غلامی کا تاریخی چلن اور اسلام ؛چند غلط فہمیوں کا ازالہ
غلامی کے حوالے سے اسلام پہ چند بنیادی اعتراضات کے جوابات کی کوشش ۔۔۔
غلامی کا تاریخی چلن اور اسلام ؛چند غلط فہمیوں کا ازالہ
تحریر: ڈاکٹرمحمد وقاص۔ ملتان
عرب میں اسلام کے ظہور کے وقت بین الاقوامی جنگی قانون تھا کہ فاتح مفتوح شہر کی تمام رعایا کو غلام بنانے کا حق رکھتا تھا۔ اس بات کی کوئی تخصیص نہیں تھی کہ جنگ میں شریک سپاہی تھے یا عام شہری۔جنگ کے بعدمفتوح شہر کی املاک لوٹنا،عمارتیں اور معبدوں کوگرانا،کھلے عام قتل و غارت معمولی بات تھی اور ان کاموں کو شکست کا لازمی نتیجہ تصور کیا جاتا تھا اور تمام اقوام ایسے کام کرنے پر متفق تھیں۔یہ اس زمانے میں ایک رائج مشق تھی ۔غلام بنائےگئے افراد صدیوں اپنی غلامی سے چھٹکارا نہیں پا سکتے تھے اور نسلوں تک فروخت ہوتے رہتے
اسلام کی آمد کے بعد جن انقلابی تبدیلیوں کی بنیاد رکھی گئی۔ ان میں ایک بہت بڑی اور اہم تبدیلی جنگی قوانین کی بنیادی جزئیات میں بدلاؤ تھا ۔یہ تبدیلی کسی اِصلاحی وعظ کی شکل میں نہیں تھی، جہاں مبلغ کچھ آئیڈیل باتیں مجمع یا معاشرے کو سنا کر اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو جاتا ہے، بلکہ اس عمل کو ایسی جماعت نے پورے نظم و ضبط کے ساتھ یکطرفہ طور پہ اختیار کیا، جس کو بدترین اور طاقت ور کھلے دشمنوں کا سامنا تھا ۔
جماعت صحابہؓ سے عہد لیا گیا کہ فتح کی صورت میں کسی عام شہری کو غلام نہیں بنایا جائے گا ،عورتوں کی عصمت دری نہیں ہو گی ۔عبادت گاہوں کا تحفظ ہو گا۔بے گناہ عوام کو قتل نہیں کیا جائے گا ۔املاک تباہ نہیں کی جائیں گی ۔
جماعت صحابہؓ نے ان تمام اصولوں کو یہ جانتے بوجھتے قبول کیا کہ اگر وہ ناکام ہوئے تو دشمن ان سے ایسی کوئی رعایت نہیں برتے گا ۔ان کے اہل و عیال نہتے ہونے کے باوجود قتل و گرفتار ہوں گے ۔آزاد خواتین باندی بنا لی جائیں گی ۔گھر جلا دیے جائیں گے اور مسجدیں اجاڑ دی جائیں گی ۔
اس یکطرفہ صلہ رحمی کے فیصلے کو اس قدیم قبائلی سماج کے معروض کو سامنے رکھ کر پرکھا جائے تو انسان دوستی کی ایسی شان دار مثال ملنا آج بھی نا ممکن ہے ۔
دوسری جنگ عظیم میں مہذب ملکوں کی افواج نے ایک دوسرے کی شہری آبادیوں کے ساتھ جو سلوک کیا اورجو سلوک ویت نام میں عوام کے ساتھ برتا گیا،جس قسم کے جنگی جرائم عراق میں امریکا کی فوج نے کیے،جس بے دردی سے آسٹریلیا کے فوجیوں نے عام افغانوں کو محض نشانہ بازی کے لیے لہو میں ڈبویا ۔ان سب کے مقابلے میں چودہ سو سال پہلے بہ ظاہر اخلاقی ارتقا کے آغاز پہ موجود سماج کا فیصلہ کس اخلاقی برتری کی معراج پہ تھا۔ تعصب سے آزاد ذہن کے لیے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔
ان یکطرفہ جنگی اصولوں کو دلیری ، جواں ہمتی اور اعلی اخلاقی قدروں کی حامل جماعت کے سامنے ایک مسئلہ اور بھی تھا۔وہ مسئلہ ان افراد کا تھا جو براہِ راست انقلابی جماعت سے ٹکراؤ کے در پے تھے ۔جوجماعت سوسائٹی میں عدل وانصاف کے غلبہ اور پسے ہوئے طبقات کے لیے کھڑی ہوئی تھی ۔یہ لوگ اس جماعت کے ویژن اور مقاصد کے دشمن اور اس کو ختم کرنے کے لیے ہر حد سے گزرنے کو تیار تھے ۔
