سماجی تبدیلی کی سائنس کیا ہے ؟ - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • سماجی تبدیلی کی سائنس کیا ہے ؟

    عمرانیات (sociology) کے طالب علم کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ سماجی تبدیلی بھی ایک سائنس ہے،جس طرح۔۔۔۔۔

    By Adil Badshah Published on May 05, 2025 Views 175

    سماجی تبدیلی کی سائنس کیا ہے ؟

    تحریر: عادل بادشاہ - مانسہرہ


    عمرانیات (sociology) کے طالب علم کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ سماجی تبدیلی بھی ایک سائنس ہے،جس طرح دنیا میں ہر عمل قانونِ فطرت کے تحت رونما ہوتا ہے، سماجی تبدیلی کا عمل بھی اسی طرح ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے "وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَحْوِيلا" یعنی ہرگز اللہ کے قانون کو ٹلتا نہ پاؤ گے۔ ایک بنیادی سائنسی فارمولا ہے کہ اگر ہائیڈروجن اور آکسیجن ملتے ہیں تو اس سے پانی کے مالیکیول کا بننا لازمی امر ہے۔ ہم نے فطرت میں بارہا مشاہدہ کیا ہے کہ کسی سائنسی قانون کے پورا ہونے یا رونما ہونے سے پہلے کچھ پیشگی ضروریات (پری ریکویزٹ) کا پورا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اَب اگر سماجی تبدیلی کے قانون اور مراحل کو سائنسی مان لیں تو اس کی بھی کچھ شرائط اور لوازمات ہوں گے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کسی قوم کو سب سے پہلے سماجی تبدیلی کے لیے، ایک اعلیٰ فکر و فلسفہ پر تبدیلی کا شعور پیدا کرنا ہوگا، جس کے نتیجے میں اعلیٰ قیادت پر مشتمل جماعت تیار ہوتی ہے۔ جب جماعت اس کے قابل ہوجائے کہ وہ فرسودہ نظام کو ختم کرکے متبادل نظام برپا کرسکتی ہے، تو پھر اسی جماعت کے ذریعے نئے نظام کی تشکیل وجود میں آتی ہے۔ یہی سنت اللہ ہے۔

     اسی حکمت عملی پر آپﷺ نے صحابہ کرامؓ کی جماعت تیار کی۔ جب وہ جماعت عدل کے نظام کو بنانے اور چلانے کے قابل ہوگئی تو قانون فطرت نے کام کیا۔ جب سنت اللہ یعنی قانون فطرت کی ساری شرائط پوری ہوگئیں ۔ یعنی قرآن کے فلسفے پر جماعت سازی اور تربیت  ہوگئی تو سماجی تبدیلی روپذیر ہونے میں دیر نہیں لگی۔ وہ فاسد اور شیطانی نظام جو مکہ، مدینہ اور عالمی دنیا پر قیصر اور کسریٰ کے نام سے غالب تھا، وہ فطری اصولوں پر تربیت یافتہ جماعت کے سامنے ڈھیر ہوگیا۔لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: 

    "اِنَّ اللّٰهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ" 

    یعنی اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہیں بدلتی ہے۔

    پھر فاسد نظام کے اَثرات سے معاشرہ محفوظ نہیں رہ سکے گا۔ جیسے قرآن میں ارشاد ہے: "ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ" یعنی خشکی اور تری میں فساد ظاہر ہوگیا ان برائیوں کی وَجہ سے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمائیں، تاکہ اللہ انھیں ان کے بعض کاموں کا مزہ چکھائے تاکہ وہ باز آجائیں۔

    آج مسلمانوں پر جو بھوک، غربت، فرقہ واریت اور غلامی مسلط ہے، وہ ان اجتماعی اعمال کے اَثرات ہیں جو ایک فاسد نظام کی شکل میں ان پر مسلط ہیں۔ ہم انھیں بدلنے کی کوشش نہیں کرتے، اس لیے ہم اس فاسد نظام کا مزہ بھی چکھ رہے ہیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو فرعون سے آزاد کروایا، پھر بھی وہ اپنی حالت بدلنے کی کوشش نہیں کرسکی۔ وہ چالیس سال تک وادی تیہ میں بھٹکتی رہی، لیکن جب مطلوبہ تیاری پوری ہوئی تو حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کی سربراہی میں وہ فتوحات حاصل کر گئے، جس کا مطالبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کر گئے تھے۔

    امام شاہ ولی اللہ ؒ نے فرسودہ نظام کا متبادل، اسلام کا عادلانہ معاشی، سیاسی اور سماجی نظام، جو ہزار سال تک دنیا پر قائم رہا، کو دور کے تقاضوں کے مطابق ازسرِنو تشکیل دیا۔ بلکہ ولی اللہی جماعت نے انگریز سامراج کو برصغیر سے بھاگنے پر مجبور بھی کیا، مگر جب ہم نے آزادی کے لیے لڑنے والے راہ نماؤں کو چھوڑ کر انگریز کے آلہ کاروں کو اپنا راہ نما مان لیا۔تو ہم انگریز کے فاسد نظام کو بدلنے میں ناکام رہے، جس کے نتائج بھوک، غربت، فرقہ واریت اور بدامنی کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔

    مولانا عبید اللہ سندھی ؒفرماتے ہیں کہ سماجی تبدیلی Social Change کے لیے تین بڑے اجزا (فکروفلسفہ، جماعت سازی، لائحہ عمل) ہیں ۔

    1۔فکر و فلسفہ: کسی بھی میگا پروجیکٹ کے لیے ایک logical framework ضروری ہوتا ہے، جس کی بنیاد پر وہ مختلف مراحل سے گزر کر تکمیل تک پہنچتا ہے۔ اسی طرح سوسائٹی کا معاشی، سیاسی اور تعلیمی ڈھانچہ جس فکر و فلسفہ پر کھڑا کیا جاتا ہے، اگر وہ فلسفہ ناقص ہے یا اس میں کل انسانیت کی گنجائش موجود نہیں، یا یہ انسانی مادی اور روحانی ضروریات کا احاطہ نہیں کرتا تو وہ مفید نہیں ہوگا۔دنیا میں تین بڑے فلسفے یا logical frameworks ہیں: سرمایہ داری، اشتراکیت اور اسلام۔ آج دنیاکے زیادہ تر ممالک اور وطن عزیز میں لاگو نظام سرمایہ دارانہ فکر و فلسفہ پر مبنی ہے جوسرمایہ دار کے لیے سودمند اور معاشرے کے لیے ناسور ہے۔ اس کے برعکس، اسلامی نظام کا بنیادی فکر و فلسفہ توحید پر مبنی ہے، جو ایک سماجی نظریہ ہے اور سماجی عدل کا تقاضا کرتا ہے۔ قرآن کریم میں فرمان ہے: "لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَ اَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ" یعنی بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو روشن دلیلوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور عدل کی ترازو اتاری، تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔لوگوں کو انصاف پر قائم کرنے کے لیے عدل کا نظام تشکیل دینا ضروری ہے۔

    عادلانہ سماج کی تشکیل اسی طرح فرض ہے، جس طرح نماز فرض ہے۔ اللہ نے انسان کو اپنا نائب بنا کر بھیجا کہ وہ اپنے کنبے کی معاشی، سیاسی اور سماجی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ایک عادلانہ نظام تشکیل دے۔ ہر دور کے تقاضے کے مطابق انبیا علیہم السلام بھیجے گئے، جنھوں نے اپنے اپنے معاشروں میں عدل پر مبنی نظام قائم کیا۔ اسی طرح انسانیت کے آخری نبیﷺ کو قرآن مجیدکی شکل میں راہ نما اصول دیے گئے جو تاقیامت مشعلِ راہ ہیں۔

    2۔ جماعت سازی: ایک اعلیٰ فکر و فلسفہ پر ایک جماعت کی تیاری بھی ضروری امر ہے۔ کیوں کہ جب سوسائٹی ایک فرسودہ فلسفے پر قائم ہوتی ہے تو لوگوں کی ذہنی حالت بہت پست ہوجاتی ہے۔ فاسد نظام سوسائٹی کی اکثریت آبادی کی عقل مار دیتا ہے، تو پھر اس ماحول میں نئے فلسفے پر جماعت سازی ایک مشکل عمل ہوتا ہے۔ اس کے لیے ان لوگوں کو ڈھونڈنا پڑتا ہے جو "ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ" یعنی جو فطرت اللہ پر قائم ہوتے ہیں۔ انھیں تلاش کر کے جماعت سازی کا عمل مکمل کرنا ہوتا ہے ۔ جب وہ تربیت یافتہ جماعت اس فریم ورک کو implement کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے تو فاسد نظام گرا کر ایک نیا نظام چلانے کے قابل بن جاتی ہے۔ تو قدرت یوسف علیہ السلام کی طرح ملکی وسائل کی مینجمنٹ اس جماعت کے سپرد کردیتی ہے۔

    3۔ تبدیلی کا پروگرام :فاسد نظام کو شکست دینے کے لیے، تربیت یافتہ جماعت کے پاس ایک مکمل لائحہ عمل اور پروگرام کا ہونا ضروری ہے۔ خلافت باطنہ کے دور میں تنظیم سازی، مینجمنٹ کا ہنر، علم کا حصول تاکہ عدمِ تشدد کی بنیاد پر سیاسی ڈھانچہ کھڑا کر سکیں اور فاسد نظام کو گرانے کے لیے ایک ایسا پروگرام ترتیب دینا ضروری ہوتا ہے جو موجودہ حالات کے مطابق ڈیزائن کیا گیا ہو۔

    آج کے Neo colonialism کے دور میں نظاموں کا شعور اور اجتماعی شعوری جدوجہد ہی غلامی سے چھٹکارے کا واحد راستہ ہے۔نوجوانوں کو اپنے اور وطن عزیز کےبہتر مستقبل کے لیے عدم تشدد کے اصول پر ہمہ گیر مثبت اور تعمیری جدوجہد کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔

    Share via Whatsapp