خوف اور بھوک کا منفی استعمال - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • خوف اور بھوک کا منفی استعمال

    خوف اُس خودکُش حالت یا کیفیت کا نام ہے، جس میں انسان کےاوسان غیر ہوجاتے ہیں اور جسم کی سلطنت میں۔۔۔۔

    By زاہد خان Published on May 06, 2025 Views 84

    خوف اور بھوک کا منفی استعمال

    زاہد سیف۔ بنوں


    خوف اُس خودکُش حالت یا کیفیت کا نام ہے، جس میں انسان کےاوسان غیر ہوجاتے ہیں اور جسم کی سلطنت میں زلزلے آتے ہیں ۔ ایسے میں ہر شخص ایک دوڑ لگاتا ہے، جس کی کوئی سمت نہیں ہوتی۔ اپنی ہی ناک کی سیدھ سب کو صراطِ مستقیم لگتی ہے ۔ سماعتوں میں صورِاسرافیل کی صورت عبرت کا درس انڈیلا تو جاسکتا ہے، البتہ عمل کی دنیا میں بات کو سمجھنا اور اس پر عمل سے ہی نتائج آتے ہیں۔ خوف کی حالت میں قوتِ گویائی ایک عظیم مرثیے میں ڈھل جاتی ہے ۔ منظر دُھائی دیتا ہے اور نظر اپنی ہی پلکوں میں اَسیری کو ترجیح دیتی ہے ۔ اس لیے کہ خوف ایک روحانی تعطُل اور ایک جسمانی غارت گری کا نام ہے ۔ ادراک کے دروازے خوف زدہ اذہان کی دستک سے نہیں کھلتے ۔ کیوں کہ ادراک کے دَر کا دربان جانتا ہے کہ یہ یہاں محض پناہ لینے آتا ہے اور ادراک بے پناہ ہے ۔ حالتِ خوف میں آدمی فلائٹ موڈ پر رہتا ہے ۔ مزاحمت کی طاقت ختم ہوکر مفاہمت کے ہاتھ پر بیعت ہوتی ہے ۔ بےچارگی، ناتوانی اور نارسائی کا احساس آدمی کے رگ و پے میں اُترتا ہے ۔ خوف کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوتی، کوئی فلسفہ نہیں ہوتا، نہ ہی کوئی ضابطہ ہوتا ہے۔ وحشت خوف کی سفیر ہے اور دہشت اس کی عسکری طاقت ہے ۔ خوف کا محرک وہ گروہ ہے جو احساسِ کمتری کی آخری چوٹی پر براجمان ہے ۔ جہاں آکسیجن نہ ہونے کے برابر ہے ،جس سے اس گروہ کی اپنی سانس پھولی ہوئی ہیں۔اس گروہ کے ہاتھ میں ایک جھنڈا ہے، جسے وہ کسی بہت اونچی جگہ پر گاڑنا چاہتا ہے ، اس لیے اتنی  مشقت اُٹھاتا ہے، کیوں کہ ایسا کرنے سے اُن کی پستی کو تسکین ملتی ہے ۔ یہ ذہنیت عدم تشخص کے عارضے میں مبتلا ہونے کے سبب اپنی ہستی کی صورت بگاڑنے پر کمر بستہ ہے ۔ جب سماج میں ان کے خوف کی دھاک بیٹھ جاتی ہے تو یہ بیمار گروہ جشن مناتا ہے اور ایک خلقت کی گھگی بند رہتی ہے۔

     خوف کا نتیجہ استحصال ہے اوراستحصال کی کوکھ سے بھوک جنم لیتی ہے ۔ بھوک جسمانی عارضہ ہے ۔ آدمی کو زمین پر ایک ایسی دوزخ (بھوک) کے ساتھ اُتارا گیا ہے جو جہنم سے بڑا نہ سہی، لیکن اس کی بھوک جہنم سے بڑی ہے ۔ جسم کی ساری عمارت کا سارا میٹریل اس دوزخ (بھوک) کی بھٹی سے ہوکر آتا ہے ۔ تب کہیں جاکر ہم اپنے جسم کو بقا پر کاربند رکھ سکتے ہیں،نہیں تو یہ عمارت ڈھے جائے گی۔ خاکی وجود کاسب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں بھوک لگتی ہے ۔ جب جسم کو بھوک لگتی ہے تو روح پھڑ پھڑانے لگتی ہے ۔ 