میدان جنگ میں آنے والی حزب الشیطان اگر شکست کھاجائے اور جنگ میں آئے لوگ گرفتار ہوں تو ان کے ساتھ کیا سلوک ہو؟کیا انھیں فوراً چھوڑ دیا جائے، تاکہ وہ دوبارہ جماعت حق کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہو جائیں؟
اس عمل کو آج کے معیار پہ پرکھا جائے تو کیا آج کے مہذب لوگ جنگی قیدیوں کوگرفتار کرتےہی زمانہ امن و صلح کے آنے سے پہلے اور کسی دو طرفہ یا بین الاقوامی معاہدے یا گارنٹی کے بغیر ہی چھوڑ دیا کرتے ہیں؟
اسی لیے ان افراد کے بارے میں فیصلہ ہوا کہ ان افراد کو قید رکھا جائے ۔
اس وقت کے عرب معاشرے میں concentration کیمپ یا وسیع جیلوں جیسے مظاہر موجود نہیں تھے اور نہ ہی اس چیز کا کوئی رواج موجود تھا ۔اس لیے ان قید شدہ افراد کے لیے تین طرح کے فیصلے ہوئے ۔
ایک یہ کہ ان افراد کو جماعت حق کے دشمن کی جانب سے قید شدہ افراد کے بدلے چھوڑ دیا جائے ۔
دوسرا یہ کہ ان افراد کے رشتہ دار ایک معقول رقم ادا کر کے انھیں رہا کروا لیں۔
اگر پھر بھی افراد بچ جاتے تو پھر ان افراد کو خاندانوں میں قید کرنے کا فیصلہ ہوا ۔
یہ قید اس دور کی مروجہ غلامی کی طرز پہ ہرگز نہیں تھی ۔یہاں حکم دیا گیا کہ ان غلاموں کی نگرانی کرنے والا خاندان وہی لائف سٹائل دے گا جو خاندان خود اختیار کر رہا ہے ۔نیز ان سے ویسی ہی مشقت لی جائے گی، جیسے خاندان کے باقی افراد کرتے ہیں، مگر غلامی کا ظاہری تشخص (symbolic essence) برقرار رکھا گیا، تاکہ جماعت حق کے سامنے آنے والے فرد کو اپنے جرم کا احساس بھی رہے ۔ان خاندانوں میں رہ کر ان مجرم افراد کو اسلام کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور انھوں نے اپنے ہم قوم اور ہم زبان لوگوں کی زندگی میں آنے والی ان انقلابی اور مثبت تبدیلیوں کا بہ غور مشاہدہ کیا ۔اس مشاہدے اور تجربے نے مکہ کے ان مخالف ذہنوں میں بڑی تبدیلی پیدا کر دی ۔یہی وَجہ ہے کہ جب یہ لوگ آزاد ہو کر واپس مکہ گئے تو ان کی بڑی تعداد فتح مکہ سے پہلے ہی مسلمان ہوگئی یا فتح مکہ کے موقع پرمقابلے میں ہی نہیں اتری ۔
یہ حکمت عملی ایک خاموش انقلاب ثابت ہوئی اور اس حکمت عملی نے وہی نتائج پیدا کیے جو صلح حدیبیہ نے ایک دوسری شکل میں پیدا کیے تھے ۔اسی طرح مقابلے پر آئی خواتین کی وہ تعداد جو قیدیوں کے تبادلہ اور فدیہ کی ادائیگی جیسی شرائط پوری نہ کر پاتیں ۔ان کو دشمن اور براہ ِراست ٹکراؤ یعنی جنگ میں براہ راست حصّہ لینے کے باوجود کسی اجتماعی عصمت دری کے مستقل عمل سے نہیں گزارا گیا جو اس زمانے کا عام رواج تھا ۔عرب معاشرے میں میدانِ جنگ میں گرفتار عورتوں کو اکثر ان کے مرد قبول کرنے سے انکار کر دیتے تھے ۔اب ایسی خواتین جو شریک جرم بھی ہیں ،ان کو خاندانوں میں قید کر کے اسی تربیتی عمل سے گزارنا بھی ضروری تھا جو مردوں کے ساتھ روا رکھا گیا اور انھیں اپنی غلطی کا احساس دلانے کے لیے سزا بھی ضرور دی گئی۔اس لیے انھیں باندی بنایا گیا اور وہ بھی اسی تطہیری عمل سے گزریں، مگر اس عمل میں فردِ واحد کو ان کا ذمہ دار بنایا گیا ۔اس کے اصول طے کیے گئے اور انھیں کبھی بھی فاتح افراد کے لیے ایک استعمال کی چیز نہیں بننے دیا گیا ۔
