میڈیا کا شوروغُل
عوام کی رائے قائم کرنے میں میڈیا کا کردار، عوام کو اصل مسائل کی طرف متوجہ نہ ہونے دینا اور نان ایشوز پر اُلجھا کر رکھنا.....
میڈیا کا شوروغُل
تحریر:محمد سلمان رانا، کراچی
آج کل کے دور میں الیکٹرانک، پرنٹ و سوشل میڈیا عوام کی آگہی اور رائے عامہ بنانے کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اسی طرح نان ایشوز کی طرف متوجہ کر کےقوم میں بے شعور اور حالات کا درست ادراک نہ کرنے میں بھی سب سے اہم کردار میڈیا ہی ادا کرتا ہے۔
میڈیا ہو یا ریاست کے دیگر ادارے، وہ کسی فکر ونظریہ اور اس کی بنیاد پر بننے والے آئین و قانون کے تحت کام کرتے ہے۔ اگر ریاست کا بنیادی فکر و نظریہ "انسانیت " ہو گا تو اس کے تمام ادارے انسانی ترقی، انسانی ہمدردی، بھائی چارہ، امن و امان، اخوت و محبت کی بنیاد پر کام کریں گے اور یہی اخلاقیات اپنی قوم میں پیدا کرنے کی کوشش بھی کریں گے۔ لیکن اگر اس ریاست کا بنیادی فکرو نظریہ "سرمایہ" ہو تو تمام ادارے اسی بنیاد پر کام کرتے ہوئے، سرمایہ سے محبت اور سرمایہ دار طبقہ کے ذاتی مفادات کے تحفظ کے لیے آئین و قانون تشکیل دیا جائے گا اور میڈیا سمیت تمام ادارے عوام میں ذاتی مفاد، سرمایہ پرستی اور خود غرضی جیسے اخلاق پروان چڑھانے میں ممدو معاون ہوں گے۔
آج ایک معروف صحافی عرفان صدیقی کی گرفتاری کی تصویر ہتھکڑوں والے ہاتھ میں اُٹھائے (قلم) کے ساتھ الیکٹرانک و سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو ملک کے بہت سے نامور اور سینئر صحافیوں نے اس پر افسوس، دکھ اور شرمندگی کا اظہار کیا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کسی ذِی شعور قوم میں اساتذہ اور اہل علم کے ساتھ اس طرح کا عمل اختیار کرنا برا سمجھا جاتا ہے مگر معذرت کے ساتھ اُس کے لیے قوم کا ذِی شعور ہونا اور مختلف اداروں اور خصوصاً میڈیا سے وابستہ افراد کا قومی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا بھی ضروری ہے۔
اس سارے واقعے کے بعد کچھ سوالات ذہین میں پیدا ہوتے ہیں۔ اس میڈیا کو اس وقت شرمندگی کا اظہار کرنا چاہیے جب ملک کے میڈیا چینلز اور صحافی اس قلم کو بیچتے ہیں اور قوم کو گمراہ کرتے ہیں ۔اور قلم سے ہی اس قوم کی شاندار تاریخ کو مسخ کرکے مایوسی پیدا کرتے ہیں۔ اس طرحصحیح و درست بات سے قوم کو محروم کر دیتے ہیں۔
یہی میڈیا ایک وقت میں ایک شخصیت کو ہیرو اور اگلے ہی کچھ عرصہ میں اسی شخصیت کو زیرو کر دیتا ہے۔اس کی بہترین مثال محترمہ بے نظیر بھٹو کی ہےکہ ان کی وطن واپسی پر میڈیا چینل اور نامور اینکرز بہت سے سوالات کھڑے کر دیتے ہیں اور پھر انہی دنوں محترمہ کے وصال پر یہی اینکرز اُن کو "دخترِ مشرق" بنا کر پیش کر دیتےہیں۔
مزید یہ کہ عوام کو نان ایشوز (کھیل، شوبز، غیر ضروری خبروں) پر لگا کر مسائل کی اصل وجہ تک پہنچنے سے دور رکھتے ہیں۔
آج ہماری قوم اور بالخصوص نوجوانوں سے گزارش ہے کہ وہ مسائل کی اصل وجہ کا فہم وادراک پیدا کریں اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ ملکی ادارے کس بنیادی فکر و نظریہ پر کام کرتے ہیں اور ایسا کیوں ہوتا ہے کہ شعبہ صحافت و تعلیم سمیت دوسرے اداروں کو نامور افراد اسی سسٹم کا حصہ بننے کے بعد اسی کے ہاتھوں توہین کا شکار ہوتے ہیں۔