    ایک ٹڑپتی ہوئی روح کی رسائی وہاں تک کیسے ہوسکتی ہے، جہاں کے لیےبڑی پرواز درکار ہے ۔ جب خاکی وجود کو مادی ضرورتوں سے محروم رکھا جاتا ہے تو تخلیق اپاہج ہوجاتی ہے ۔ سماج کے محنت پر ڈاکا ڈالنے والا یہ مختصر برسر اقتدار گروہ سماج کے سارے وسائل ہڑپ کرتا رہتا ہے،جس نے خوف پھیلا رکھا ہے اور باقی ساری خلقت چھاجھ کو ترستی رہتی ہے ۔ اس گروہ کے رویے اور عمل کی وَجہ سے سماج میں ارتقا کی سوچ عنقا ہوجاتی ہے اور بقا کو غنیمت سمجھا جاتا ہے ۔ یہ گروہ اپنے ارتقا کو ساری انسانیت کا ارتقا سمجھے جانے کے لیے وہ سب کچھ کر گزرتا ہے، جس سے حواس معطل رہیں اور دلیل غارت ہو ۔ بھوک کا علاج روٹی ہے اور سماج کی بھوک اور افلاس کو ختم کرنے کے لیے عادلانہ معاشی سسٹم لاگو کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔روح کی دوا مرشد حق گو کی صحبت صالح، ذکر الٰہی اور سجدہ ہے، لیکن جب ایک فاقہ زدہ اپنی روح کی غذا حاصل کرنے کے لیے اُس سخی کے دربار تک پہنچنے کا سفر کرے گا تو حشرسے پہلے اپنے جسم کی ضروریات کی تکمیل میں حشر تو برپا کرتا ہوگا ،وہاں کے درودیوار جلال سے لرزتے تو ضرور ہوں گے،لیکن ایک وقت مقرر تک ڈھیل سب کو دی ہوئی ہے۔

    بھوک اور خوف کے تسلط کا لازمی نتیجہ ہمارے سامنے ہے ۔ آدھی دنیا بھوکی ہے اور آدھی دنیا کھنڈر ہے ۔ ہم یہاں باقی رہنے کے لیے آئے ہی نہیں ہیں ۔ ہم یہاں اپنا کردار نبھانے آئے ہیں ۔ خوف اور بھوک کو سماج سے مٹانے کے لیے ہم ہی کردار ادا کریں گے ۔ حضرت محمد ﷺ کا اُسوہ حسنہ ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ آپﷺ بھی ایک ایسے ہی معاشرے میں آئے۔آپﷺ نے ظالم سسٹم کے خلاف مزاحمتی نظریہ دیا۔جماعتی سطح پر کوشش کرکے مضبوط اور منظم جماعت بنائی اور قومی سطح پر تبدیلی پیدا کی۔اسی اُسوہ حسنہ کے مطابق ادارہ رحیمیہ علوم قرانیہ ٹرسٹ لاہور نوجوانوں کی تعلیم وتربیت کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے،تاکہ آج کا نوجوان اپنے سماج کی تنظیم وتشکیل میں ان سے راہ نمائی لے سکےاور پہلے اپنی قوم کو آزادی دِلاسکےاور اپنے ہاں عدل ،امن اور معاشی خوش حالی کو یقینی بنادے۔ وگرنہ یہ بیمار گروہ جو معاشرے میں خوف اور بھوک کا تسلسل چاہتا ہے،اس نے تو ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا ، دین کا نہ دنیا کا ۔ آج تک ہمیں حواس باختہ رکھا اور سماجی بھوک نے اگر ایسے ہی لاغر رکھا تو ہم اپنے روحانی اور جسمانی دونوں حوالے کھو دیں گے ۔ہمارا ایک حوالہ خالق سے ہمارا روحانیات کے ذریعے ہے اور ایک حوالہ خلقت سے ہے۔ تاکہ ہم زیادہ سے زیادہ ان کو نفع پہنچاسکے ۔ رہے نام اللہ کا ۔۔

    Share via Whatsapp