غلامی کے مروجہ نظام اور اسلامی اصلاحات میں ایک اور بہت اہم نکتہ پرانے غلام داری نظام کی بقا کا مسئلہ ہے ۔اس مسئلے کو بہت گہرائی سے سمجھنے کی ضرورت ہے ۔یعنی یہ اعتراض کہ پرانے غلام افراد کو فورا ً آزادی کیوں نہ دی گئی۔
غلاموں کے خلاف نسل پرستی اور نفرت کے جذبات آج کے مہذب معاشروں میں بھی موجود ہیں ۔اس سے کئی گنا زیادہ قسم کا احساسِ تفاخر اس قدیم عرب معاشرے میں موجود تھا ۔اس لیے خطرہ موجود تھا کہ اگر غلام داری کا نظام یکمشت ختم کیا گیا تو عوام اس تبدیلی کو فوراً قبول نہیں کریں گے اور آزاد شدہ غلاموں اور پرانے آقاؤں کے مابین ایک ناختم ہونے والی نسلی نفرت کا آغاز ہو سکتا تھا، جہاں پرانے آقا کبھی دل سے آزاد غلاموں کو قبول نہ کرتے ۔اس رویہ کی ایک مثال حضورﷺ کے آزاد کردہ غلام حضرت زیدؓ اور حضرت زینبؓ کا نکاح تھا جو انہی وجوہات پہ قائم نہ رہ پایا ۔
ان رویوں پر کوئی حد بھی قائم نہیں کی جا سکتی تھی اور ان میں بدلاؤ مسلسل تربیت سے ہی ممکن تھا ۔اس لیے اس خلیج کو فوری قائم کر کے معاشرے کو تقسیم کرنے سے بہتر یہی تھا کہ یہ عمل بتدریج ہو ۔اس لیے اسلام نے غلامی کے ادارے کے حوالے سے چند اہم اور شان دار فیصلہ جات لیے ۔
1۔ کسی بھی آزاد مرد یا عورت کو غلام بنانا قطعاً حرام قرار دیا گیا ۔اس طرح غلاموں کی بھرتی کا پچانوے فی صد سے زائد عمل اسی ایک حکم سے روک دیا گیا ۔
2۔ پہلے سے موجود غلاموں کو اپنی کمائی کا حق تفویض کیا گیا کہ وہ خود کما کر اپنی قیمت مالک کو ادا کر کے آزاد ہو جائیں ۔
3۔ غلام کی غیر مشروط آزادی کو اللہ کے پسندیدہ کاموں میں قرار دیا گیا ۔
4۔ غلام کو گھر کے باقی افراد جیسا ہی معیار زندگی فراہم کرنے کا حکم دیا گیا ۔آج کی مہذب دنیا میں یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ویج لیبر کا شکار فرد ویسا ہی لائف سٹائل اپناتا ہو جو اس کے باس کا ہے ۔
5۔ غلام سے مشقت والے کام کروانے کی بھی حدود و قیود مقرر کر دیں ۔
ان فیصلہ جات کا نتیجہ یہ نکلا کہ بہت جلد انسانی ذہن نسلی تفاخر سے باہر آتا گیا اور غلاموں کے لیے معاشرے میں اپنائیت و قبولیت کے مواقع پیدا ہوئے ۔یہی وَجہ ہے کہ اسلامی تاریخ میں ہی مصر میں تین صدیوں تک مسلمان غلام بادشاہ رہے اور ہندوستان پر بھی غلاموں کے خاندان کی حکومت کو قبول کیا گیا ۔ایسی کوئی مثال مغرب کی تاریخ میں موجود نہیں رہی۔
یہ درست ہے کہ صحابہؓ کے بعد مسلمان حکمرانوں نے ان اصولوں کو ان کی روح کے مطابق اپنانے میں کوتاہی برتی اور غلامی کے ادارے کو غیر ضروری طور پہ برقرار رکھا، مگر ابتدائی اصلاحات نے اس عمل کو بہت کمزور ضرور کر دیا تھا ۔
یہی وَجہ ہے کہ جس وحشی پن اور بربریت کے ساتھ مغرب کے رہائشیوں نے افریقا کے غلاموں کی منڈی لگائی ۔ان کے ساتھ انسانیت سوز سلوک روا رکھا، اور صرف ستر سال پہلے تک ان کو سوسائٹی میں انسان سمجھنے تک سے انکار کیا ۔اس کا کوئی مقابلہ مسلمان معاشروں سے نہیں کیا جا سکتا ۔
اس شقی القلبی اور ہولناکی میں مسلم حکومتیں اور فرمانرواں مغربی غلام داری کے عشر عشیر بھی نہ تھے ۔
مزید یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ غلامی کا ادارہ اسلام کا پیدا کردہ ادارہ نہیں تھا، بلکہ سماج میں پہلے سے موجود ایک جابرانہ اور معروضی شکل تھی جس کو مذہب نے بدلنے کی بھرپور کوشش کی ۔