَـٰكِن يَنَالُهُ ٱلتَّقْوَىٰ مِنكُمْ ۚ(الحج 22:37)
اللہ کو نہ ان (قربانیوں کے جانوروں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون، بلکہ اسے تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے"۔
قربانی دراصل اس کیفیت کا نام ہے، جس میں انسان اپنا سب کچھ وقت، آرام، مال اور حتیٰ کہ جان ایک اعلیٰ ترین مقصد کے لیے پیش کرنے پر آمادہ ہو جائے۔ یہ مقصد محض ذاتی نجات نہیں، بلکہ ظلم کے خاتمے اور عدل و انصاف پر مبنی نظام کے قیام جیسے اجتماعی تقاضوں کا حامل فریضہ ہے۔ قربانی اس عہد کا نام ہے کہ ہم اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کے نفاذ کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔
حضرت ابراہیمؑ کی قربانی، درحقیقت انسانیت کو طاغوتی نظاموں، جبر و استحصال اور جھوٹی ربوبیت سے نجات دینے کی جدوجہد کا تسلسل ہے۔ یہ قربانی اس بات کی علامت ہے کہ اگر دینِ حق کو غالب کرنا ہے، تو انسان کو اپنی سب سے قیمتی چیز، حتیٰ کہ اپنی اولاد بھی خدا کے مشن پر قربان کرنی ہوگی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے ہونہار بیٹے کو اللہ کی راہ میں قربانی کے لیے پیش کرنا اور بیٹے کا اللہ کے حکم کے آگے سراپا تسلیم و رضا کا مجسم پیکر بننے کا بے مثال واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ دینِ اسلام میں قربانی کا تصور صرف جانور ذبح کرنے تک محدود نہیں، بلکہ یہ تو ایک اعلیٰ ترین نظریے، مقصد اور نظامِ عدل کے لیے خود کو پیش کرنے کا عملی اِظہار ہے۔
نبی کریم ﷺ: مشنِ ابراہیمی کے تکمیل کنندہ
نبی اکرم ﷺ وہ ہستی ہیں، جنھوں نے اپنے جدِ امجد حضرت ابراہیمؑ کی تحریک کو تکمیل تک پہنچایا۔ آپؐ نے انسانیت کے لیے ایک ایسا نظام تشکیل دیا جو آزادی، علم، عدل، امن اور معاشی خوش حالی پر قائم تھا۔ اس نظام کی بنیاد قربانی تھی، جس کا لازمی تقاضا تھا کہ ملتِ ابراہیمی کا ہر سچا پیروکار اپنی استطاعت سے بڑھ کر قربانیاں دے۔ یہ سب قربانیاں ایک عظیم نصب العین غلبہ دین کے لیے تھیں۔
اس غلبے کا ذکر قرآن کریم میں بار بار آیا:هُوَ ٱلَّذِىٓ أَرْسَلَ رَسُولَهُۥ بِٱلْهُدَىٰ وَدِينِ ٱلْحَقِّ لِيُظْهِرَهُۥ عَلَى ٱلدِّينِ كُلِّهِۦ وَلَوْ كَرِهَ ٱلْمُشْرِكُونَ۔ (التوبہ:33، سورہ صف:9)
"وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے، چاہے مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔"
اس آیت مبارکہ کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ نبی کریم ﷺ نہ صرف حضرت ابراہیمؑ کے مشن کو مکمل کرنے والے ہیں، بلکہ آپؐ کی بعثت کا مقصد ہی دینِ حق کو تمام باطل نظاموں پر غالب کرنا تھا۔اور اَب جب کہ آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، یہ ذمہ داری ہمارے کندھوں پر ہے کہ ہم اس مشن کو آگے بڑھائیں اور اپنے معاشرے میں دینِ اسلام کے عدل، امن اور علم پر مبنی نظام کے قیام کی جد و جہد کو تیز کریں۔
"اے اللہ! ہمیں ان میں شامل فرما جو صدق و اخلاص کے ساتھ تیرے دین کی مدد اور تیرے کلمے کو بلند کرنے کے لیے قربانی دیتے ہیں"۔ آمین!