نمازِ تراویح کی سنت کا انکار، بعثت نبویﷺ کے مقاصدِ تلاوت وتعلیم قرآن سے سنگین انحراف
آج اسلام کی ایک اہم ترین عبادت " تروایح "جس کی ادائیگی ماہ رمضان المبارک سے منسلک ہے خاص نشانہ پر ہے۔
نمازِ تراویح کی سنت کا انکار، بعثت نبویﷺ کے مقاصدِ تلاوت وتعلیم قرآن سے سنگین انحراف
اویس میر۔ راولپنڈی
دینِ اسلام ایک نظریہ حیات اور سسٹم کا نام ہے۔ یہ محض چند رسومات کی ادائیگی کا نام نہیں۔ اسی طرح دین میں موجود تمام عبادات جہاں اِنفرادی اصلاح کے ساتھ ساتھ اجتماعی اصلاح لیے ہوئے ہیں، وہیں ان کے مقاصد و اہداف بھی ایک سے زیادہ ہیں۔ وہ انسان کی ذاتی زندگی سے لے کر بین الاقوامی سطح تک کے معاملات پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ آج اس دورِ زوال میں ہم مسلمان تو اس سے بے خبر ہوسکتے ہیں، لیکن اسلام دشمن قوتیں شروع دن سے ہی اس سے باخبر ہونے کے ساتھ ساتھ متحرک ہیں کہ کیسے ان کے اس تربیتی نظام کو نقصان پہنچائیں، تاکہ ان کی عمارت کی بنیاد کو کمزور کرکے گرایا جاسکے۔ اس سلسلے میں ہم نے دیکھا کہ اسلام کے ابتدائی دور میں ہی زکوۃ کی ادائیگی کے انکار سے لے کر آج قربانی، حج و عمرہ کی ادائیگی پر خرچ کرنے کے بجائے واٹر کولر لگا لینا یا کسی غریب کی شادی پر خرچ کر دینے جیسے چیلنجز رہے ہیں۔ یا پھر عبادات کو صرف اِنفرادی دائرہ کار تک محدود کردینا یا اس کے حوالے سے شکوک وشبہات پیدا کرکے لوگوں کو ان سے دور کر دینا رہا ہے۔
انھی چیلنجز میں سے آج اس سوشل میڈیا کے دور میں جس کا دل کرتا ہے ایک یو ٹیوب چینل بناکر، کچھ اُلٹی سیدھی حرکتیں کرکے ریٹنگ بنا کر، یا پھر سسٹم کی سپورٹ سے جدید عالم بن کر اُبھرتے ہیں اور عوام کو ان ایشوز کی طرف متوجہ کرتے ہیں، جن کا سوسائٹی سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ اور ان موضوعات کو زیربحث لاتے ہیں، جن پر عموماً ہمارا روایتی مذہبی طبقہ بات نہیں کرتا یا عقلی دلائل سے مطمئن نہیں کر پاتا اور اسی کو بنیاد بنا کر پھر اسلام کی عمدہ تاریخ اور اس کے عبادات کے نظام پر شکوک وشبہات پیدا کیے جاتے ہیں۔اَب چوں کہ ہمارے ہاں ایک عادلانہ سسٹم موجود نہیں تو ان چیزوں پر نہ ہی کوئی چیک اینڈ بیلنس ہے اور نہ ہی ان کی روک تھام کے حوالے سے کوئی بندوبست۔ اس سب میں ایسے شعبدہ بازوں اور جاہلوں کی چاندی ہے اور سونے پر سہاگہ کہ موجودہ سسٹم بھی انھیں مکمل سپورٹ کرتا ہے۔
اس سب ماحول میں آج اسلام کی ایک اہم ترین عبادت " تروایح "جس کی ادائیگی ماہ رمضان المبارک سے منسلک ہے، خاص نشانے پر ہے۔ رمضان المبارک وہ مہینہ ہے جو انسانیت کے لیے رحمت ثابت ہوا، کیوں کہ اس میں انسانیت کی راہ نمائی کے لیے ایک ایسی کتاب کا نزول ہوا جو انسان دشمن قوتوں کے راستے کی بہت بڑی رکاوٹ ہے، یہی وَجہ ہے کہ اس عبادت کی مخالفت میں اصل ہدف یہ قرآن ہی ہے۔
تراویح ”ترویحة“ کی جمع ہے اور ترویحہ ایک دفعہ آرام کرنے کو کہتے ہیں، جیسے ”تسلیمة“ ایک مرتبہ سلام پھیرنے کو کہتے ہیں۔(فتح الباری 4/250، کتاب صلاۃ التراویح)
شریعت کی اصطلاح میں ’’تراویح وہ نماز ہے جو سنت مؤکدہ ہے اور رمضان المبارک کی راتوں میں عشا کی نماز کے بعد سے صبح صادق کے درمیان جماعت کے ساتھ یا اکیلے پڑھی جاتی ہے‘‘۔
عام رواج اور معمول عشا کے بعد متصل پڑھنے کا ہے۔(اوجز المسالک، 2/514 ، باب ما جاء فی قیام رمضان) اور تراویح کی نماز کا ''تراویح'' کے لفظ کے ساتھ نام رکھنے کی وَجہ یہ ہے کہ جب صحابہ کرام ؓ جماعت اور اہتمام کے ساتھ پہلی مرتبہ اس نماز کو ادا کرنے کے لیے جمع ہوئے تو وہ ہر دوسلام (چار رکعتوں ) کے بعد ترویحہ یعنی آرام اور وقفہ کرتے تھے۔(فتح الباری 4/250)
صحیح بخاری میں 2009 نمبر حدیث ہے :
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رمضان میں قیام کیا تو اس کے پہلے سب گناہ معاف کردیے جاتے ہیں‘‘ ۔
ابن شہاب نے کہا کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو معاملہ اسی طرح رہا، پھر حضرت ابو بکر ؓ کے دور خلافت اور حضرت عمر ؓ کے ابتدائی دور حکومت میں بھی یہی حال رہا۔
