چوکنڈی کے آثار
صدیوں کی تاریخ کا حامل قبرستان جو اس وقت زبوں حالی کا شکار ہے
چوکنڈی کے آثار
تحریر : وسیم اعجاز، کراچی
کراچی کے علاقے قائد آباد سے ٹھٹھہ کی جانب جاتے ہوئے چند کلومیٹر کے فاصلے پر نیشنل ہائی وے کے قریب کراچی کا صدیوں پرانا قبرستان چوکنڈی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جب اس کے بارے میں پڑھا تو وہاں جانے کا اشتیاق پیدا ہوا۔ وہاں جا کر احساس ہوا کہ جس انداز کی قبروں پر نقش ونگار بنے ہوئے ہیں وہ کسی بڑی تہذیب کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ سندھ دھرتی کے اکثر مقامات پر ہمیں اس قسم کے قبرستان مل جائیں گے۔ جس کی سب سے بڑی مثال مکلی کا قدیم قبرستان ہے۔
چوکنڈی کی تاریخ تقریباً 700 سال پرانی ہے جب یہاں جوکھیو، کلمتی اور دیگر بلوچی قبیلے آباد تھے۔ چوکنڈی میں موجود یہ تاریخی مستطیل نما قبریں عموماً ڈھائی فٹ چوڑی، پانچ فٹ لمبی اور چار سے چھ فٹ تک اونچی ہیں۔ زرد رنگ کے پتھروں سے بنی قبریں اور مقبرے اپنے کاریگروں کی ہنرمندی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ چوکنڈی کی وجہ تسمیہ مقبروں کے 4 ستون یا 4کونے ہیں۔ایک روایت کے مطابق اس جگہ کا نام بھی چوکنڈی تھا.
اس قبرستان کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں ہر قبر اپنے اندر مدفون کے بارے میں خود بتاتی ہے کہ وہ کون تھا۔
عورتوں کی قبروں کے پتھروں پر زیورات مثلاً ہار، پازیب،بالیاں اور پھول بوٹے نقش ہیں جو کہ ان قبائل کی معاشی خوش حالی کی جانب ایک اشارہ ہے۔
جب کہ مردوں کی قبروں کے اوپر پتھروں کو کاٹ کر مصری بادشاہوں کے تاج سے ملتی جلتی خوبصورت شکل دی گئی ہے۔ ان سخت پتھروں پر پگڑیوں کو اس نفاست کے ساتھ تراشا گیا ہے کہ دیکھنے والا ان سنگ تراشوں کو داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
جنگجووں کے مقبروں پر ہتھیاروں مثلاً تیر، کمان، تلوار بازی، گھڑ سواری اور خنجر کے نشانات کندہ کئے گئے ہیں۔جس سے پتہ چلتا ہے کہ ماضی کے ان قبائل کو جنگ وجدل کا بھی سامنا کرنا پڑا۔جس کے لئے یہ ہر وقت تیار رہتے تھے۔
جس شخص کا سماجی رتبہ جتنا بلند تھا اس کی قبر کو بھی اتنی ہی زیادہ منزلوں پر بنایا گیا ہے۔
جو لوگ وزرا یا مشیر تھے ان کی قبروں کے گرد جالی دار دیوار قائم کی گئی ہیں جن پر نقش و نگاری کا نفیس کام دیکھنے والے کو اپنی جانب کھینچ لیتا ہے۔
جو سردار تھے ان کے مقبروں کے اوپر چھتری نما چھت بنا ہوا نظر آئے گا۔ کئی قبروں پہ آیت الکرسی اور کلمہ طیبہ نظر آئے گا جو ان قبائیلیوں کا مذہبی رحجان کی جانب اشارہ ہے۔
الغرض ایک سحر ہے جو یہاں پر آنے والوں کو اپنے اندر سمو لیتا ہے اور دیکھنے والا صدیوں پرانی تاریخ میں کھو جاتا ہے۔
ایسے تاریخی مقامات پر جاکر یہ ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے بارے میں جانا جائے جو ان علاقوں میں آج سے سینکڑوں سال پہلے آباد تھے۔ ان کے عادات و اطوار اور رہن سہن کا انداز کیا تھا؟ ان سوالات نے تاریخ کے صفحات پلٹنے پر مجبور کیا۔ اس وقت کے حالات تاریخ کی دبیز طے میں دب چکے ہیں اور چوکنڈی کے مقبروں میں منوں مٹی تلے دبے لوگوں کی طرح ان کے حالات پر بھی گرد جم چکی ہے۔ بہر حال جو معلومات دستیاب ہو سکیں اس کے مطابق 16ویں صدی کے آخر تک ملیر کے علاقے میں کلمتی بلوچوں اور بُرفتوں کے نام کا سِکہ چلتا رہا، جوکھیوں کا قبیلہ جو اِس وقت چوکنڈی قبرستان کا خود کو مُتولی سمجھتا ہے، وہ کوہستان سے اِن دونوں قبیلوں سے بہت بعد میں آکر یہاں آباد ہوا تھا۔ ان سرداروں کی عمل داری ملیر کے سرسبز وشاداب کھیتوں کے علاوہ مشرق کی جانب میر پور ساکرو اور مغرب کی جانب ان علاقوں پر محیط تھی جو آج کل کراچی کہلاتا ہے۔ لوگ زیادہ تر زراعت کے پیشے سے وابسطہ تھے۔ فوج کا مستقل ادارہ قائم تھا جو دشمنوں سے نبردآزما رہتا تھا۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ان سرداروں نے تقریباً700سال قبل ملیر میں مستقل ریاست قائم کی ہوئی تھی۔ اور طاقتور اور سندھ میں اثر و رسوخ والے مانے جاتے تھے۔
"قدیم سندھ" کے مصنف مرزا قلیچ بیگ کراچی کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ' جو لوگ یہاں رہتے تھے وہ جوکھیا کے جام کی نظر داری میں تھے جس نے یہاں ایک قلعہ بھی تعمیر کرایا تھا۔' مزید تحریر کرتے ہیں کہ جوکھیا قبیلے کے لوگ لاڑ(زیریں سندھ) میں آکر آباد ہوئے تھے۔ 200برس تک چوری اور لوٹ مار پر گزارا کرتے رہے ان میں سے ایک شخص بجار جوکھیا کے پاس ملیر اور اس کے آس پاس کی جاگیر تھی۔ بعد کے ادوار میں اس وقت کے کراچی اور ٹھٹہ کے درمیان تجارتی قافلوں سے ٹیکس کی وصولی کا کام بھی کرتے رہے۔۔۔چوکنڈی قبرستان میں بجار نامی اس سردار کے خاندان کی بیشتر قبریں ناموں کے ساتھ موجود ہیں۔
قبرستان کے وسط میں کچھ قبروں کے اوپر ایک دیدہ زیب گنبد بنا ہوا ہے۔ انہی قبروں میں سے ایک جام مرید بن حاجی صاحبِ چوکنڈی کا مزار بھی ہے "صاحب چوکنڈی" سے یہ بات پتہ چلتی ہے کہ یہ چوکنڈی کا سردار تھا جس نے اپنی ریاست کا انتطام سنبھالا ہوا تھا۔ یہ مغل بادشاہ شاہجہاں کا دور تھا۔ جام مرید نے مغل بادشاہ کے خلاف اپنی فوج کو تیار کیا اور لشکر کشی کی۔
سندھ کی ایک مستند تاریخ "جنت السندھ" کے مصنف رحیم داد مولائی شیدائی لکھتے ہیں کہ،’اورنگزیب 1649ء میں جب مُلتان کا نائب تھا تب اُس نے اپنی سیاسی چالوں سے بُرفتوں، نوحانیوں، ھوتوں، جوکھیوں کو آپس میں لڑا کر کمزور کردیا۔ شاہجہاں کے بعد اورنگزیب نے اپنی حکومت کے دنوں میں بلوچوں کی فوجی چوکیاں قائم کروائیں، اُن دنوں کلمتی سرداروں کو دہلی دربار سے، میرپور ساکرہ میں جاگیریں ملنے کے سوا سالانہ 960 روپیے کا وظیفہ بھی ملتا تھا۔ دہلی حکومت نے کلمتیوں کی طرح نومڑیوں سے بھی رعائیتیں کیں۔ پہلے وہ زمینوں پر لگان دیتے تھے لیکن پھر ٹھٹھہ سے کوٹری اور سیہون جانے والے قافلوں سے محصول وصول کرنے پر مقرر ہوئے۔‘ جوکھیو قبیلے کے لوگ آج بھی چوکنڈی کے قریب آباد ہیں۔
دیگر تاریخی ورثے کی طرح چوکنڈی بھی شکست و ریخت کا شکار ہے۔ ماضی قریب میں نہ جانے کیسے یہ بات مشہور ہوگئی کہ ان مقبروں میں خزانہ بھی دفن کیا جاتا تھا۔ ان بے سروپا باتوں کی وجہ سے بھی اس تاریخی ورثے کو بہت نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ چوکنڈی کی خستہ حالی اب زیادہ دیر تک برقرار رہنے والے نہیں۔
مہذب اقوام اپنے تاریخی ورثے کو محفوظ رکھ کر ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتی ہیں لیکن اگر خاص طور پر صرف سندھ کا ذکر کیا جائے تو سینکڑوں ایسے آثار موجود ہیں جو زبان حال سے اپنی کسم پرسی کا رونا رو رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جہاں زندوں کو پوچھنے والا کوئی نہ ہو وہاں ان آثار کی ذمہ داری کون اٹھائے۔