پاکستان کا عدالتی نظام - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • پاکستان کا عدالتی نظام

    جب تک نظام کی بنیادی فکر، فلسفہ اور تمام اداروں میں ہمہ گیر تبدیلی نہیں آتی، عدلیہ میں کی گئی جزوی اصلاحات بھی بے اثر رہیں گی۔

    By Muhammad Himayat Published on May 22, 2025 Views 343

    پاکستان کا عدالتی نظام

    ( تاریخی پس منظر، فکری اثرات اور عملی تضادات)

    تحریر: محمد حمایت۔ پشاور 


    کوئی بھی جماعت اپنے فکر و فلسفہ کو عملی جامہ پہنانے اور معاشرے میں اس فلسفہ کے وجود کو ظاہر کرنے کے لیے ایک نظام وضع کرتی ہے۔ گویا نظریاتی عوامل (theoretical factors) کو انتظامی طور پر عملی جامہ پہنانے اور ظاہر و غالب ہونے کے لیے نظام وضع کرنا ضروری ہوتا ہے۔ نظام دراصل فکروفلسفہ، سیاسی و معاشی نظام کے عملی انتظام کا نام ہے۔ باالفاظ دیگر نظام ان"اساسی قواعد و قوانین کے مجموعہ" کا نام ہے، جنھیں کسی جماعت  نے اپنے فکر و فلسفہ اور عملی کردار کے لیے بنیادی حیثیت دے دی ہو  اور پھر اپنے فلسفے اور فکر کی تشریح و تفصیل اور اپنے عملی کردار کی وضاحت ان اصولوں کی روشنی میں کرتی ہو، مثلاً سرمایہ دارانہ نظام، اشتراکی نظام ، اسلامی نظام۔ [i]۔

     جب نظام تشکیل پاتا ہے تو سیاسیات کی رو سے اس کی شکل و ہیت کچھ یوں بنتی ہے: 1۔  مقننہ (Legislative) 2۔  انتظامیہ (Executive)3۔ عدلیہ (Judiciary)

     مقننہ قانون ساز ادارہ ہے، انتظامیہ ان قوانین کے نفاذ کی ذمہ داری نبھاتی ہے، جب کہ عدلیہ انصاف کی فراہمی اور قانون کی تشریح کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ زیرنظر مضمون میں عدلیہ کی اہمیت اور بالخصوص پاکستان کے عدالتی نظام کے بارے میں غوروفکر کرتے ہیں۔آج کے دور میں  عدلیہ نظام کا ایک اایسا ادارہ  ہے جو نہ صرف آئین و قانون کی تشریح کرتا ہے، بلکہ عدل و انصاف بھی فراہم کرتا ہے ۔ عدلیہ نظام کی بنیادی سوچ سے ہٹ کر کوئی الگ ادارہ نہیں ہوتا، بلکہ اسی اجتماعی نظام کی ایک کڑی ہوتی ہے، جس کی بنیاد پر معاشرے کی تشکیل ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مروجہ نظام کا عدلیہ پر گہرا اثر ہوتا ہے اور عدلیہ کسی بھی درجے میں اس سے تجاوز نہیں کرسکتی۔ انصاف دینے والے عوامل میں نظام کی بنیادی روح اَثر انداز ہوتی ہے، کیوں کہ تمام قوانین وضابطے اس نظام کے فکر کے ذیل میں آتے ہیں۔

    برصغیر پاک و ہند میں انگریز کی آمد سے پہلے عدالتی نظام فتاوٰی عالمگیری کے تحت چلتا تھا اور اس کے مطابق فیصلے ہوتے تھے۔ فتاوٰی عالمگیر ی کو محمد محی الدین اورنگزیب عالمگیرؒ کے دور میں مدون کیا گیا اور پورے برصغیر میں نافذ کیا گیا۔  ویکیپیڈیا کےمطابق : 

    ’’فتاویٰ عالمگیری مختلف علاقوں کے ممتاز علمائے کرام کی کاوشوں کا نتیجہ تھا، جن میں حجاز سمیت دنیا کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے خصوصاً فقہِ حنفی کے علما شامل تھے۔ شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر نے فتاویٰ عالمگیری کی تدوین کے لیے پانچ سو ماہرینِ فقہ اسلامی کو جمع کیا، جن میں سے 300 برصغیر سے، 100 عراق سے اور 100 حجاز سے تعلق رکھتے تھے۔ لاہور کے مشہور فقیہ شیخ نظام کو اس کمیشن کا صدر مقرر کیا گیا، جس نے اس عظیم فقہی مجموعے کی تدوین کی نگرانی کی۔ ان علما کی کئی سالوں پر محیط محنت کے نتیجے میں ایک ایسا اسلامی ضابطہ قانون مرتب ہوا جو برصغیر کے لیے مغلیہ دور کے اواخر میں نافذ کیا گیا۔ یہ فقہی مجموعہ شخصی معاملات، خاندانی قوانین، غلاموں سے متعلق مسائل، جنگ، جائیداد، مذاہب کے مابین تعلقات، لین دین، محصولات، معیشت اور دیگر مختلف قانونی پہلوؤں پر مشتمل ہے، جن کے متعلق اس دور کے فقہا نے اپنے فتاویٰ دیے۔‘‘

