انتخابات 2024۔پس منظر ،پیش رفت اور نئے امکانات - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • انتخابات 2024۔پس منظر ،پیش رفت اور نئے امکانات

    ملک کی ستر سالہ تاریخ میں سیاسی اتار چڑھاؤ کا تجزیہ اور نئے معروض اور چیلنجز کے شعور اور ادراک کی بحث اور حکمت عملی

    By Waqas ahmad Published on Sep 29, 2024 Views 289

    انتخابات 2024۔پس منظر ،پیش رفت اور نئے امکانات  

    تحریر: ڈاکٹرمحمد وقاص۔ ملتان 

     

    چند ماہ پہلے پاکستان میں نئی حکومت کے قیام کے لیے چاروں صوبوں اور مرکز میں پارلیمانی انتخابات کا عمل اپنے اختتام کو پہنچا ہے ۔اس عمل سے پہلے ہونے والے واقعات،انتخاب کے مراحل اور بعد میں رونما ہونے والے حالات نے پچھلی کئی دہائیوں سے جاری دائروی سفر کے کچھ گوشوں کو بے نقاب کیا ہے ۔اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں طرزِحکمرانی ، عوام کے حق رائے دہی کے استعمال، عوام کی اقتدار میں شراکت اور اس سے جڑے دیگر مفروضوں کو ایک بار اچھے سے کھنگالا جائے کہ پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت سے جڑے مثبت تصورات واقعی حقیقی ہیں یا محض مقتدر قوتوں کے لیے ایک آلاتی مشق سے زیادہ کچھ نہیں جو عوام کو حق رائے دہی کی آزادی کے ڈھکوسلے میں مبتلا رکھتی ہے ۔

    پاکستان کے قیام کے بعد تئیس سال تک نظام پہ قابض مقتدر قوتوں نے ملک میں براہِ راست بالغ رائے دہی پہ مبنی انتخابات کا راستہ روکے رکھا ۔70ءکے انتخاب سے پہلے جو بھی الیکشن ہوئے ،وہاں عوام کو برابری کے بنیاد پہ ووٹ کا حق حاصل نہیں تھا۔ جہاں بنیادی جمہوریت کے نام نہاد ٹائٹل کے نیچے صرف اسی ہزار افراد کو ووٹ ڈالنے کی اجازت تھی ۔1970ء میں جب بعض مجبوریوں کے باعث بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پہ انتخابات کا عمل رونما ہوا بھی تو نتیجہ صفر ہی رہا۔

    پاکستان پہ حاکم ہمہ قسم کی بیوروکریسی نے پوری توانائی اور وسائل سے اس بات کو ممکن بنایا کہ کسی بھی قسم کی عوامی قیادت پیدا نہ ہو سکے۔ یہی وَجہ ہے کہ ڈاکٹر فرخ سلیم کہتے ہیں کہ پاکستان کے ماضی میں ہوئے تمام الیکشنز میں گیارہ سو خاندانوں کے لوگ ہی گھوم پھر کر صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں آتے رہے ہیں۔صرف انھی افراد کو سیاسی عمل اور اقتدار میں جزوی طور پہ شریک کیا گیا جو عوام کو مقتدرہ کی پالیسی کے مطابق اقدامات پہ راضی رکھنے کے لیے پل کا کردار ادا سکیں ۔

    نتیجہ یہ نکلا کہ اقتدار کا حصول عوامی خواہشات کو مدنظر رکھ کر فیصلے لینے سے ممکن ہونے کے بجائے اس بات سے مشروط ہوگیا کہ کون سی جماعت کس حد تک مقتدر قوتوں اور ان کے عالمی حاکموں کی سیاسی اور معاشی پالیسیز کے مطابق اقدامات اختیار کرتی ہے ۔اس عمل کے باعث سیاست میں بھی وہی چہرے پروان چڑھے، جنھیں عوامی اُمنگوں سے کچھ لینا دینا نہیں تھا اور وہ معمولی ذاتی مفاد کے لیے عوام کو ملكی اور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے زیرسایہ ایک نئے استعماری نظام میں باندھ کر رکھتے تھے، جس کا بنیادی مقصد معاشی استحصال اور قومی فیصلوں میں سامراج کی منشا کی تکمیل تھا ۔