اَب اس حدیث سے اس عبادت کا واضح حکم و تذکرہ سمجھا جا سکتا ہے۔ کچھ لوگوں نے یہاں قیام سے مراد " نماز تہجد" بھی لیا ہے، لیکن اس کا حکم تو ایک مہینے سے مخصوص نہیں ہے، بلکہ وہ جماعت جو سوسائٹی میں تبدیلی لانا چاہتی ہے اس کے لیے تو اس کی ادائیگی کا حکم پورے سال کے لیے ہے۔ تو ایسی اضافی عبادت جس کا تعلق صرف رمضان سے ہی ہے وہ تروایح ہی بنتی ہے۔ اسی طرح بخاری کی ہمیں ایک اور روایت ملتی ہے۔
’’میں عمر بن خطاب ؓکے ساتھ رمضان کی ایک رات کو مسجد میں گیا۔ سب لوگ متفرق اور منتشر تھے، کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا اور کچھ کسی کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔ اس پر عمر ؓ نے فرمایا، میرا خیال ہے کہ اگر میں تمام لوگوں کو ایک قاری کے پیچھے جمع کردوں تو زیادہ اچھا ہو گا، چناں چہ آپ نے یہی ٹھان کر ابی بن کعب ؓکو ان کا امام بنا دیا‘‘ ۔
حضرت عمر ؓ سے پہلے تراویح شروع ہوچکی تھی، آپ نے صرف ایک امام کے پیچھے سب کو جمع فرمایا۔
ان 2 احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کا وجود بھی تھا اور ا س کا حکم بھی۔ صرف خلیفہ راشد نے اسے ایک سسٹم میں پرو دیا، ایک ڈسپلن میں لے آئے، تاکہ ایک اجتماعیت قائم ہو اور تب سے آج تک تقریباً 1400 سال سے تواتر سے یہ سلسلہ چلا آرہا ہے اور اس پر امت کا اتفاق رہا ہے۔ اس وقت تمام جلیل القدر صحابہؓ کی موجودگی میں یہ عمل شروع ہوا اور کسی نے اس کی مخالفت نہیں کی،جس بات پر جماعت صحابہ کا اتفاق اور اجماع ہوجائے وہ امت کے لیے حجت ہے اور آپ ﷺکا فرمان بھی ہے۔
عرباض بن ساریہ ؓکہتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ ﷺہمارے درمیان کھڑے ہوئے، آپ نے ہمیں ایک مؤثر نصیحت فرمائی، جس سے دل لرز گئے اور آنکھیں ڈبڈبا گئیں، آپ ﷺسے عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! آپ نے تو رخصت ہونے والے شخص جیسی نصیحت کی ہے، لہٰذا آپ ہمیں کچھ وصیت فرما دیں، آپ ﷺنے فرمایا: ”تم اللہ سے ڈرو، اور امیر (سربراہ) کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو، اگرچہ تمھارا امیر ایک حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، عنقریب تم لوگ میرے بعد سخت اختلاف دیکھو گے، تو تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاءے راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا، اس کو اپنے دانتوں سے مضبوطی سے تھامے رہنا، اور دین میں نئی باتوں (بدعتوں) سے اپنے آپ کو بچانا، اس لیے کہ ہر بدعت گمراہی ہے“۔ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9891)
اس عمل کے جہاں بہت سے فوائد ہیں انھی میں سب سے بڑا فائدہ اس کا "حفاظت قرآن مجید" ہے۔ پوری دنیا میں حفاظ کرام رمضان کی آمد سے پہلے ہی قرآن کی دھرائی شروع کر دیتے ہیں۔ جنھوں نے قرآن سنانا ہے اور جنھوں نے سننا ہے، دونوں ہی اس عمل میں مشغول ہوکر اس کی حفاظت کر کے سینہ بہ سینہ اس عمل کو آگے پھیلاتے ہیں اور پوری دنیا میں یہ عمل بیک وقت چل رہا ہوتا ہے۔ آپ افریقہ کے کسی قاری کے پیچھے نماز پڑھیں یا یورپ کی کسی مسجد میں آپ کو وہی قرآن سننے کو ملے گا۔ اور اس طرح اللہ پاک نے اس کی حفاظت کا ایک ایسا سلسلہ شروع کروایا کہ جو رہتی دنیا تک قائم رہے گا۔ آپ کتابی نسخے جلا سکتے ہیں، ان میں ترمیم کر سکتے ہیں، لیکن جو چیز سینے میں محفوظ ہو اسے کیسے ختم کریں گے۔
اَب آپ خود سوچیں کہ اگر اس پورے عمل کو آج مائنس کردیا جائے تو کیا قرآن مجید اس درجہ میں محفوظ رہ سکتا تھا ؟ کیا اس طرح سے پوری دنیا میں اس کا ورد ہوسکتا تھا ؟کیا ایسا تو نہیں کہ آج اس کی مخالفت کی اصل وَجہ اس کا اصل ہدف قرآن کے اس حفاظتی نظام کو متاثر کرنا ہے ؟
اس لیے آج ہمیں اس بات کا شعور حاصل کرنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح دشمن قوتیں ہمیں نقصان پہنچانے کے در پے ہیں۔ اور کس طرح ہم نے اس کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ایک ایسا صالح عادلانہ نظام قائم کرنا ہے جو کہ اجتماعی سطح پر اس طرح کی حرکتوں کا سدباب کر سکے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں دین کی صحیح سمجھ و شعور عطا کرے۔ آمین!