    فتاویٰ عالمگیری دس جلد وں کی صورت میں تا حال موجود ہیں اور بنیادی مسائل سے لے کر میراث، طلاق ، عدالتی ضابطہ، بیع، عقد، شہادت وغیرہ پر مفصل رہنمائی دیتاہے۔

    1857ءکی جنگ آزادی کے بعد  انگریز نےہندوستان میں عدالتی نظام کے مروجہ نظام کو ختم کیا ۔یہ عمل مختلف مراحل میں وقتاً فوقتاً ایکٹس کے نفاذ کی صورت میں کیا گیا جو 1857ء سے 1947ء تک جاری رہا اور بعد میں پاکستان بننے کے بعد بھی انھی قوانین اور اسی ڈھانچے کو برقرار رکھا گیا ۔ پاکستان کی موجودہ عدالتی ساخت کچھ یوں ہے :

    آئینی عدالتیں: ہائی کورٹس (عدالتِ عالیہ) ، سپریم کورٹ (عدالت عظمیٰ)، فیڈرل شریعت کورٹ اور ٹرائبونلز (سروسز ٹرائبونلز وغیرہ) 

    قانونی عدالتیں : دیوانی عدالتیں، فوجداری عدالتیں اور خصوصی عدالتیں۔

    دیوانی عدالتیں:عدالت سول جج، عدالت ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج/ڈسٹرکٹ جج

    فوجداری عدالتیں:عدالت جوڈیشل مجسٹریٹ ، عدالت ایڈیشنل سیشن جج / ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج

    خصوصی عدالتیں:انٹی کرپشن کورٹس، احتساب کورٹس، انٹی ٹیررزم کورٹس ، بینکنگ کورٹس، کنزیومر کورٹس، ڈرگ کورٹس، لیبر کورٹس، فیملی کورٹس، نارکاٹکس کورٹس، رینٹ کنٹرولر، چائلڈ پروٹیکشن کورٹس، اسپیشل کورٹس آفنسز ان بینک، کسٹم ، ٹیکسیشن و انٹی سمگلنگ کورٹس ، انوائرمنٹل ٹریبونل وغیرہ۔

    مقدمات نمٹانے یعنی زیریں سطح کا فیصلہ بالائی سطح پر چلینج کرنے کے اعتبار سے عدالتیں کچھ اس ترتیب سے مقدمات نمٹاتے ہیں: 

    1۔ ڈسٹرکٹ کورٹس / ضلعی عدالتیں بشمول خصوصی عدالتیں۔

    2۔ہائی کورٹ بشمول ٹرائبونلز

    3۔ سپریم کورٹ

    وہ جرائم جو حدود لا کے تحت درج ہوتے ہیں اس کی ساخت کچھ یوں بنتی ہے۔

    1۔ وہ عدالتیں جو حدود لاء کے تحت جرائم کی سماعت کر سکتی ہوں۔

    2۔ فیڈرل شریعت کورٹ/وفاقی شرعی عدالت

    3۔ شریعت اپیلیٹ بینچ ، سپریم کورٹ آف پاکستان۔

     اکثر مقدمات ذیلی /ماتحت سطح پر دائر کیا جاتا ہے اور زیادہ تر کارروائی زیریں / ماتحت سطح پر عمل میں لائی جاتی ہے اور بعد از فیصلہ فریقین کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ اگر وہ زیریں سطح کے فیصلہ سے محروم ہو تو بالائی سطح یعنی ہائی کورٹ میں چلینج کرسکتا ہے ۔ بالفرض اگر کوئی فریق ہائی کورٹ کے فیصلہ سے بھی مطمئن نہ ہو تو پھر رائج قوانین کے تحت سپریم کورٹ کے دروازے پر دستک دے سکتا ہے۔ اس میں کچھ مقدمات کا دائرہ کار براہِ راست ہائی کورٹ یا ٹرائبونلز کے ساتھ ہوتا ہے، اس لیے اس سطح کے فیصلہ جات کو چلینج کرنے کے لیے صرف ایک سطح یعنی عدالت عظمیٰ دستیاب ہوتی ہے۔

    اَب مندرجہ بالا عدالتوں میں سے چند معروف عدالتوں میں رائج قوانین کا جائزہ لیتے ہیں جن کی بنیاد پر عدالتیں فیصلہ جات صادر کرتی ہیں۔

    (ماتحت عدالت / دیوانی عدالت سے متعلق قوانین

    ضابطہ دیوانی 1908ء ، عدالتی طریقہ کار سے متعلق ہے۔

    قانون شہادت آرڈر، 1984ء، شہادت قلمبند کرنے سے متعلق ہے۔

    Specific Relief Act, 1877 ، عدالت سے مخصوص نوعیت کی داد رسی حاصل کرنے سے متعلق ہے۔