    نظام ہر دور میں موجود معروضی حالات کے تحت اُبھرنے والی تحریکات کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اسی طرح موجودہ دور دنیابھر میں پاپولسٹ ( شخصیت پرستی پہ مبنی سیاسی حمایت ) تحریکات کا ہے۔پاکستان میں بھی ایسی تحریک کا ظہور ہوا تو نظام نے اس کا دهارہ بھی اپنے حق میں موڑنا چاہا ۔البتہ ابتدائی کامیابی کے بعد نتائج ویسے نہ نکل سکے، جس کی توقع تھی ۔

    اس بات سے انکار نہیں کہ پاکستان میں موجود اس پاپولسٹ تحریک کے پاس متبادل نظریات اور ان نظریات پہ تربیت یافتہ جماعتی یکسوئی ہرگز موجود نہیں تھی ۔اپنے دورِحکومت میں پاپولسٹ لیڈران مقامی اور بین الاقوامی اشرافیہ کی معاشی اور سیاسی پالیسیز کو ہی کم و بیش آگے بڑھاتے رہے، جس سے عوام شدید مالی مشکلات کا شکار رہے ۔ حکومت کو طول دینے کے لیے ایسے غیرعوامی اور معیشت کش فیصلے لیے گئے کہ عوام کو پرانے مسائل اور حالات نعمت محسوس ہونے لگے ۔مہنگائی کے طوفان اور اشرافیہ کی لا تعلقی نے عوام کا غصّہ آسمان پہ پہنچا دیا ۔اس غصّہ کو پاپولسٹ لیڈروں نے ہمیشہ بہت اچھے طریقے سے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ۔ ریاست کا ہر ستون بہ شمول عدلیہ ،انتظامیہ اور میڈیا کے اس عمل میں شریک جرم رہا ہے ۔یقیناً یہ سارا عمل نظام کے پرانے ہتھکنڈوں کا ہی تسلسل ہوتا تھا، مگر ہمیشہ کی طرح اس بار بھی عوام کو یہ باور کرایا گیا کہ ایک جماعت پہ سیاسی جبر کی اس انتہا کے باوجود عوام نے مزاحمت کی ایک نئی شکل پیدا کی ہے۔ 

    اَب اس سارے عمل کا بہ غور مشاہده کرنے سے چند اہم حقیقتوں تک رسائی ہوتی ہے، جن کو سمجھنا بہت ضروری ہے ۔

    پہلی بات یہ ہے کہ سماج میں پڑھی لکھی مڈل کلاس کے سیاسی شعور میں اضافہ ہوا ہے ۔یہ کلاس سیاسی عمل سے اپنی لاتعلقی کے طویل دور سے باہر آئی ہے۔اس کلاس کا تحرک اگرچہ چند نعروں اور شخصیت پرستی کے نتیجے میں ہوا، مگر سیاسی عمل نے اس کلاس کو نظام کی حرکیات کو بہتر طریقے سے سمجھنے کا موقع دیا ہے، جس سے فائدہ اُٹھانے کی ضرورت ہے ۔

    دوسری بات یہ کہ اس ٹکراؤ نے نظام کے تہ دار مگر فیصلہ کن کردار کو آشکار کیا ۔استعماری نظام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ یہ عوام کو دشمن کی پہچان سے باز رکھتا ہے۔عوام افراد اور اداروں کے درمیان شٹل کاک بنے، کبھی ایک اور کبھی دوسرے فرد یا ادارے کو اپنے مسائل کا ذمہ دار ٹھہرا کر گمراہ ہوتے اور اپنی توانائی ضائع کرتے رہتے ہیں ۔ موجود نظام کی کریہہ شکل ہر دفعہ سامنے آتی ہے۔ بین الاقوامی سے لے کر ملکی اشرافیائی گٹھ جوڑ تک تمام کرداروں سے اُٹھتے پردے بہت زیادہ واضح ہوتے ہیں ۔نظام کی چالوں کا ایسے آشکار ہونا نظام کی شکست کے آغاز کا پہلا مرحلہ محسوس ہوتا ہے اور یہ پیش رفت بھی مثبت محسوس ہوتی ہے۔

