نظام کا ظلم: جوہان گالتونگ کی تھیوری
جوہان کا ماننا ہے کے معاشرے میں ظلم کی دو اقسام ہوتی ہیں۔ ایک ہے ظاہری ظلم (direct violence) اور دوسرا ہے نظام کا ظلم (structural voilence).
نظام کا ظلم: جوہان گالتونگ کی تھیوری
تحریر: شاہ محمد ، عبداللہ پتافی
جوہان گالتونگ (Johan Galtung) ناروے کے اسکالر تھے، جنھوں نے امن کے مختلف
پہلوؤں پر نہ صرف تحقیق کی، بلکہ مختلف ادارے بھی بنائے۔ ان کی کتابوں اور تحقیقی
مقالوں کو بین الاقوامی تعلقات (International Relations) اور امن و جنگ (Peace and Conflict Studies) جیسے شعبوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ ان کی مختلف
تحقیقی خدمات میں سے ایک تھیوری انتہائی اہمیت کی حامل ہے، جس میں وہ نظام اور ظلم
کی اقسام کا تجزیہ کرتے ہیں۔
جوہان کا ماننا ہے کہ معاشرے میں ظلم کی دو اقسام
ہوتی ہیں۔ ایک ظاہری ظلم تشدد (direct violence) اور دوسرا ہے نظام کا ظلم تشدد (structural
violence)۔
ظاہری ظلم تشدد وہ ہے جو بآسانی دیکھا جا سکے، مثلاً چوری، قتل اور تشدد وغیرہ۔
کیوں کہ ظاہری ظلم تشدد کے اَثرات ہمارے اعصاب پر بآسانی مرتب ہوتے ہیں۔ جب کہ
نظام کا ظلم وہ ہے جو عام نظر کی زَد میں نہیں آتا، کیوں کہ اس ظلم کے عناصر
پوشیدہ ہوتے ہیں۔ نظام کا ظلم اپنا وجود سماجی ناانصافی (social injustice) نافذ کرکے حاصل کرتا ہے، مثلاً معاشی اونچ نیچ اور
علمی تفریق۔
جو ہان کا کہنا ہے کہ بے شعور اور جامد معاشروں (static
societies) میں
لوگ محض ظاہری ظلم و تشدد پر توجہ دیتے ہیں اور اس کے خلاف سرگرم ہوتے ہیں۔ کیوں
کہ ان لوگوں میں نظامِ ظلم کا پوشیدہ چہرہ دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔
یہی وَجہ ہے کہ ان کی توجہ کا مرکز محض پولیس اور عدالتی نظام (criminal justice
system) کو بہتر بنانا ہوتا ہے۔
جب بھی کوئی جرم یا تشدد کا واقعہ ہوتا ہے تو کمزور معاشروں کے لوگ صرف پولیس اور
عدالتی نظام کو قصوروار ٹھہراتے ہیں اور اُسی میں اصلاحات کرنے کی بات کرتے ہیں۔
اس کے برعکس باشعور اور زندہ معاشرے (dynamic societies
) نظامِ ظلم کو تمام مسائل
کی اصل جڑ سمجھتے ہیں۔ ان کی اساری سرگرمی اس نظام کو سمجھنے اور اس کے خلاف جامع
جدوجہد کرنے کی طرف مرکوز ہوتی ہے۔ کیوں کہ باشعور معاشرے اس بات پہ پختہ یقین
رکھتے ہیں کہ ظاہری ظلم بھی نظام کے ظلم کا ہی لازمی نتیجہ ہے۔ مثلاً وہ یہ سمجھتے
ہیں کہ جرم ، بداخلاقی اور تشدد جیسی سماجی برائیوں کی کڑیاں بھی نظامِ ظلم سے
جاکر ملتی ہیں۔
جوہان کا ماننا ہے کہ جس معاشرے میں ظاہری ظلم کو
کسی حد تک ختم کیا جائے تو وہاں منفی امن (negative peace) پیدا ہو جاتا ہے۔منفی امن ایک ایسی معاشرتی صورت
ہے، جہاں جرائم اور ظاہری ظلم کچھ عرصے تک تو ختم ہو جاتے ہیں، لیکن سماجی
ناانصافی برقرار رہتی ہے۔ یہی وَجہ ہے کہ حالات پھر سے خراب ہونے کا بھرپور امکان
رہتا ہے، کیوں کہ مسائل کی جڑ (structural violence) کو ٹھیک نہیں کیا گیا۔ اس کے برعکس جس معاشرے میں
اس جڑ یعنی نظام کے ظلم کو ختم کیا جائے تو وہاں مثبت امن (positive peace) قائم ہو جاتا ہے۔ ایسے معاشرے میں نہ صرف امن،
بلکہ عدل اور معاشی خوش حالی بھی قائم ہوجاتی ہے۔ مثبت امن کا حصول ہی سماجی
جدوجہد کا مقصد ہونا چاہیے۔ اس لیے سماجی ناانصافی کا خاتمہ کیے بغیر مثبت امن کا
حصول ممکن نہیں۔
سماجی علوم کی مختلف تھیوریز کو پڑھنے اور سمجھنے
کا مقصد یہ ہے کہ ان کو فریم ورک بنا کر سماجی حالات کا تجزیہ کیا جائے۔ جوہان کی
اس تھیوری کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں پاکستان کے حالات اور مسائل کو سمجھنا چاہیے۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ پاکستان میں ظاہری ظلم کی کڑیاں نظامِ ظلم کے مختلف عناصر
سے کیسے جُڑی ہوئی ہیں۔ پاکستان کا تعلیمی نظام، میڈیا اور اسکالر عوام کو نظام کا
شعور نہیں دیتے۔ وہ صرف چند اداروں کو قصوروار ٹھہراتے ہیں اور اُنہی کے اردگرد
عام بحث اور تحقیقی کاوشوں کو مرکوز کرتے ہیں۔صرف پولیس اور عدالتی نظام کو ٹھیک
کرنے یا چند اداروں میں اصلاحات کر لینے سے مسائل کا حل ہونا ممکن نہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارا عقلی زاویہ اور تجزیاتی پہلو نظامِ ظلم کا مکمل طور پہ احاطہ کرے۔ نظام کی تاریخ، اس کی ساخت اور مختلف حصہ داروں (stakeholders) کا بہ خوبی علم ہونا چاہیے۔ اس لیے تمام لوگوں کی عقلی، اجتماعی اور مالی کاوشیں نظامِ ظلم کو سمجھنے اور اس کی جگہ ایک صالح اور انسان دوست نظام کھڑا کرنے کی طرف مرکوز ہونی چاہئیں۔