    Limitation Act, 1908 ، مقدمہ دائر کرنے کی معیاد سے متعلق ہے، یعنی کون سا مقدمہ کتنے عرصے میں دائر کیا جا سکتا ہے۔

    Contract Act, 1872 ، فریقین کے درمیان معاہدات سے متعلق ہے۔

    Partnership Act, 1932 ،کاروباری شراکت داری اور اس کی رجسٹریشن سے متعلق ہے۔

    Transfer of Property Act, 1882، جائیداد کے انتقال سے متعلق ہے۔

    Registration Act, 1908، غیر منقولہ جائیداد کی دستاویزات کے اندراج سے متعلق ہے۔

    (ماتحت عدالت / فوجداری عدالت سے متعلق قوانین

    ضابطہ فوجداری، 1898، فوجداری مقدمات اور ان کے عدالتی طریقہ کار سے متعلق ہے۔

    تعزیرات پاکستان، 1860، جرائم اور ان کی سزاؤں سے متعلق ہے۔

    قانون شہادت آرڈر، 1984، فوجداری مقدمات میں شہادت کے طریقہ کار سے متعلق ہے۔

    پولیس رولز، 1934 ، پولیس کے جرائم کی تفتیش اور کارروائی کے طریقہ کار سے متعلق ہدایات فراہم کرتا ہے۔

    (خصوصی عدالت / فیملی عدالت سے متعلق قوانین

    Dissolution of Muslim Marriages Act, 1939، ظلم و زیادتی کی بنیاد پر نکاح کے تنسیخ سے متعلق ہے۔

    West Pakistan Family Court Act, 1964،فیملی عدالت کے دائرہ اختیار اور عدالتی طریقہ کار سے متعلق ہے۔

    The Guardian and Wards Act, 1890،بچوں کی سرپرستی اور ان سے متعلقہ معاملات سے متعلق ہے۔

    Civil Procedure Code, 1908، جہاں فیملی قوانین خاموش ہوں، وہاں یہ قانون قابل عمل ہوتا ہے۔

    The Muslim Family Laws Ordinance, 1961، نکاح، طلاق، دوسری شادی، نان نفقہ، اور نکاح رجسٹریشن جیسے معاملات سے متعلق ہے۔

    Family Court Rules, 1965، فیملی عدالتوں میں مقدمات کے نمٹانے اور کارروائی کے طریقہ کار سے متعلق ہے۔

    کسی بھی قانون کی مؤثریت کا اندازہ اس کے مثبت اور عملی نتائج سے لگایا جاتا ہے۔ مندرجہ بالا قوانین کے ساتھ ان کے نفاذ کا سال درج ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے بیش تر قوانین آزادیِ ہند سے قبل کے بنائے گئے ہیں جو قوانین بعد ازاں وضع کیے گئے، ان کا بھی اپنا ایک تاریخی پس منظر ہے، جس کی تفصیل یہاں مقصود نہیں۔

    اس بحث کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کا عدالتی نظام ایک عام شہری کو مطمئن کیوں نہیں کر پاتا؟ اور یہ عدالتیں کن قوانین کے تحت کام کرتی ہیں؟

    موجودہ دور میں جہاں ریاستی نظام کے دیگر ادارے فرسودگی کا شکار ہیں، وہیں عدالتی نظام بھی بڑی حد تک انگریز دور کے بنائے ہوئے قوانین کے تحت چل رہا ہے۔ ان قوانین کو وقت کے تقاضوں اور قومی مفادات کے مطابق ازسرِنو مرتب کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔

    ملک کے موجودہ سیاسی، معاشی اور سماجی حالات کو دیکھتے ہوئے ہر باشعور فرد اس پرانے اور غیر مؤثر نظام سے نجات چاہتا ہے، لیکن اس کے لیے جو طریقہ کار تجویز کیا جاتا ہے وہ اکثر جزوی اور سطحی ہوتا ہے۔ جب تک ایک جامع اور ہمہ گیر منصوبہ بندی کے تحت مکمل نظام کو یکسر تبدیل نہ کردیاجائے، خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہو سکتے۔

    کسی ادارے میں بہتری کے لیے چند اصلاحات کو انقلاب کہنا درست نہیں۔ اصلاحات کے ذریعے مطلوبہ اہداف تبھی حاصل کیے جاسکتے ہیں، جب نظام مجموعی طور پر درست بنیادوں پر استوار ہو اور محض مخصوص شعبوں میں بہتری کی گنجائش باقی ہو۔ریاستی نظام کے تمام ادارے ایک دوسرے سے مربوط ہوتے ہیں اور ایک کی کارکردگی دوسرے پر اثرانداز ہوتی ہے۔ اگر نظام کا بنیادی فکر و فلسفہ تبدیل نہ کیا جائے، تو صرف ادارہ جاتی اصلاحات سے حقیقی تبدیلی ممکن نہیں ہو سکتی۔

    [i] نظام کیا ہے ،طبع شاہ ولی اللہ میڈیا فاؤنڈیشن،صفحہ نمبر!3

    [ii] https://en.wikipedia.org/wiki/Fatawai

    Share via Whatsapp