پاکستانی نظام کا جائزہ اورہماری ذمہ داری
مملکت پاکستان کی بنیادوں پر غوروفکر کیا جائے اور جو رہنمائ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں نازل کی اس کو مدنظر رکھا جائے تو یہ نظام فسق و فجور قائم نظر آئے گا
پاکستانی نظام کا جائزہ اورہماری ذمہ داری
تحریر: وجاہت شعیب عباسی۔اسلام آباد
پاکستان کو (نام نہاد)آزادی حاصل کئے آج کم و بیش 76 سال گزر چکے ہیں اور یہ مدت کسی بھی قوم کے عروج و زوال کو پرکھنے کے لیے مکمل طور پر کافی ہے۔قیام پاکستان کے وقت اس کے جو مقاصد بتائے گئے تھے اگران کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے ملک کا جائزہ لیں کہ ہم ان مقاصد کو حاصل کرنے میں کس حد تک کامیاب رہے تو ہمیں حقیقت کے الم ناک پہلو کا سامنا کرنا پڑے گا۔
قیام پاکستان کے جن مقاصد کو اس وقت عوام کے سامنے بنیاد بنایا گیا وہ محض دھوکہ ثابت ہوا۔ قرآن اور اسلام کے نام پر بنائی جانے والی ریاست میں سرمایہ داری نظام قائم کیا گیا جو اسلام کی تعلیمات اور حضور اکرمﷺ کی جدوجہد یعنی قیصروکسری کے نظاموں کا خاتمہ(نظام سرمایہ داری سے نجات) کے بالکل متضاد ہے- یوں سود پر مبنی اس نظام نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ جنگ کا راستہ اختیار کیا، جس کے نقصانات اور نتائج پوری قوم بھگت رہی ہے اور بدترین معاشی اور سماجی حالات میں مبتلا ہے۔
دنیا میں ریاست کا وجود عوام کے حقوق کی فراہمی اور ترقی کے لیے ہوتا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو تمام بنیادی ضرورتوں کی فراہمی یقینی بنائے گی اور معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرے گی ۔ بدقسمتی سے ہماری ریاست بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی میں ابتدا سے ہی ناکام رہی ہے اور اس فرسودہ نظام میں انسانوں کا معاشی قتل خوف اور ناانصافی کا ایسا بدترین تسلسل قائم ہوا کہ ہر شہری مسلسل اس سے متاثر ہورہا ہے۔
جس چیز کو عوام کے سامنے خوف و دہشت بنا کر پیش کیا گیا کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی جان و مال محفوظ نہیں ہوں گے،اسی خوفناک صورت کا اج قوم سامناکررہی ہے،چناں چہ ہم نے اپنے ملک میں دیکھا کہ لاکھوں انسانوں کی جانیں ضائع ہوئیں۔ کبھی مذہبی ، کبھی لسانی اور کبھی نسلی فتنہ و فساد کی بنیاد پر، تو کبھی دوسرے ملکوں کی جنگوں میں اپنی قوم کے نوجوانوں کو موت کے منہ میں دھکیل کر۔
اللہ تعالیٰ قرآن میں فسق کا ذکر کرتے ہوئے ایسے افراد، گروہ، یا نظام کا ذکر کرتا ہے جو معاہدات کی پاسداری نہیں کرتے ، انسان نے اللہ تعالیٰ کو اپنا خالق و مالک ہونے کا اقرار معاہدہِ الست میں کیا، لیکن دنیا میں آکر وہ اسے توڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بھیجی گئی تعلیمات کے برعکس ایسا نظام تشکیل دیتا ہے جو انسانوں کو اللہ سے دور کرے۔ اسی طرح انسانوں کے مابین معاہدات جو معاشرے کو پروان چڑھاتے ہیں یا کسی ریاست کے اپنے عوام سے کیے گئے معاہدات جن کی بنیاد پر ریاست وجود میں آتی ہے تو وہ اس کی پاسداری نہیں کرتے اور معاشرے میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔ اس طرح وہ جو اللہ کی زمین میں فساد مچاتے ہیں یعنی انسانوں کا ناحق قتل کرتے ہیں، معاشرے میں تفریق پیدا کرتے ہیں اور وسائل پر قابض ہو کر بیٹھ جاتے ہیں یہ تمام افراد گروہ یا نظام فاسق شمار ہوتے ہیں۔
دنیا کی تاریخ میں کوئی ایسا انسانی معاشرہ پروان نہیں چڑھ پایا جو فسق و فجور کی بنیاد پر قائم ہو۔ فسق کی ان بنیادوں کو جو ہمارے ملک میں قائم ہیں، ان سے ہمیں چھٹکارہ حاصل کرنے کی ضرورت ہے اور معاشرے میں ایسی تبدیلی کی ضرورت ہے جو انسانوں کو آزادی، امن، معاشی خوش حالی اور عدل و انصاف مہیا کرسکے۔ اور اس کے حصول کا پہلا تقاضا آج اس دور میں قائم فسق پر مبنی نظام کو سمجھ کر اس کا انکار اور اس کے متبادل صالح معاشرے کی قیام کے حصول کی تربیت حاصل کرنا ہے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
” إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ“ ( سورۃ الرعد آیت نمبر ۱۱ )
ترجمہ: اللہ اُس قوم کی حالت نہیں بدلتا جو اپنی حالت خود نہ بدلے ۔
اس لیے آج بہ طور مسلمان اور پاکستانی ہونے کے ہمارے اوپر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم قرآن حکیم کے دیے ہوئے نظام عدل کا اور اپنے ملک کے موجودہ ظالمانہ نظام کی خرابیوں کا مکمل شعور حاصل کرکے اس سسٹم کو تبدیل کر کے اپنی قوم کو قرآن حکیم کے دیے ہوئے نظام، عدل کے اصولوں اور رسول اللہ ﷺ اور آپ کی مقدس جماعت کے اسوہ حسنہ کی روشنی میں پوری قوم کو بلاتفریق رنگ ، نسل ، مذہب اور زبان کے عدل ، امن آزادی اور معاشی خوش حالی کا ایسا نظام فراہم کریں، جس کے نتیجے میں وطن عزیز کودنیا میں باعزت اور باوقار مقام مل سکے اور آخرت میں بھی اللہ تعالی ہم سے راضی ہوجائے ۔