نیشنل سیکیورٹی سٹیٹ کے خدوخال
مضمون میں ایک ایسی خوفزدہ ریاست کے خدوخال بیان کئے گئے ہیں جس میں تمام اختیارات اور وسائل کا رخ دفاعی شعبے اور اس کے حلیف طبقات کی طرف ہوتا ہے۔
نیشنل سیکیورٹی سٹیٹ کے خدوخال
مترجم: محمد عثمان، فیصل آباد
عرض مترجم۔ ”درج ذیل تحریر مشہور پاکستانی مؤرخ ڈاکٹر اشتیاق احمد کی 2013ء میں شائع ہونے والی کتاب ’پاکستان: دی گیریژن سٹیٹ‘کے صفحہ نمبر 10کا ترجمہ ہے جس میں انہوں نے ایک ایسی ریاست کے خدوخال بیان کیے ہیں جوہر وقت کسی اندرونی یا بیرونی خطرے کا شکار رہتی ہے۔ یہ خطرہ حقیقی بھی ہوسکتا ہے اور مصنوعی طور پر پیدا کردہ بھی یا ان دونوں کا مجموعہ بھی ۔ اِس خطرے کے نام پر ریاست کی تمام پالیسیوں (سیاسی، معاشی، تعلیمی)کا محور ملکی دفاع بنا دیا جاتا ہےاوروسائل اور اختیارات کا رخ بھی دفاعی شعبے کی طرف موڑ دیا جاتا ہے۔ یہ خدّوخال ہمیں اپنے وطنِ عزیز پاکستان کی تاریخ اور موجودہ حالات کو سمجھنے میں مُمدّ ومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ قارئین کی سہولت کےلیے ترجمے میں ضروری اضافے کیے گئے ہیں۔ “
نیشنل سیکیورٹی سٹیٹ ڈاکٹرائن1947ء میں ہیری ٹرومین کی صدارت کے دوران پیش ہونے والے امریکی قومی سلامتی ایکٹ کے زریعے پروان چڑھایا گیا۔ یہ ڈاکٹرائن1933ءسے 1945ء تک عہدہ صدارت پر فائز رہنے والے سابقہ امریکی صدر (فرینکلن ڈی روزویلٹ)کی ’نیو ڈیل‘ نامی ریاستی پالیسی میں تبدیلی کا اشارہ تھاجس میں امریکی ریاست کی ترجیحات میں عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے، مالیاتی اصلاحات اور بینکوں کوریاستی نظم و نسق میں لانے کےلیے قانونی ترامیم شامل تھیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد تشکیل پانے والے اس نئے ڈاکٹرائن کا مقصد دنیابھر میں نیشنل سیکیورٹی سٹیٹس کے قیام کے ذریعے عالمی سطح پر کمیونزم اور سوویت یونین کے اثر ورسوخ اور پھیلاؤ کو روکنا تھا تاکہ سرمایہ دارانہ نظام کی محافظ ریاست ہائے متحدہ امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور بن سکے۔ یونیورسٹی آف سینٹ تھامس، مینیسوٹا میں پالیٹیکل سائنس کے پروفیسر اور جنگ، قحط اورخارجہ امور پر مختلف کتابوں کے مصنف ، جیک نیلسن پالمیئر نے امریکی سرپرستی میں دنیا بھر میں قائم ہونے والی نیشنل سیکیورٹی سٹیٹس کی درج ذیل سات خصوصیات بیان کی ہیں:-
1. ہر سیکورٹی سٹیٹ میں اقتدار اعلی ٰ کی مالک ملٹری یعنی فوج ہوتی ہے۔فوج اپنے آپ کو قومی مفادات کے واحد محافظ کے طور پر پیش کرتی ہے اورسیاسی، معاشی اور دفاعی معاملات پر اپنا اثر ورسوخ بتدریج بڑھاتی رہتی ہے۔
2. نیشنل سیکیورٹی سٹیٹ جمہوریت کو شک کی نظر سے دیکھتی ہے۔ اگر کسی سیکورٹی سٹیٹ میں رسمی طور پر دکھاوے کی جمہوریت موجود بھی ہو، تب بھی طاقت اور اختیارات کا مرکز فوج ہی رہتی ہے۔
3. سیاسی اور معاشی وسائل اور طاقت کا قابلِ ذکر حصہ فوج کے قبضے میں ہوتاہے۔
4. ایسی ریاست دشمن طاقت کے خبط میں مبتلا ہوتی ہے، یعنی اس کے حواس پر ہر وقت کوئی نہ کوئی دشمن طاقت سوار ہوتی ہے۔ کبھی یہ دشمن طاقت اندرونی ہوتی ہے اور کبھی بیرونی۔
5. دشمن کو چالاک، دھوکے باز اور بے رحم طاقت کے طور پر پیش کیا جاتاہے تاکہ اسے ختم کرنے کےلیے ہر طرح کے حربوں کو قانونی اور اخلاقی جواز فراہم کیا جاسکے۔
6. نیشنل سیکیورٹی سٹیٹ عوامی سطح پر مکالمے کے عمل پر پابندیاں لگاتی ہےاور قومی معاملات میں عوام کی شرکت کو محدود کرنے کے لیے خفیہ منصوبہ بندی اور خوف وہراس پر مبنی ہتھکنڈے استعمال کرتی ہے۔
7. یہ ریاست چرچ (اور دیگر مذہبی اداروں مثلاً مسلمان علماء،ہندوپنڈت، یہودی ربّی وغیرہ) سےتوقع رکھتی ہے کہ وہ اپنے مالیاتی، نظریاتی ، علمی او ر افرادی وسائل نیشنل سیکیورٹی سٹیٹ کے حق میں استعمال کریں گے۔
نیلسن پالمیئرمزید بیان کرتے ہیں کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے 1991ء میں عراق پر حملے کرنے کے لیے یہ جواز تراشا کہ صدام حسین نے کویت پر حملہ کرکے علاقائی اور عالمی امن کوخطرے میں ڈال دیا ہے۔حالانکہ عین اسی زمانے میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ، براعظم وسطی امریکہ کے ممالک(گوئٹے مالا، نکاراگوا وغیرہ ) میں ایسی وحشیانہ جنگی کاروائیوں میں پوری طرح ملوث تھاجن کے نتیجے میں ان ممالک کی معیشتیں تباہ حال ہوگئیں اور پورے خطے میں غربت اور افلاس نے ڈیرے ڈال لیے۔ خود ریاست ہائے امریکہ میں صورت حال یہ ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ایک طرف غربت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے تو دوسری طرف دولت کے انبار چند ہاتھوں میں اکٹھے ہوتے جارہے ہیں۔