    تیسری اہم چیز تحریکی عمل میں پروپیگنڈا کی نئی شکل ڈیجیٹل میڈیا کی اہمیت اور عمل داری ہے۔نئے دور میں جب ریاست کافی عرصہ پہلے عوام میں سیاسی شعور کے مختلف روایتی ذرائع جیسے ورکنگ کلاس کی یونینز اور طلبا کی باقاعدہ انجمنوں سے چھٹکارہ حاصل کر چکی تھی تو ڈیجیٹل میڈیا عوامی رابطوں کے لیے ایک نئے اور کافی حد تک پراَثر راستے کے طور پہ سامنے آیا ہے۔یقیناً اس راستے کی تحدیدات واضح ہیں اور نظریات پہ بحث یا جڑت کے حوالے سے سوشل میڈیا اثرپذیری سے خالی ہے، مگریہ تاثر ہے کہ عوامی مقبولیت کے حوالے سے سماجی رابطے کی ویب سائٹس بہت بڑا کردار ادا کرسکتی ہیں ۔مستقبل میں کوئی بھی متبادل سیاسی نظریہ اور اس کے حامی افراد کے لیے سوشل میڈیا کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں رہا۔ 

    ان حالات میں اَب ایسی عوامی سیاسی طاقت کی اشد ضرورت ہے جو نہ صرف موجودہ استعماری نظام کی فکر اور اس کے سیاسی ،معاشی اور انتظامی ڈھانچے سے مکمل طور پہ واقف ہو، بلکہ اس کے متبادل انسان دوست فکر اور اس پہ نیا سیاسی ،معاشی اور سماجی ڈھانچہ تشکیل دینے کی صلاحیت رکھتی ہو ۔

    انسانی تاریخ سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ سماج کی تبدیلی ایک گہرا اور دو طرفہ عمل ہے،جس میں اقدار و افکار کی بقا بنیادی اہمیت کی حامل ہوتی ہے ۔دوسری طرف ان اقدار کی بقا کا مکمل نظام جہد مسلسل چاہتا ہے ۔تب جا کر ایسی پائیدار تہذیبیں وجود پاتی ہیں، جس سے انسانیت بقا اور ارتقا کا محفوظ راستہ پاتی ہے ۔ سماج کو زوال کے دور میں ایسی منظم جماعت کی ضرورت ہوتی ہے جو پستی سے نکلنے کے لئے متبادل فکراور اس پر ایک مربوط سیاسی اور معاشی ڈھانچہ فراہم کرسکے ۔

    اَب اگر ہم پاکستان میں موجود سیاسی تحرک اور عمل کا جائزہ لیں تو وقتی دشمنی، وقتی دوستی ، آلہ کاری اور جز وقتی تحریکات مایوسی کا سبب ہیں ۔سیاست قومی مسائل کے حل کے بجائےنئے مسائل کاعنوان بن چکی ہے ۔اقدار کی پامالی بنیادی ہدف ہےاور وقتی سیاسی ابال ہر کچھ وقت کے بعد نئی قیادت اس کی مظلومیت کا پروپیگنڈہ نئے واقعات نٗئے تجزیات نوجوان ذہن کو واقعات میں الجھا کر سیاسی قیادت پیدا کرنے کے بجائے شدت اور طاقت سے مسائل کو حل کرنے کا رجحان بڑھا رہی ہے ۔ واقعات دلیل ٹھہرتے ہیں ۔تاریخ پامال ہوتی ہے ۔نظریات بے وقعت ہوتے ہیں، جدوجہد بے معنی لگتی ہے ۔یعنی نہ نگاہ بلند ہے نہ سخن دلنواز نہ جاں پرسوز، شخصیت پرستی نے نوجوان کے قائد بننے کی صلاحیت ہی مسخ کردی ہے ۔یہ صلاحیت اقدار و افکار کی قدر افزائی سے ہی ممکن ہے ۔جماعت صحابہ سے تاریخی شعور پانے والوں کی تاریخ اس کی واضح مثال ہے ۔

     پاکستانی سماج میں اگر ان دو سطحوں پہ پیش رفت ممکن ہو پائے کہ انسانی تاریخ سب سے عظیم انقلاب کہ جس کی قیادت نبی کریمﷺ نے فرمائی کہ اس کےبرپا ہونے کے وقت کی پیمائش کے بجائے اس کی اقدار و افکار کی حفاظت کے لیے جہدمسلسل کو پیش نظر رکھ کر اپنے اعمال و افکار کی قدر قیمت سمجھ کر دیرآید اور درست آید کا شعور میسر آجائے تو وہ وقت دور نہیں کہ ایک مکمل اور ہمہ جہت انسان دوست تبدیلی معاشرے کے دروازے پہ دستک دے رہی ہو۔

     

    Share via Whatsapp