سوشل میڈیا: ٹیکنالوجی، دینی، انسانی و قومی اقدار کا امتحان - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • سوشل میڈیا: ٹیکنالوجی، دینی، انسانی و قومی اقدار کا امتحان

    آج ہم جس دور میں زندہ ہیں، وہ ایک ڈیجیٹل دور ہے۔ اس دور میں ٹیکنالوجی، انٹرنیٹ اور خاص طور پر سوشل میڈیا ہماری زندگیوں کا ایک لازمی حصہ بن چکے ہیں۔

    By اعتدال حسین شاہن Published on Jun 12, 2025 Views 116
    سوشل میڈیا: ٹیکنالوجی، دینی، انسانی و قومی اقدار کا امتحان
    اعتدال حسین شاہ چھترپلین ۔ مانسہرہ

    آج ہم جس دور میں زندہ ہیں، وہ ایک ڈیجیٹل دور ہے۔ اس دور میں ٹیکنالوجی، انٹرنیٹ اور خاص طور پر سوشل میڈیا ہماری زندگیوں کا ایک لازمی حصہ بن چکے ہیں۔ کوئی صبح اُٹھتا ہے موبائل چیک کرتا ہے، تو کوئی رات سونے سے پہلے آخری کام کے طور پر سوشل میڈیا پر گزرتے لمحات کو دیکھتا ہے اور دن بھر گاہے بہ گاہے موبائل گردی  مستقل جاری رہتی ہے، اگر کہا جائے کہ موبائل فون اور سوشل میڈیا اَب ہماری روزمرہ زندگی کا ایک لازمی حصہ بن چکے ہیں، تو یہ مبالغہ نہیں ہوگا۔
    لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کا درست استعمال کررہے ہیں؟ کیا ہم نے اس سے فائدہ اُٹھایا یا اپنی تہذیب، اپنے اخلاق، اپنی اقدار اور اپنے رشتے اس کی نذر کر دیے؟ ترقی پذیر ممالک، جن میں پاکستان بھی شامل ہے، ان میں اس سوال کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے، کیوں کہ یہاں نہ تو ٹیکنالوجی کے استعمال کی تربیت دی جاتی ہے اور نہ ہی اس کے اخلاقی دائرے کا شعور عام ہے۔
    سوشل میڈیا بذاتِ خود نہ اچھا ہے نہ بُرا۔ یہ تو باہمی روابط کا ایک ذریعہ ہے، ایک آلہ ہے، ایک پلیٹ فارم ہے۔ 
    اَب اس کو کیسے استعمال کیا جائے گا؟ یہ اس صارف کے ہاتھ میں ہے جو اسے استعمال کرتا ہے،مگر بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اکثریت نے اس طاقت ور آلے کو صرف وقت گزاری، فضول تفریح، یا نامناسب شہرت حاصل کرنے کا ذریعہ بنا لیا ہے۔
    جب ہم سوشل میڈیا پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ٹک ٹاک، انسٹاگرام، فیس بک اور یوٹیوب جیسے پلیٹ فارمز پر موجود ہیں۔ لیکن ان میں سے بہت کم ایسے ہیں جو ان پلیٹ فارمز کا مثبت استعمال کر رہے ہوں۔ زیادہ تر لوگ صرف ویڈیوز بنانے، ناچنے، گانے، دوسروں کو نیچا دکھانے، مذاق اڑانے یا بلاوَجہ مشہور ہونے کے لیے جھوٹا سچا مواد بنانے کی کوششوں میں لگے ہیں۔ ایسی ویڈیوز کی بھرمار ہے جو نہ اخلاقی لحاظ سے قابلِ قبول ہیں، نہ تعلیمی لحاظ سے مفید اور نہ ہی کسی معاشرتی مسئلے کا حل پیش کرتی ہیں۔
    یہ صورتِ حال اس لیے پیدا ہوئی کہ ہمارے معاشرے میں نئی ٹیکنالوجی تو آگئی، مگر اس کے ساتھ وہ تربیت، شعور اور احساسِ ذمہ داری نہ آسکی جو اسے مثبت سمت میں استعمال کرنے کے لیے ضروری ہے۔ ہمیں کسی نے نہیں بتایا کہ ٹک ٹاک، یوٹیوب یا انسٹاگرام بے جاتفریح یاغیرمفید سرگرمیوں کے اِظہار کے لیے نہیں، بلکہ سیکھنے، سکھانے، بات چیت، شعور بیدار کرنے، علم پھیلانے اور معاشرتی بہتری کے لیے بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ہمارے بچوں کو یہ معلوم نہیں کہ ان پلیٹ فارمز پر اپنی ذاتی زندگی کی ہر چیز دنیا کے سامنے لانا ضروری نہیں اور نہ ہی یہ شرافت یا ترقی کی علامت ہے۔
    اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی نظام میں "ڈیجیٹل لٹریسی" کا کوئی تصور ہی موجود نہیں۔ بچے چھوٹی عمر سے موبائل فون استعمال کرنے لگتے ہیں، مگر ان کو یہ نہیں سکھایا جاتا کہ اس ٹیکنالوجی کو کس مقصد کے لیے استعمال کرنا ہے، کہاں حدود قائم کرنی ہیں اور کہاں رک جانا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچے بھی سوشل میڈیا پر وہی کچھ کرتے ہیں جو انھوں نے دوسروں کو کرتے دیکھا ہوتا ہے۔ ان کے لیے اخلاقیات، شائستگی اور وقار جیسے اصول کوئی اہمیت نہیں رکھتے، کیوں کہ ان اصولوں کی تربیت انھیں کبھی دی ہی نہیں گئی۔
    اَب بات کریں والدین کی تو وہ بھی اکثر اس غلط فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ بچے اگر گھر میں رہ کر موبائل استعمال کر رہے ہیں تو وہ محفوظ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سوشل میڈیا نے "گھر کی دیواروں" کو گرا دیا ہے۔ ایک بچہ کمرے میں بیٹھ کر دنیا کے کسی بھی کونے سے کسی بھی قسم کا مواد دیکھ سکتا ہے، کسی سے بھی رابطہ کر سکتا ہے، اور کوئی بھی غیراخلاقی یا نقصان دہ سرگرمی کر سکتا ہے — اور والدین کو خبر تک نہیں ہوتی۔
    اسی طرح تعلیمی اداروں میں بھی سوشل میڈیا کے اخلاقی استعمال پر کوئی تربیت نہیں دی جاتی۔ اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے اساتذہ خود بھی ان پلیٹ فارمز سے واقف نہیں ہوتے اور بعض تو خود بھی ان سوشل میڈیائی مفاسد کا شکار ہوچکے ہوتے ہیں یا پھر ان کی اہمیت کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ طلبا ان سے متاثر ہوکر یا اَزخود سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور جو چیز انھیں آسان، دلچسپ یا مشہور بنانے والی لگتی ہے، وہی ان کا انتخاب بن جاتی ہے — چاہے وہ اخلاقی لحاظ سے کتنی ہی گِری ہوئی کیوں نہ ہو۔
    دوسری جانب حکومت اور ریاستی اداروں کی بے حسی بھی اس مسئلے کو مزید سنگین بنا رہی ہے۔ ہمارے ملک میں سوشل میڈیا پر کوئی واضح پالیسی نہیں، کوئی مستقل قانون سازی نہیں، کوئی تربیتی پروگرام نہیں۔ کبھی کسی ویب سائٹ کو بند کر دیا جاتا ہے، کبھی چند مشہور شخصیات کو بلا لیا جاتا ہے، مگر کبھی اس بات پر غور نہیں کیا جاتا کہ مسئلہ جڑ سے حل کیسے ہوگا؟ جب تک تعلیمی، معاشرتی اور ریاستی سطح پر ڈیجیٹل تربیت کا نظام قائم نہیں ہوگا، تب تک سوشل میڈیا کا منفی استعمال بڑھتا ہی رہے گا۔
    ایک اَور پہلو جس پر غور کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ نوجوان نسل سوشل میڈیا کو اپنا "مستقبل" سمجھنے لگی ہے۔ بہت سے نوجوان اَب ڈاکٹر، انجینئر، استاد یا سائنس دان بننے کے بجائے "انفلوئنسر" یا "سلیبریٹی" بننے کے خواب دیکھتے ہیں۔ وہ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اگر سوشل میڈیا پر ویوز، لائکس اور فالوورز کی تعداد زیادہ ہوگئی تو انھیں زندگی میں کامیابی مل جائے گی۔ یہ سوچ نہ صرف خطرناک ہے بلکہ معاشرے کے مجموعی فکری معیار کو بھی گِرا رہی ہے۔
    ایک اَور مرض جو سوشل میڈیاکے استعمال سے ہماری نوجوان نسل میں پیدا ہورہا ہے وہ خودنمائی و خودپسندی کا ہے۔ ہر نوجوان کوئی تخلیقی کام کیے بغیر خود کو محض تصاویر و ویڈیو یاعجیب وغریب پوسٹوں کے ذریعے نمایاں کرنا چاہتا ہے، کوئی بھی پوسٹ کرنے کے بعد باربار لائیکس کی تعداد گننے اور تعریفی کمنٹس کی تلاش اور جواب آں تعریف نے گویا ایک نفسیاتی مرض کی صورت اختیار کرلی ہے، اس کے نتیجے اجتماعی اندازِ فکر کاتو گویا جنازہ ہی نکل گیا ہے۔
