جھوٹ اور معاشرے کی تباہی
معاشرے میں جھوٹ سے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بگاڑ
جھوٹ اور معاشرے کی تباہی
تحریر غلام محمد مری سبی
تعارف
جس طرح سچ کو معاشرے میں بڑی اہمیت دی جاتی ہے اور معاشرے کی ترقی میں اس کا بڑا کردار ہے، ٹھیک اسی طرح اس کے برعکس جھوٹ کی ممانعت اور معاشرے کی تنّزلی کی بنیادی وجوہات میں سے ایک خاص وَجہ یہ بھی ہے کہ جھوٹ تمام برائیوں کی جڑ ہونے کے ساتھ ساتھ نیکوں کے لیے ایک ڈھال (protection layer)بھی ہے ۔ جس طرح روزہ برائیوں کے خلاف ایک ڈھال ہے، اسی طرح جھوٹ نیکیوں کے لیے ایک ڈھال ہے۔ اسی لیے معاشرے میں جھوٹ سے بچنےکا حکم ہے اور سچ بولنے کی تاکید کی گئی ہے اورمعاشرے میں جھوٹ کو اجتماعی حوالے سےروکنے پر زور دیا گیا ہے۔
جب کوئی شخص کسی سنگین الزامات اور ڈر کے باوجود جھوٹ پر سچ کو ترجیح دیتا ہے تو اس کے دل میں خوف خدا انتہا تک پہنچ جاتا ہے، کیوں کہ وہ دنیاوی فوائد کو عام سمجھتا ہے اور اس کے دل میں استقامت اور جرات و بہادری پیدا ہوتی ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی شخص معمول کے حالات میں جھوٹ بولتا ہے، اس کے اندر بزدلی والی عادات پیدا ہوتی ہیں اور وہ سچ سے گھبرانے لگتا ہے۔ اس کے دل میں سچ والا مادہ ختم ہونے لگتا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھ لیں کہ ایسے دل کے گرد ایک غلاف پیدا ہوتا ہے اور وہ سچ کے لیے بند ہو جاتا ہے ۔ کہتے ہیں کہ ایک جھوٹ کو سچ بنانے کے لیے سو جھوٹ اور بولنے پڑتے ہیں ۔ جب ایک انسان کو جھوٹ بولنے کی عادت پڑ جائے تو وہ پھر چاہ کر بھی سچ نہیں بول سکتا، کیوں کہ جھوٹ تمام عملی بیماریوں کی ماں کا کردار ادا کرتی ہے، جیسے کہ قبض تمام جسمانی بیماریوں کی ماں ہے۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں جھوٹ!
سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 10 میں ارشاد ہے : "ان کے دلوں میں بیماری ہے پھر بڑھادی اللہ نے ان کی بیماری اور ان کے لیے عذاب دردناک ہے، اس بات پر کہ جھوٹ کہتے ہیں ۔"
اس میں جھوٹ کہنا بھی ایک خاص مرض (نفاق) کی علامت ہے۔ ایک اور جگہ سورۃ الإسراء آیت نمبر 36 میں اللہ فرماتے ہیں:
ترجمہ:"اور نہ پیچھے پڑ جس بات کی خبر نہیں تجھ کو بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب کی اس سے پوچھ ہوگی۔"
قرآن مجید میں ایک جگہ پر اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ جھوٹ بولنے والوں پر اللہ کی لعنت ہے۔
اس کے علاوہ قرآن مجید میں متعدد بار جھوٹ کی خرابیاں اور سزا بیان کی ہیں، یہاں آخر میں جھوٹ کہنے والے پر اللہ تعالیٰ کی لعنت بھیج دی گئی ہے۔ جس کانتیجہ رحمت خداوندی سےمحرومی ہے۔ اَب جس معاشرے میں جھوٹ کو اتنا فروغ ملے اور اس معاشرے کے تمام امور کی بنیاد جھوٹ پر رکھی جائے تو وہ معاشرہ اللہ کی لعنت اور عذاب سے بھلا کیسے بچ سکتا ہے؟ جس کے عکاسی ہماری موجودہ سوسائٹی پر واضح نمایاں ہے۔
مثلاً ہماری سوسائٹی میں ایک عام سی بات ہوگئی ہے کہ بغیر کسی تحقیق اور جانچ پڑتال کے کسی پر بھی کوئی تہمت لگائی جاتی ہے اور بلاجھجک کوئی بھی جھوٹی بات پھیلادی جاتی ہے۔اسی لیے ہمارے ملک کے نوجوانوں کو کبھی بھی اور کسی کے بھی خلاف جھوٹ اور منافقت سے مذہب کے نام پر یا قومی جذبے کا غلاف چڑھا کر غلط استعمال کیا جا سکتا ہے، کیوں کہ ہم تحقیقات کیے بغیر عمل کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔اَب جس معاشرے میں جھوٹی قسمیں کھا کر اور خوب صورت عنوانات کے پیچھے جھوٹے جلسے جلوس کروا کر قوم اور ملک کو لوٹا جائے تو وہاں ترقی اور کامیابی کی امید نظر نہیں آتی۔ ہمارے ہاں عام طبقے کے علاوہ سیاسی اور حتی کہ چند مذہبی گروہ جو اسلام کے وارث تو بن بیٹھے، لیکن کبھی جھوٹ سے گریزاں نہ ہوئے، بلکہ کسی بھی وقت اپنے بیانات کو بدلنے میں کوئی دِقت محسوس نہیں کرتے۔ بالکل اسی طرح آج سے کئی دہائیوں پہلے ہمارے لوگوں کے درمیان جھوٹ سے کام لے کر جو کام کیے ہیں ان کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔
نبی کریم ﷺکے پاس ایک شخص آیا تو اس نے بھی سب سے پہلے اس بات پر وعدہ کیا کہ وہ جھوٹ کی عادت کو ترک کرے گا تو اسی طرح اس نے تمام برائیاں ترک کر دی تھیں۔ تو ان تمام باتوں سے جھوٹ کے نقصانات صاف واضح ہیں۔جھوٹ کی وجہ سےکسی فرد پر کیا منفی نتائج مرتب ہوتے ہیں، درج ذیل ہیں۔
جھوٹ کے انفرادی نقائص
کسی بھی معاشرے کی خرابی کی بنیاد فرد سے شروع ہوتی ہے اور پھر اس کے اَثرات سوسائٹی میں پھیل جاتے ہیں۔ اسی طرح جھوٹ ایک فرد سے شروع ہوکر پورے معاشرے تک پھیل جاتا ہے۔ جوشخص جھوٹ بولتا ہے وہ معاشرے میں اپنا مقام کھودیتا ہے۔ اس کے نقصانات درج ذیل ہیں۔
* جھوٹے شخص پر کوئی بھروسہ نہیں کرتا ۔
* جھوٹے شخص پر اللہ کی ناراضگی ہوتی ہے۔
* جھوٹا انسان جھوٹ کی وَجہ سے لوگوں سے خوف زدہ ہوتا ہے، اس لیے وہ لوگوں کے سامنے پُر اعتماد نہیں ہوتا۔
* جھوٹ انسان کو زیادہ برائیوں میں مبتلا کرتاہے۔
*منافق کی ایک نشانی جھوٹ بولنے والا ہے۔
* جھوٹ لوگوں میں نفرت کا باعث بنتا ہے۔
جھوٹ کے اجتماعی نقصانات
اللہ تعالٰی نے جتنے انبیا علیہم السلام اس دنیا میں بھیجے، ان سب کو ایک بنیادی مقصد دیا اور پھر اس پر عمل پیرا ہونے کے لیے ایک ٹریک بھی دیا ۔ انبیا علیہم السلام کو کبھی کسی فرد کے لیے نہیں بھیجا، بلکہ ہمیشہ ایک اجتماعی (سوسائٹی) کے لیے بھیجا ہے۔ اور ان کو جو احکامات ملے ہیں وہ بھی کل انسانیت کے لیے تھے ۔ اسی طرح تمام انبیاعلیہم السلام نے بھی جھوٹ کی سب سے پہلے مزاحمت کی ہے، جیساکہ اوپر بیان ہوا جو معاشرے کی تباہی کا موجب بنتی ہے۔ جھوٹ کو اجتماعی طور پر معاشرے سے ختم نہ کیا گیا تو یہ تباہی کا سبب بنتا ہے-اوپر مذکور آیت مبارکہ میں ایک گروہ کو مخاطب کیاگیا ہے کہ اگر اس نے بغیر تحقیق کے جس کام کو آگے بڑھایا اور وہ غلط ثابت ہوا تو اس سے بڑی پوچھ ہوگی۔ پھر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوگی، جس نے جھوٹ سے کام لیا۔
بالکل اسی طرح آج ہمارے کرپٹ لیڈر مختلف قسم کے جھوٹ سے عوام کودھوکہ دیتے ہیں، جس طرح ان لوگوں نے دھوکےاور فریب سے بزرگان دین اور علمائے حق کو مختلف طریقوں سے اذیتیں دیں اور ان کو ناحق شہید کروایا۔ اَب ظاہر ہے اس گناہ کا عذاب تو پوری قوم پر ہوگا جو آج ہم اجتماعی طور پر بھگت رہے ہیں اور جس عذابِ الٰہی میں مبتلا ہیں۔ اس کا بڑا سخت انجام ہوگا اور اللہ کے ہاں گرفت ہوگی۔ جولوگ اپنے آپ کو اس دھوکا اور جھوٹ سے نکال کر سچی توبہ کریں اور جماعت حق میں شامل ہوجائیں تو وہ اپنے آپ کو اور قوم کو اس دھکتی آگ سے نکال سکتے ہیں ۔ کیوں کہ جھوٹ جیسی برائی کی مثال دیمک کی ہے جو لکڑی کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔ اسی طرح یہ جھوٹے لوگ اقتدار کی خاطر قوم و ملک کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا کر چکے ہیں۔ کیوں کہ ان کے دلوں میں اَب اللہ کی محبت کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔ اس لیے کہ ان پر تو اللہ کی لعنت برس چکی ہے۔ لہٰذا اس عذابِ الٰہی سے بچنے کااہتمام کرنےکی ضروت ہے -
بلوچی زبان میں ایک مثال ہے کہ جھوٹ کا سفر تھوڑا ہے، یعنی جھوٹ جلدی ظاہر ہوجاتا ہے اور پھر رسوائی کا سامنا ہوتا ہے۔ اسی طرح جب کسی جھوٹے معاشرے کی بنیاد رکھنا اور اس کی پزیرائی کرنا ایسے ہے جیسے ایک دیوار جس کی بنیاد ٹیڑھی رکھی جائے اور اس پر RCC کی چھت ڈال دی جائے۔کیوں کہ وہ جس دن گرگئی تو تباہی کرے گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں جھوٹ جیسی برائی سے محفوظ رکھے۔ آمین ثم آمین۔