    سوسائٹی کے مسائل کا حل ایک سنجیدہ غوروفکر کا متقاضی ہوتا ہے، جب کہ ہمارے مسائل زدہ معاشرے کا ایک اور مرض بھی اسی سوشل میڈیا کے غیرذمہ دارانہ استعمال کی وَجہ سےہماری نسل نو کی طبیعتِ ثانیہ بن چکا ہے اور وہ ہے ان مسائل پر غیرسنجیدہ تبصرے، لطیفہ گری اور ہربات میں تفنن طبع کاسامان پیدا کرنا ۔ اس معاملے نے تو گویا ہماری قومی مَت ہی ماردی ہے کہ ہم مسائل پر غوروفکر کرنے اور ان کے حل کی جانب متوجہ ہونے کے بجائے اس ”بھانڈ پنے“ کے طرز فکروعمل کے نتیجےمیں ان مسائل کے ذمہ دار عناصر کو ایک ایسی کھلی چھوٹ دے رہے ہیں، جس کا نتیجہ ہمارے اجتماعی زوال کے تسلسل کے علاوہ اورکچھ بھی نہیں ہوگا
    ایسے میں ہمیں سوشل میڈیا کو شیطانی آلہ کہہ کر نظرانداز کرنے کے  بجائے اس کا شعوری اور مثبت استعمال سیکھنے اور سکھانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں بچوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ یوٹیوب پر تعلیم بھی حاصل کی جا سکتی ہے؛ جیسا کہ فیس بک پر سیکھنے والے گروپس بھی ہوتے ہیں، انسٹاگرام پر آرٹ اور ثقافت کا فروغ بھی ممکن ہےاور یہ کہ ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز کو ہنر مندی، معلومات اور آگاہی کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
    اگر ہم نے یہ کام نہ کیا تو ہم اپنی نسل کو صرف تفریح، بے مقصد نمائش، اور غیر ذمہ دارانہ طرز زندگی کی طرف دھکیل رہے ہوں گے۔ اور جب یہ نسل جوان ہوگی تو ان کے پاس شعور نہیں، صرف سمارٹ فون ہوگا۔ ان کے ذہن میں علم نہیں، صرف ویوز کی دوڑ ہوگی۔ ان کے دل ودماغ میں اخلاق واقدار نہیں، صرف نمائش، خود پرستی کی خواہش ہوگی۔ اور یہی سب سے بڑا المیہ ہوگا۔
    لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ: 
    قومی سطح پر سب سے پہلے اہل علم ودانش کو سوشل میڈیا کے استعمال کی بنیادی اقدار اور ضابطہ ءِ اخلاق کے تعین پر سنجیدہ مکالموں اور علمی وفکری محافل سجانے اور اسی سوشل میڈیا کے ذریعے اس کی مناسب تشہیر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس کے محاسن و مفاسد نمایاں کیے جاسکیں۔

    اسی تناظر میں پھر والدین اپنے بچوں کے ساتھ کھل کر بات کریں، ان سے سوشل میڈیا کے استعمال پر تبادلہ خیال کریں۔
    اساتذہ کرام سوشل میڈیا  کو اپنی کلاسزمیں موضوع بحث بنائیں اور طلبا کو اس کا مثبت استعمال سکھائیں۔
    حکومت بھی اس معاملے سے غافل رہنے کی روش کو ترک کرکے سوشل میڈیا کے استعمال کی ایک باقاعدہ پالیسی بنائے جو ہماری دینی، انسانی اور قومی اقدار کے تحفظ کی ضامن ہو اور  اس کے تحت ڈیجیٹل تربیت ہر اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں لازماً دی جائے۔ نیز حکومتی اہلکاروں اور عوامی نمائندوں سے بھی ان اقدار کی پابندی کروائی جائے اور نمائشی اور غیرذمہ دارانہ رویوں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ 
    یاد رکھیے!
    ٹیکنالوجی بذاتِ خود اچھی یا بری نہیں ہوتی ، بلکہ اس کا استعمال اسے نقصان دہ یا فائدہ مند بناتا ہے۔ ہم اگر سوشل میڈیا کو صرف "وقت گزاری" یا "مشہوری" کے لیے استعمال کرتے رہے تو ہم نہ صرف اپنا وقت بلکہ اپنی نسل، اپنی ثقافت اور اپنی اخلاقی اقدار بھی برباد کر دیں گے۔
    اَب فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ ہم سوشل میڈیا کو اپنے ہاتھ میں ایک چراغ بناتے ہیں یا خود اسی کی حرارت میں جل جاتے ہیں۔
    Share via Whatsapp